مستقبل کے عارضی مستقل سہارے/ظفر اقبال وٹو

آپ نے ملک بھر کے سیلاب زدہ علاقوں میں سیلابی پانیوں سے گھری قدرے محفوظ جگہوں پر مختلف اداروں کی طرف سے قائم خیمہ بستیاں دیکھی ہوں گی۔ یہی ہمارے مستقبل کے عارضی مستقل شہروں کی لوکیشن ہے۔ قدرت نے ہمارا کام آسان کر دیا ہے۔ تمام موسمیاتی اور ماحولیاتی گُرو بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں بڑے سیلاب جو یہ چار پانچ سال کے وقفے سے آتے تھے اب ہر سال آئیں گے اور اسی طرح زور آور آئیں گے۔ لہذا بچت اب اس سیلابی صورت حال کے مطابق ڈھل جانے والی تدبیر اپنانے کی ہے۔

قدرتی آفات کی روک تھام کے ادارے NDMA کو ملک کے سیلاب زدہ علاقوں میں قائم ان خیمہ بستیوں کی جگہوں پر باقاعدہ طور پر مون سون سیزن کے لئے مستقل طور پر محفوظ عارضی پناہ گاہیں بنا دینی چاہئیں۔ حج کے دوران منی میں قائم عارضی خیمہ بستی شہر کا ماڈل اس کام کے لئے سامنے رکھا جا سکتا ہے جہاں ہر سال بیس سے پچیس لاکھ لوگوں کے پانچ روزہ قیام کے لئے زبردست بندوبست ہوتا ہے۔

بیماری سے پہلے احتیاط کے اصول پر سیلابی موسم سے پہلے محفوظ خیمہ بستیوں میں عارضی ہجرت سے جانی و مالی نقصانات، بیماریوں، حادثات اور کرب سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ الخدمت جیسی فلاحی تنظیم اس وقت تن تنہا سیلاب زدہ علاقوں میں 40 سے زیادہ خیمہ بستیاں چلا رہی ہے جہاں کھانے پینے، علاج معالجے اور بنیادی طبی امداد کا بندوبست ہے۔

اللہ اکبر اور دیگر بہت سی اور فلاحی تنظمی بھی میدان عمل میں ہیں جنہیں اعتماد میں لے کر NDMA بڑے پیمانے پر لوگوں کو سیلابی موسم میں عارضی پناہ گاہوں میں ہجرت پر آمادہ کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں نادرہ کی مدد سے ان خیمہ بستیوں میں مقیم لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے اگلے سال کے لئے ان کے خاندان اور جانوروں کی ضرورت کی جگہ ان خیمہ بستیوں میں ابھی سے الاٹ کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ عارضی ہجرت میں تعاون کریں انہیں بھرپور سپورٹ کی جائے۔

بہت سی فلاحی تنظیمیں لوگوں کے گھروں کی بحالی پر بھی بڑی تیزی سے کام کر رہی ہیں جوکہ شائد اگلے سیلاب میں پھر گر جائیں گے۔ لہذا ضرورت ہے کہ اب سیلابی پانی سے بچاؤ کرنے والے گھر بنائے جائیں جو کہ سیلابی پانی کے لیول سے اونچے ہوں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش اور مالدیپ جیسے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کم ازکم تمام حکومتی اداروں (سکول، ہسپتال، دفاتر) کی عمارتیں تو ضرور اس ڈیزائن پر بنائی جائیں جن میں سیلاب کے دوران ایمرجنسی طور پر پناہ لی جا سکے۔ ان عمارتوں کو چھتیں پیدل چلنے والوں کے لئے پل بنا کر آپس میں جوڑ دی جائیں۔

اس سال سیلاب کے گندے پانی کو پینے کے قابل بنانے والے بہت سے مقامی فلٹر پلانٹ سامنے آئے ہیں جنہیں بھرپور سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ خشک خوراک اور ادویات کے واٹر پروف پیکٹ اور تین چار کلومیٹر رینج میں ڈرون سے اون سپاٹ ڈیلیوری بھی کی جا سکتی ہے۔ این ڈی ایم اے، PDMA، ریسکیو 1122 اور اس جیسے دوسرے اداروں کے ذریعے مقامی لوگوں کو ایمرجنسی طور پر تیراکی، کشتی بنانے اور ڈوبتے کو ریسکیو کرنے کی تربیت دینی چاہئے۔

ان علاقوں کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا پر ان مہارتوں کو سیکھنا لازمی ہو اور این سی سی کی طرح اس کے نمبر ان کے ایف ایس سی کے رزلٹ یا یونیورسٹی کے داخلے میں شامل ہوں۔ خیمہ بستی والی اونچی جگہوں پر ایمرجنسی میں چند گھنٹے کے نوٹس پر خیمہ بستی قائم کرنے کا بندوبست، خوراک ادویات اور مشینری وقت سے پہلے موجود ہو۔ اس سلسلے میں ایک مرتبہ پھر الخدمت پہل کر لے تو دوسروں کے لئے بھی ایک مثال قائم ہو جائے گی۔

سیلابی صورت حال سے وقت سے پہلے آگاہ کرنے اور اس سے بچاؤ کے لئے راہنمائی کرنے والی ایپ اب بہت ضروری ہے جس میں تمام نشیبی علاقوں اور پناہ گاہوں کی نہ صرف نشاندہی ہو بلکہ اس علاقے میں کام کرنے والی تمام فلاحی تنظیموں اور محکموں کی معلومات اور آن لائن روابط ہوں اور ریسکیو کے لئے موجود لوگوں اور کشتیوں کی لوکیشن اوبر اور کریم طرز پر آ رہی ہو اور قریب ترین کشتی کو بلا کر ریسکیو کیا جائے۔ اس سلسلے میں کسی بھی مناسب پروپوزل کو گوگل میپ، اوبر، کریم اور فیس بک یقیناً سپورٹ کریں گے اور اپنے اپنے پلیٹ فارم پیش کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا ہم آنے والے کل کے لئے تیار ہونا چاہتے ہیں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply