آپ نے میڑک کی معاشرتی علوم میں دو قومی نظریہ پڑھا تھا،بہت سال ہو گئے ہیں بھول گیا ہو گا۔ دہرا لیں؟
مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں محمد علی جناح کا 1942 میں دیا ایک بیان چھپا ہوتا ہے جس کا مدعا کچھ یوں ہے”ہم ایک الگ قوم ہیں،ہمارا اپنا امتیازی کلچر،ثقافت،تہذیب،زبان،آرٹ ، رسم و رواج، کلینڈر اور تاریخ ہیں۔ہم دنیا کے کسی بھی قانون کے تحت ایک الگ قوم ہیں”۔
چونکہ ریاستی سطح پہ سوچنے اور سوال کرنے پہ پابندی ہے سو نہ کبھی پڑھانے والے نے اور نہ کبھی پڑھنے والے نے یہ سوال پوچھا کہ ہمارا کلچر،ثقافت،زبان،رسم و رواج اور تاریخ عربوں سے ملتی ہے یا ہمارا الگ قومی تشخص ہے؟ہمارا پنجاب کا اپنا کلچر ہے،اپنی تاریخ ہے،رسم و رواج ہیں،کلینڈر ہے۔بابائے قوم کے حساب سے ہم پنجابی ایک الگ قوم ہیں،پختون الگ قوم ہیں،بلوچ الگ قوم۔اسی طرح بھارت میں بسنے والی پچاس الگ الگ قومیں ہیں۔ان سب قوموں کا مذہب ایک بھی ہوسکتا ہے،اور ایک قوم کے اندر مختلف مذاہب کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔مذہب قوم نہیں بناتا،مذہب قومی تشخص کا ایک عنصر ضرور ہے۔پنجابی مسلمان بھی ہو سکتا ہے،ہندو،سکھ اور عیسائی بھی ہو سکتا ہے۔بالکل اُسی طرح جس طرح ایک عرب مسلمان بھی ہوسکتا ہے،اور یہودی یا عیسائی بھی۔
مطالعہ پاکستان کے مطابق ہم ایک الگ قوم ہیں اور پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا،پاکستان اس دن بن گیا تھا جس دن محمد بن قاسم نے بھارت میں قدم رکھا تھا۔محمد بن قاسم کے712ءسے لے کے 1930ء(ستائیس تک محمد علی جناح ہندو مسلم یونیٹی کے علمبردار تھے)تک یہ دو قومیں اکٹھی کیسے رہیں؟اس ہزار سالوں سے زائد عرصہ میں ان دو قوموں پہ مسلمانوں نے بھی حکومت کی،سکھوں نے بھی کی،اور ہندؤں نے بھی۔لائلپور کے گاؤں یا ہوشیار پور کے قصبوں میں رہنے والے مسلمان اور سِکھ کیسے اتنی نسلوں سے اکٹھے رہ رہے تھے؟کیا میرے اور تمہارے آباء کو اتنی سمجھ نہ تھی کہ ہم الگ قوم ہیں؟اچانک بیسویں صدی میں تم دانشور پیدا ہوئے اور دیس کو آگ لگا کے پندرہ لاکھ بندہ قتل کردیا۔
اس سے پہلے جوہماری قوم(مسلمان) ہم پہ حملہ کرنے آتے تھے تو ہمارے آباء ان سے لڑتے تھے،ہندو،مسلم اور سکھ حملہ آوروں سے بھڑتے تھے،انہیں پتہ تھا کہ ہماری قوم پہ حملہ ہوا ہے،اور حملہ کرنے والے افغان اور ترک ہوتے تھے۔دیس کی خاطر لڑ مر جانے والوں نے کبھی دھرم پوچھ کے نہ ہتھیار اُٹھائے تھے،نہ ہتھیار ڈالے تھے۔یہ جن کو مطالعہ پاکستان میں ہیرو گردانہ جاتا ہے ہمارے پُرکھ ان کے بارے کہا کرتے تھے”جو کھا لیا او لاہے دا،باقی احمد شاہے دا”یعنی جو کھا لیا وہ غنیمت ہے،باقی احمد شاہ(ابدالی) کا ہے۔جن کو پُرکھ ہمارے ڈاکو کہتے ہیں انہیں ریاست ہماری نجات دہندہ پڑھاتی ہے۔
یہ اگر دو قوموں کی ہی بات تھی ،یعنی مسلمان اور ہندو دو قومیں تھیں،تو ونڈ صرف پنجاب کی کیوں ہوئی تھی؟کونسی ایسی بنیاد تھی جس پہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پنجاب کے دو ٹوٹے کیے جائیں؟رولہ ہندو اور مسلمان کا تھا،اور دیس سِکھوں اور مسلمانوں کا توڑ دیا۔آزاد اگر انڈیا ہوا تھا،یا تقسیم اگر انڈیا ہوا تھا تو قتلِ عام پنجابیوں کا ہی کیوں ہوا تھا؟اچھا چلو یہ ہی بتا دو کہ کون سے پنجابی سیاسی راہبر نے دو قومی نظریے کا علم اُٹھایا ہوا تھا؟کون سے پنجابی سیاسی لیڈر تھے جن کے کہنے پہ پنجاب تقسیم ہوا تھا؟مطالعہ پاکستان والوں کو تو کسی پنجابی لیڈر کا نام تک پتہ نہیں ہوگا،کیونکہ ریاست کو سوٹ نہیں کرتا،ایسے تو خبر ہو جائے گی کہ پنجاب میں پندرہ لاکھ قتل کے ذمہ دار مقامی پنجابی(ہندو،مسلمان اور سکھ) نہ تھے۔
اگر بات دو قوموں کی ہی تھی تو تمہاری آدھی قوم(بنگالی) کدھر ہے؟اگر دو قوموں کی بات تھی تو بھارت میں رہ جانے والے مسلمان خود کو بھارتی کہیں یا مسلمان؟اور پاکستان میں رہنے والے ہندو اور عیسائی خود کو پاکستانی کہیں یا عیسائی؟دھرموں کے نام پہ آگ لگانے والے ،قتل عام کرنے والے اس بات پہ بھی بضد ہیں کہ پاکستانی ایک قوم ہیں۔اگر پاکستانی ہندو،مسلمان اور عیسائی ایک قوم ہیں تو بھارتی ہندو مسلمان سکھ ایک قوم ہونے میں کیا حرج تھا؟
آپکے اس دو قومی نظریے نے کم و بیش پندرہ لاکھ بندہ قتل کروایا ہے۔برطانوی راج کے ڈاکیومنٹس کے مطابق قریب چودہ لاکھ بندہ ان فسادات میں مارا گیا تھا۔اسکا مطلب یہ ہے کہ پچھلے چھہتر سال سے ہر مہینے اگر سولہ سو بندہ بھی ہندو مسلم فسادات میں مارا جاتا تو آج تک اتنا بڑا قتل عام نہ ہوتا جو آپ نے چند ہفتوں میں کروایا تھا۔
یہ آپکا دو قومی نظریہ تھا جس نے دو ارب انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن کیا ہے،یہ آپکا نظریہ ہے جس نے نفرت کے بیج بوئے ہیں،یہ آپکا نظریہ ہے جس نے کشمیر سے بلوچستان تک پراکسی میں معصوموں کا قتلِ عام کیا ہے،یہ آپکا نظریہ ہے جس نے دنیا کی ہونے والی سپر پاور میں بھوک اور ننگ کو نچوایا ہے،یہ آپکا نظریہ ہے جس نے میرے پنجاب میں لہو کے دریا بہائے ہیں۔
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں