پچھلی پوسٹ میں ایک کامیاب مرد کے کم عمر لڑکیوں سے شادی کے رجحان کی وجوہات اور اسباب پر گفتگو کی تھی اور آخر میں دو لائنوں میں یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر ایک کامیاب مرد کو اپنی کریٹیویٹی اور پروڈکٹیویٹی بڑھانی ہے تو وہ ہر دس سال بعد کم عمر لڑکی سے شادی کر لے۔ یہ مشورہ کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آیا۔ کچھ خواتین نے اس کو پرسنل لے لیا کہ جیسے ان کے شوہر کی بات ہو رہی تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں ہماری خواتین کو شانت رہنا چاہیے کہ ان کے شوہروں کو کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا جا رہا۔ پوسٹ کا عنوان کامیاب مرد تھا اور کامیاب مرد سے مراد لیڈر شپ کی صلاحیتیں رکھنے والا مرد ہے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا مراد نہیں ہے۔
عموماً نبیوں کی شادیاں ایک سے زیادہ ہی ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم، حضرت سلیمان علیہما السلام اور خود رسول اللہﷺ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی تو ستر سے سو شادیاں معروف ہیں۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کی بھی یہی صورت حال تھی کہ ڈھیر شادیاں اور ساتھ میں لونڈیاں بھی ہوتی تھیں۔ دیکھیں، جس مرد نے دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا ہے، اسے سیکسچوئل فرسٹریشن سے نکلنا ہو گا، ورنہ وہ کچھ بڑا نہ کر پائے گا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مغرب نے سیکس فری سوسائٹی کے ذریعے جنسی آسودگی (sexual pleasure) حاصل کر لی اور کام پر فوکس کیا اور دنیا میں کچھ کر دکھایا۔ ہمارا مرد ابھی تک جنسی گھٹن سے باہر ہی نہیں آ رہا۔ اور یہ گھٹن بھی معذرت کے ساتھ سوسائٹی نے پیدا کی ہوئی ہے نہ کہ مذہب نے۔ اس میدان میں مذہبی تعلیمات کو علاقائی، رواجی اور ثقافتی تشریحات اور اسٹیمپس کے ذریعے مسخ کر دیا گیا ہے۔
پچھلی پوسٹ پر ہی بعض ریڈرز کہہ رہے تھے کہ ایسی پوسٹوں سے بے حیائی پھیل رہی ہے۔ یہ وہی فرسٹریشن ہے کہ عورت پاس سے گزر جائے تو ساری رات ذہن پر سوار رہتی ہے۔ مجھے وہ حکایت یاد آ رہی ہے کہ بدھ مت کے دو بھکشو تربیت لینے کے بعد واپس اپنے گاؤں جا رہے تھے کہ رستے میں پڑتی ندی میں سیلاب آیا ہوا تھا۔ ایک خاتون نے ان سے مدد مانگی کہ اس کو بھی ندی پار کروا دیں۔ ایک تیار ہو گیا جبکہ دوسرے نے انکار کر دیا کہ یہ پاپ ہے۔ بہر حال جو تیار ہو گیا تھا، اس نے عورت کو کندھے پر سوار کیا اور ندی پار کروا کے اسے اُتار دیا۔ اس کے بعد دونوں میلوں خاموشی سے چلتے رہے کہ کافی آگے جا کر مخالفت کرنے والے نے خاموشی توڑتے ہوئے دوسرے بھکشو سے کہا کہ تم نے اس عورت کو کندھے پر بٹھا کر پاپ کیا ہے۔ دوسرے بھکشو نے جواب دیا کہ میں نے تو عورت کو ندی کے کنارے اپنے کندھوں سے اتار دیا تھا لیکن تمہارے کندھوں پر وہ ابھی تک سوار ہے۔ یہی صورت حال فی الحال سیکس کے بارے ہمارے متشدد مذہبی طبقے کی ہے کہ وہ ان کے کندھوں پر سوار ہے۔
رہی یہ بات کہ کامیاب مرد یا لیڈرانہ مزاج رکھنے والا مرد تو چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے شادی کے ذریعے جنسی آسودگی حاصل کر لے کہ اس نے دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا ہے تو کامیاب عورت کیا کرے؟ کیا اس کو جنسی آسودگی نہیں چاہیے؟ وہ بھی بعض اوقات ایک نکمے مرد کے ساتھ بندھ جاتی ہے اور ساری زندگی گھٹ گھٹ کر گزار دیتی ہے۔ اس کو تو زیادہ شادیوں کی بھی اجازت نہیں ہے۔ دیکھیں، یہ ایک معقول اعتراض ہے۔ ہماری رائے میں ایسی کامیاب عورتوں کو خلع لے کر شوہر سے علیحدہ ہو جانا چاہیے اور آگے کسی اور کامیاب مرد سے شادی کر کے لائف کو موو آن کریں۔
اور اگر اس کے لیے کئی ایک بار بھی کئی ایک شوہروں سے طلاق لینی پڑے تو شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ صحابیات میں ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں کہ ان کی تین، چار، پانچ پانچ شادیاں ہو جاتی تھیں۔وہاں طلاق گالی نہیں تھی بلکہ ایک روٹین کی بات تھی اور بہت عام سی بات تھی۔ گالی تو اسے ہمارے کلچر نے بنا دیا ہے۔ میں پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ پچھلی پوسٹ میں بھی سب مردوں کی نہیں کامیاب مردوں کی بات ہو رہی تھی جبکہ اس پوسٹ میں بھی سب عورتوں کی نہیں نلکہ کامیاب عورتوں کی بات ہو رہی ہے۔ بعض عورتوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ کم عمری میں ہی چار پانچ شوہر بھگتا چکی ہوتی ہیں۔ اگر ان لیڈرانہ مزاج عورتوں کے اس طرز عمل سے مثبت کریٹوٹی اور پروڈکٹوٹی بڑھ جاتی ہے تو اس میں حرج معلوم نہیں ہوتا۔ باقی طلاق کی مذمت کی روایتیں ضعیف ہیں۔ اور قرآن صریح ہے کہ جس میں سورہ طلاق کے نام سے ایک مکمل سورت موجود ہے اور طلاق کے احکامات بھی موجود ہیں اور مذمت بھی نہیں ہے۔ صحابہ میں کثرت سے طلاق دینے والے صحابہ معروف ہیں۔ ان کی سوانح دیکھی جا سکتی ہیں۔ طلاق ایک سوشل کانٹریکٹ ہے اور کانٹریکٹ ہوتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔ یہ معمول کی بات ہے۔
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں