عمیر اقبال

بطور نفسیات کے طالب علم ، میں نے یہ مضمون بی اے میں پڑھا تھا، سگمنڈ فرائڈ اور کارل ژونگ ، دونوں کا قدردان اور مداح رہا۔
فرائڈ کی خوابوں کی تعبیر اور شعور، لاشعور اور تحت الشعور کی تھیوری مجھے ہمیشہ facinate کرتی رہی۔ لیکن اس بات کا قائل نہ ہو سکا کہ انسان کی واحد پرائمری جبلت صرف جنسی خواہش ہی ہے۔
جب کارل ژونگ کو پڑھا تو دماغ بہت وسیع ہوگیا اور اس کی اجتماعی لاشعور collective subconscious کی تھیوری بے حد پسند آئی اور درست لگی۔ کہ انسانوں کا کوئی گروہ جب کسی مخصوص ماحول میں ایک مسلسل خطرے سے دوچار ہوتا ہے تو وہ خطرہ اور اس کا دفاعی ردعمل ان میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے اس طرح کہ وہ انکی فطری جبلت بن جاتا ہے۔
مثلاً ایک مخصوص واقعہ یا خطرہ پہ ، روایتی چار پہاڑی سلسلوں کے اندر رہنے والے ایرانی یا ایران کے نقشہ کے اندر رہنے والے ایرانی ، کرد، بلوچ ، عرب ، ترک، پنجابی ، سرائیکی، سندھی ، پشتون ، ہندو یا کشمیری کیا ردعمل دیں گے ؟
اس کا انحصار انکے اجتماعی لاشعور پہ ہے کہ انہوں نے اپنے صدیوں کے تجربہ سے کیا سیکھا تھا؟
وہ انکی جبلت بن چکا ہے جنس، بھوک یا تحفظ کی بنیادی جبلتوں کی طرح۔
اب سوال ہے کہ کیوں فرائڈ کو زیادہ اٹھایا گیا اور کارل ژونگ جیسے نابغہ کو نظرانداز کیا گیا ؟
تو یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ ایک تو سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات تب اس دور میں نیو لبرلازم ، فیمنزم اور گے لبریشن کو تقویت دیتے تھے اور دوسرے وہ یہودی تھا۔ یاد رہے کہ سگمنڈ فرائڈ بیسیوں صدی کی ابتدا کی پیداوار تھا جب ادب میں رومانویت اور وژول آرٹ یعنی مصوری میں فرنچ expressionism یا پکاسو کی وجہ سے کیوبزم کا دور دورہ تھا ، عوامی آرٹ میں Arte Nuevo کا دور دورہ تھا جس کی ابتدا ہنگری کے ویانا سے ہوئی تھی اور وہیں سے عوامی رجحان میں بوہیمین ازم مقبول تھا۔ فرانز کافکا اسی دور کی پیداوار تھا اور بوہیمین ازم کا علمبردار تھا۔
کارل ژونگ اس کے بعد کی پیداوار ہے وہ جرمن بولنے والا سوئس باشندہ تھا۔ نفسیات پہ ژونگ کا اتنا کام ہے کہ آئندہ کئی صدیوں تک صرف اس کے کام پہ ہی ریسریچ ہوتی رہے تو کافی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیوں اس بری طرح سے نظرانداز ہوا ؟
اس کی ایک وجہ تو یہ لگتی ہے کہ وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھا یورپ پہلے بیان کئے گئے مخصوص ماحول کا شکار تھا جس میں پہلی جنگ عظیم کی تھکاوٹ کے ساتھ arte nuevo فرنچ Impressionism اور سپینش cubism کے ساتھ نیو لبرلزم مل چکا تھا اور سگمنڈ فرائڈ کی جنسی جبلت کی اولیت کی تھیوری ساتھ ساتھ یہودی سرمایہ کی سرمایہ داری کی آزادی کی خواہش ساتھ ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملا کر کام کر رہی تھی۔
جبکہ دوسری طرف بیالوجی کی اس وقت کی ریسرچ نسل پرستی کو سائنسی بنیادیں فراہم کررہی تھی۔ اس دور میں ایسا جرمن بولنے والا سوئس نفسیات دان جب اجتماعی لاشعور کی تھیوری پیش کر گیا تو طاقتور حلقوں کو یہ خوف درپیش ہوا کہ اس سے جرمن نازی پارٹی کو نسل پرستی کے نظریہ میں تقویت ملے گی۔ سو کارل ژونگ کو بری طرح سے نظرانداز کیا گیا جس طرح جرمن آٹو انجنیئر فرڈیننڈ پورش Porsche کو۔ ورنہ دونوں ہی اپنے عہد کے نابغہ تھے اور جرمن وسطی یورپی علم پسندی کی روایت کے علمبردار۔
علم پہ سیاست ہمیشہ سے اثرانداز ہوتی رہی اس پہ جبر کرتی رہی یہ صرف مسلم دنیا کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ ہم سب کو زیادہ مہذب ہونے کی ضرورت ہے ہم تہذیب کی کمی کے شکار ہیں ، کیا مشرق کیا مغرب

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply