استادوں کی اباگیریاں ۔۔۔ ہما

استادوں کی ابا گیریاں۔۔۔۔۔۔

مس آپ کو تو لکھنا ہی نہیں آتا، ادھر دیں میں لکھ کر دکھاؤں۔
چھ سالہ جہانزیب نے میرے ہاتھ سے اپنی ڈائری چھینی اور کچھ الفاظ لکھنے لگا
میرے ہاتھ ہوا میں معلق رہے اور میں اسے دیکھ کر مسکراتی رہی۔۔۔
اور پھر اس کے بے ترتیب لفظوں کو ہنسی مذاق میں درست کروادیا کہ سر ایسے نہیں ایسے لکھتے ہیں ۔۔۔۔
ٹیوشن کے  بچوں کی چھٹی کے بعد میری بڑی بہن نے مجھے کہا۔
ذرا جہانزیب کو ڈانٹا کرو کس طرح بات کرتا ہے۔
میں نے جواب دیا اسے ڈانٹوں؟
مطلب  بچوں میں جو سب سے ذیادہ پراعتماد ہے ڈانٹ کر اس کااعتماد چھین لوں کہ پھر کبھی وہ ہمت نہ کرپائے؟؟
یہ ماضی قریب تھا۔
ماضی بعید میں جھانکوں تو ایک چھوٹی بچیوں سے بھری کلاس ہے جو اپنے شور و غل میں مگن ہے۔
اچانک سندھی مضمون کی خطرناک استاد مس زاہدہ کی آہٹ سے سب ڈر جاتیں ہیں۔
مس جماعت میں داخل ہوتے ہی چلاتی ہیں
کس بات کا شور ہورہا ہے؟؟؟؟؟

میں جو اس وقت جہانزیب کی عمر میں تھی جواب دیتی ہوں۔

مس آج ہماری کلاس ٹیچر نہیں آئیں۔
اور پھر ایک زور دار زناٹے دار تھپڑ میرے چہرے پر پڑتا ہے۔

پتہ نہیں ہے مس کے سامنے کیسے بات کرتے ہیں؟؟
تمیز نہیں سکھائی کسی نے؟؟؟

اچانک چھٹی کی بیل سے مجھے انکی رعونیت سے رہائی ملی، لیکن اس ایک تھپڑ نے میرا چہرہ میرا حلق سب آنسوؤں سے بھردیا تھا۔

اس کے بعد جب تک وہ سندھی مضمون کی ٹیچر رہیں میں یا تو پیچھے ڈیسک پر جابیٹھتی یا پھر اس دن چھٹی کی کوشش کرتی جب انکا پیریڈ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایسا نہیں ہوا کہ ہمیشہ یہ خوف کا دور ہی رہا ہو۔
وہ دن بھی آئے جب میٹرک کے دوران کیمسٹری کی خطرناک ٹیچر نے جنرل چیک کرتے ہوئے سر پر مارا کہ غلط لکھا ہے۔
اور وہی جنرل ان کے سامنے رکھ کر انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ پھر سے چیک کریں، ایکویشن درست ہے اور ان کے سوری کے بعد خوامخواہ میرے پریکٹیکل جنرل پر ریڈ مارکنگ کردی کہہ کر باور کروایا کہ وہ غلط ہیں۔

بہرحال کہانیاں پیش کرنے کا مقصد ایک اہم موضوع کی جانب توجہ دلانا تھا

اور وہ ہے

استاد اور شاگرد

دنیا میں فطری رشتوں کے علاوہ اگر کوئی رشتہ مانا جاتا ہےتو وہ ایک روحانی رشتہ استاد اور شاگرد کا ہوتا ہے۔ حقیقی باپ کے بعد بچے کا روحانی باپ استاد کو کہا جاتا ہے،کیونکہ اگر باپ بچے کی جسمانی پرورش کرتا ہے تو استاد بھی اسں کے شانہ بشانہ اسی کی طرح اپنے شاگرد کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔

اب لفظ باپ کے بہت سے نام ہیں بہت سے روپ ہیں،

جو نام سب سے زیادہ سخت اور رعب دار ہے وہ ہے ابا۔

بابا، ابو، اور دوسرے لفظوں میں شاید باپ سے رحم پدری کی امید ہوجائے

لیکن ابا کا نام آتے ہی سمجھو “کچھ بھی غلط کیا تو اب ہماری خیر نہیں “۔

پہلے زمانوں کے ابا بچوں کے لیے کوئی سخت فوجی کا منظرنامہ پیش کرتے ہوئے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر ایک سخت استاد کے پاس لے جاتے اور ایک جملہ کہتے۔
استاد جی اس کو پڑھاؤ نہ پڑھے تو ہڈی آپکی کھال میری ۔۔

اور پھر استاد بچوں کے حلق سے حلوہ تک نکلوادیتے اپنے ڈنڈے کے زور پر ۔۔

کاش یہ بات پہلے زمانوں تک محدود ہوچکی ہوتی لیکن آج کے جدید دور میں بھی ہمیں ہر کچھ روز بعد استادوں کی اس ابا گیری کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پاکستان میں بہت زیادہ کیسز مدارس میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں عربی زبان اتار چڑھاؤ کے ساتھ درست لہجے میں سکھانے پر بچوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
قرآن کریم کا نزول عربی زبان جاننے والوں پر ہوا۔
اب عجمی بچوں کو ان کی اپنی مادری زبان میں قرآن کا حقیقی پیغام پہنچانے کی اہلیت نہیں رکھتے تو بس اپنا غصہ اور تمام تر جہالت کے ساتھ بچے کے جسم پر اپنے تشدد کے نشان چھوڑتے ہیں ۔

پچھلے ہی ہفتے ایک واقعہ اپنے علاقے میں سنا کہ ایک نازک سا سات سالہ بچہ ایک حافظ صاحب کے غصے و عتاب کا شکار ہوا۔ اس کی والدہ نے قاری کے خلاف رپورٹ تو درج کروادی لیکن اس کی غربت نے اسے اس بات کا فیصلہ نہیں کرنے دیا کہ بچے کا علاج کروائے ،دوسرے بچوں کوپالے یا یہ مقدمہ بازی کرے۔

زیر نظر تصویر بھی کچھ پرانی نہیں، اس بچےکی وائرل ویڈیو میں چیخیں سن کر بے اختیار دل نے بددعا دی۔


استادوں کی یہ اباگیریاں صرف مدارس تک محدود نہیں بلکہ جدید اسکول بھی ان سزاؤں کو دینے سے نہیں کتراتے۔
بچہ کلاس میں دیر سے پہنچا۔
بچے کو استاد کی سمجھائی ہوئی بات سمجھ نہیں آئی ،پوری کلاس خاموش رہی جس نے پوچھنے کی جسارت کی اسے ہی سب سے زیادہ ڈانٹ سننا پڑی کہ باقی سب کی سمجھ آگیا تم ہی سب سے نالائق ہو؟

ابنِ خلدون (1406ء-1332ء) جسمانی سزا کے بارے میں کہتے ہیں کہ
درحقیقت تشدد اُستاد کی نااہلی کی دلیل ہے۔ تعلیم میں سختی و تشدد سخت مضر ہے۔ بچوں کے ساتھ ہی نہیں اگر غلاموں اور خادموں کے ساتھ بھی ظلم و تشدد اور قہروغضب کا برتاؤ کیا جائے تو اُن کی طبیعت بُجھ جاتی ہے اور دل سے اُمنگ، خوشی اور چہرے سے بشاشت دُور ہوجاتی ہے، طبیعت میں سختی، جھوٹ، دغا، مکروفریب اور دوسری برائیاں ان کی فطرت میں داخل ہوجاتی ہیں۔
یہ سب سختی کے ڈر سے ہوتا ہے۔ ابنِ خلدون تجویز دیتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ، پہلے سے سکھانے کے وہ طریقے اپنائے جائیں کہ سزا کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

بین الاقوامی قوانین کے مطابق بچے کو دی جانے والی ہر قسم کی سزا پر پابندی ہے۔

اقوام متحدہ کے شعبہ(CRC(Convention on the right of child

کے حالیہ بیانیہ کے مطابق بچوں کو دی جانے والی تمام سزاؤں کع جیسے بے عزتی کرنا، شرمندہ کرنا، دھمکانا، خوفزدہ کرنا یا مذاق اڑانا انتہائی ظالمانہ عمل قرار دیا گیا ہے

بچوں کو دی جانے والی سزاؤںcorporal punishment کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اسکول کارپورل پنشنمٹ میں بچوں کو چھڑی سے مارنا ،ان پر چیخنا چلانا، انہیں اضافی کام کرنے کیلئے دینا یا چھٹی بند کردینا ہیومن رائٹس قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان سزاؤں کا دیا جانا اکثر والدین بخوشی قبول کرلیتے ہیں کیونکہ وہ اس عمل کو اپنے بچے میں ڈسپلنیڈ بنانے میں معاون سمجھتے ہیں ۔

تعلیم سے تعلق رکھنے والی ایک عالمی تنظیم الف اعلان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ستر فیصد سے زیادہ اساتذہ بچوں کو سزا کے ذریعے پڑھانے کے حق میں ہیں ۔
2006میں پاکستان نے کارپورل پنشمنٹ ختم کرنے کا عہد کیا اور پھر یکے بعد دیگرے قوانین پاس کئے لیکن ان تمام قوانین کا اطلاق ممکن نہ ہوسکا جس کی بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی رہی۔

بچے بذات خود کچھ نہیں ہوتے، ماں باپ اور استاد اس کی کردار سازی کرتے ہیں، اسے دنیا کے اسرار و رموز سے واقف کراتے ہیں۔ بہت سے ماں باپ اپنی علمی قابلیت کو اپنے بچے کی پرورش کے لیے ناکافی سمجھتے ہوئے استادوں کا سہارا لیتے ہیں، لیکن آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ استاد اپنے مقام اور مرتبے کو سمجھنے کے بجائے ایک کاروبار سے وابستہ ہوچکا ہے۔
اسے اپنے شاگرد کی اچھی کارکردگی صرف اس لئے مطلوب ہوتی ہے کہ اس کی بہترین کارکردگی دکھاکر اپنے ادارے کا نام روشن کرسکے، پھر اس کے لئے وہ ڈسپلن کے نام پر شاگرد کی خراب کارکردگی پر اسے شرمندہ کرنا، اس کی عزت نفس پامال کرنا، دھمکانا، خوفزدہ کرنا، یا مذاق اڑانا اپنا حق سمجھتا ہے۔

آسان لفظوں میں اباگیریاں کررہا ہے ۔
اگر استادوں کی ان ابا گیریوں کی روک تھام کرنی ہے تو استادوں کی تربیت لازم ہے،کیونکہ ایک تربیت یافتہ، بااخلاق استاد ہی اپنے شاگرد کی بہترین شخصیت بنانے میں معاون ہوسکتا ہےبصورت دیگر اس معاشرے میں خوف کی فضا میں ذہنی مریض اور منفی ذہنیت رکھنے والے دہشت گرد ہی پیدا ہونگے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ ۔۔۔ہوسکتا ہے ہر کسی کے ابا اس قدر خطرناک نہ ہوتے ہوں جیسی منظر کشی میں نے کی ہے لیکن پھر ہوسکتا ہے وہ ابا نہ ہوں ابا جی ہوں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply