سڑکوں پر بٹتی اذیت ناک موت/محمد وقاص رشید

کیا کوئی ہے ؟ کوئی ہے جو اس ملک کی سڑکوں پر بٹتی اذیت ناک ترین موت کا یہ سلسلہ روک لے۔ انسانوں کی زندگیوں کو دردناک ترین انجام سے دوچار کرتی ان بڑی بڑی بسوں کے اس وحشی رقص کو ٹوک لے۔ جن کی ڈرائیونگ سیٹوں پر بیٹھے اکثر بے درد بے لگام حیوان روزانہ نجانے کتنے خاندانوں کو اپنی ان بسوں کے ٹائروں کے نیچے کچل دیتے ہیں۔ انسانی زندگی کی ارزنی اور بے وقعتی کی آماجگاہ اس سر زمین پر یہ درندے اڈوں پر دوسروں سے پہلے پہنچ کر سواریاں اٹھانے اور چند ٹکے کمانے کی بھینٹ کئی انسانی زندگیوں کو چڑھاتے ہیں۔

کربناک ترین موت کے بٹنے کا یہ مشاہدہ روزانہ اس ملک کی سڑکوں پر عام ہے۔ ان بڑی بسوں والوں کے لیے یہاں پیدل ، سائیکل اور موٹر سائیکل سوار تو گویا کیڑے مکوڑے ہیں جنکو یہ اس یقین کے ساتھ کچل ڈالتے ہیں کہ انکے سوگواران و لواحقین انکا بگاڑ ہی کیا لیں گے۔

یہ مادر پدر آزاد وحشی ڈرائیورز اس بات کا احساس رکھنے سے عاری ہوتے ہیں کہ اپنے چند ٹکوں اور کاروباری رعونت و مفاد کے لیے جن کاندھوں کو یہ اپنی ان دندناتی بسوں کے ٹائروں تلے کچل ڈالتے ہیں ان پرماں باپ کا بڑھاپا پڑاؤ کیے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ بھی ساتھ ہی کچلا جاتا ہے ۔ وہ ہاتھ جو ان سڑکوں پر پڑی بجری میں دفن کر دیے جاتے ہیں چند لمحوں قبل وہ اپنی مشقت سے کئی زندگیوں کا رزق کشید کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی ساتھ ہی زندہ درگور ہو جاتا ہے. جن بازوؤں کو یہ فولادی بمپروں کی اندھا دھند میں لا کر ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں یہ بازو مل کر پھول جیسے بچوں کی آغوش بنتے ہیں یتیمی کی صلیب جنہیں بے یارو مددگار کر دیتی ہے۔ الغرض یہ کہ جن انسانوں کو یہ بہیمانہ رفتار سے چلائی جاتی بسیں سڑکوں پر جیتے جی اذیت ناک ترین موت مار دیتی ہیں وہ اکیلے نہیں مرتے انکے سنگ کسی کا بچپن زندہ درگور ہوتا ہے کسی کا بڑھاپا ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور کسی کا سہاگ اجڑ جاتا ہے۔ یہاں ایک کے ایک دم مرجانے سے کئی زندگی بھر ہر دم مرتے ہیں۔

یہی ہُوا بھلوال کے دو رہائشیوں الیاس اور عثمان کے ساتھ۔ الیاس ایک کارپینٹر جبکہ عثمان اسکا ہیلپر تھا۔ 30 سالہ الیاس کی 3 سال قبل شادی ہوئی تھی اسکے دو بچے ہیں ایک بیٹا 2 سال کا اور دوسرا چند ماہ کا ہے جبکہ 20 سالہ عثمان 6 بہنوں اور بوڑھی ماں کا اکلوتا کفیل تھا۔

مورخہ 3-9-22 کی بد قسمت دوپہر کو یہ دونوں اپنی مزدوری ہی کے سلسلے میں بھلوال سے سالم جانے کے لیے نکلتے ہیں ۔ مقیم موڑ کے مقام پر ایک دم سامنے سے رنگ سائیڈ سے بہیمانہ رفتار سے آتی Daewoo بس نمبر LES-6593 جسکو ضمیر رشید انتہائی مجرمانہ غفلت سے چلا رہا ہوتا ہے اسکی زد میں آتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں جیتے جاگتے زندہ انسانوں سے کٹی پھٹی لاشوں میں بدل دیے جاتے ہیں۔

الیاس کے گھرانے کو راقم ذاتی طور پر جانتا ہے ۔ بختوں کی جو مشقِ ستم اس نے سہی الامان الحفیظ۔۔اسی مقیم موڑ پر آج سے 4سال قبل الیاس کے چھوٹے بھائی عبدالحسیب کا بالکل ایسے ہی بائیک پر حادثہ پیش آیا تھا۔ اس گھرانے کے لیے تو ابھی وہی زخم ہرا تھا اور وہ وقت کے مرہم کے منتظر تھے کہ یہ قاتل گھاؤ۔ خدا ان پر خصوصی رحم کرے۔

ستم بالائے ستم کہ دو خاندانوں کے کفیل مار کر انہیں بے یارو مددگار کر چھوڑنے والے ڈرائیور کی ضمانت ہو جاتی ہے اور نا صرف اسے دیس کی سڑکوں پر انسانوں کو روندنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہےبلکہ دو غریب اور مفلوک الحال خاندانوں کے یتیم بچے ، بے آسرا بوڑھے ماں باپ ، بے بس بہنیں اور بے یقینی سے زندگی کی جانب سوگوار آنکھوں سے تکتی ایک بیوہ کو بھی انکے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

آپ اس ملک میں قانون اور حقداری کا عالم دیکھیں ان سوگواران تک بس کمپنی اور ڈرائیور وغیرہ کا یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ یہ تو ہمارا روزمرہ کا کام ہے اسطرح کے کیسز ہماری انشورنس کمپنیاں دیکھتی ہیں جو کہ لاکھ ڈیڑھ دے دلا کر معاملہ ختم کر دیتی ہیں۔ آپ نے ابھی کیا پڑھا۔۔۔۔؟ جی ہاں اندازہ لگائیے کہ دو خاندانوں کے کفیل چھین کر انہیں یا چند کاغذ کے نوٹوں میں اپنے پیاروں کی کٹی پھٹی لاشوں کا سودا کرنے پر مجبور کرنا یا پھر بے بسی کی بیساکھیوں پر نجانے کب تلک عدالتوں میں خوار کرنا۔ یہ ہے یہاں کا قانون۔

الیاس اور عثمان کے غریب خاندان ریاستِ پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ عینی شاہدین اور جائے وقوعہ سے اکٹھے کیے گئے شواہد پر تیار کی گئی FIR کے مطابق یہ سیدھا سادھا دوہرا قتل ہے۔ رانگ سائیڈ سے بہیمانہ رفتار اور مجرمانہ غفلت سے آکر دو موٹر سائیکل سواروں کو اپنے بچنے تک کی مہلت نہ دینا یہ حادثہ نہیں دوہرا قتل ہے۔ اور اس اسلامی ریاست میں اسلامی قانون کے مطابق اس پر قصاص و دیت کا قانون لاگو کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسکے ساتھ اس تحریر اور اس سے منسلک ویڈیو کو اس لیے بھی شئیر کریں کہ ہم میں سے ہر کسی کا ہر روز ان بسوں اور سڑکوں سے پالا پڑتا ہے۔ نہ جانے کب کس وحشی کے ہاتھوں پیروں میں کھیلتی کون سی موت کی اڑن طشتری کب ہم میں سے کسی جیتے جاگتے کو خدانخواستہ ایک کٹی پھٹی لاش میں تبدیل کر دے اور ہمارے خاندانوں کو یہ علم نہ ہو کہ روتی آنکھوں سے اب اہلِ آسمان کی طرف دیکھنا ہے یا اہلِ زمین کی جانب۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply