لوہڑی و لاہور/طلحہ شفیق

لوہڑی پنجاب کا ایک قدیم تہوار ہے۔ سرحد پار یہ تہوار دیگر علاقوں میں بھی منایا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں اس کا نام بھی مختلف ہے جیسا کہ پونگل, سنکرانتی, کھچڑی, ہاڈاگا, اگاڈی, ماگھ بیہو, اونم وغیرہ۔ لوہڑی کے تہوار سے بہت سے واقعات منسوب ہیں۔ بعض اسے ویدک دھرم کے ساتھ مخصوص بھی کرتے ہیں۔ ہندو اس تہوار کو سورج دیوتا کے حوالے سے مناتے ہیں۔ لیکن پنجاب میں لوہڑی کو زیادہ تر بطور موسمی تہوار منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب میں یہ تہوار سبھی مناتے تھے۔ لوہڑی دراصل بدلتے موسم کا سندیس ہے۔ پنجاب میں لوہڑی عموماً دیسی مہینے پوہ کے آخری دن یا گنے کی فصل کی کٹائی کے موسم میں منائی جاتی ہے۔

اس تہوار کے ساتھ ایک لوک داستان بھی جڑی ہے۔ جو کہ دلا بھٹی نامی ایک جانباز کے گرد گھومتی ہے۔پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے دلا بھٹی کا اصل نام رائے عبداللہ خاں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مغل شہنشاہ جہانگیر کے رضاعی بھائی تھے۔ مگر جب دلا بھٹی کو معلوم ہوا کہ مغل ان کے آباؤ اجداد کے قاتل ہیں تو انہوں نے مغل حکومت کے خلاف جدوجہد شروع کردی۔ کچھ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مزاحمت مغل حکومت کے غریب کاشتکاروں پر لگائے گے ناجائز یا ضرورت سے زائد محصول کے خلاف تھی۔ ان دونوں وجوہات کا بیک وقت درست ہونا بھی ممکن ہے۔ خیر ایشور دیال گور کے بقول “یہ مقامی بغاوت اس قدر شدید تھی کہ اکبر کو دو دہائیوں کے لیے اپنا دارالحکومت دہلی سے لاہور منتقل کرنا پڑا تاکہ حالات قابو میں رہیں۔”

پنڈی بھٹیاں میں آج بھی دُلے کی وار گائی جاتی ہے۔ مظہر السلام صاحب نے اپنی کتاب ”لوک پنجاب “ میں اس کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ پنڈی بھٹیاں میں ایک قدیمی کنویں کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں دلے بھٹی کا گھر تھا۔ اس کے علاوہ یہاں میلوں ٹھیلوں پر مراثی دلے کی داستاں بھی سناتے ہیں۔ جو کہ کچھ اس طرح ہے۔ ”ایک روز دلا کی ملاقات اکبر بادشاہ سے ہوئی۔ دُلے نے اکبر سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں اکبر بادشاہ کا بھٹ ہوں۔ دُلے نے کہا تو پھر بھٹ کو سلام کیا کرنا اور ساتھ ہی آگے بڑھ گیا۔ بعدازاں دُلا اکبر کے دربار میں پہنچا تو اکبر نے ایسا دروازہ لگوا رکھا تھا جس میں اندر جانے کے لیے سر کو جھکا کر داخل ہونا پڑتا ہے۔ لیکن دُلے نے پہلے ٹانگیں اندر کیں اور پیٹھ کا رُخ اندر کی طرف کر کے سَر بعد میں اندر کیا اور اکبر کو (پھر) سلام نہ کیا۔ اکبر نے کہا ٢٤ سال کے ٹکے تمہیں معاف اگر سلام کرو۔ دُلے نے سلام کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم نے اپنے آپ کو بھٹ کہا ہے اور میں مراثیوں کو سلام نہیں کیا کرتا۔“ ایسی ہی ایک زبان زد عام روایت جزوی اختلاف کے ساتھ شیخ احمد سرہندی کے متعلق بھی ملتی ہے۔

لوہڑی و دُلا بھٹی کے حوالے سے بھی ایک داستان معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ مول چند نامی ایک شخص کے قرض بروقت نہ ادا کرنے پر مقامی زمیندار نے اس کی بیٹیوں سندری اور مندری کو اغوا کر لیا۔ بعض لکھاریوں کے مطابق زمیندار اس کی بیٹی پر فریفتہ ہو گیا تھا، جس پر اس نے مول چند کو بیاہ پر مجبور کیا لیکن اس نے مثبت جواب نہ دیا۔ سو جب یہ بات دُلا بھٹی کو معلوم ہوئی تو اس نے ان لڑکیوں کو زمیندار کے قبضے سے چھڑوایا اور اپنے ساتھ جنگل میں لے گیا۔ یہاں اس نے ان دونوں ہندو بہنوں کی شادیاں ان کے پسندیدہ لڑکوں سے کروائیں۔ چونکہ جنگل میں مناسب بند و بست موجود نہ تھا تو دلا بھٹی نے خود ہی لکڑیاں اکٹھی کیں, آگ جلائی اور پاس موجود شکر اور تل دونوں کی جھولی میں ڈال کر رسم ادا کی۔ پھیروں کے موقع پر منتر کی جگہ جو اشعار پڑھے گے وہ بھی ایک لوک گیت کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ یہ اشعار درج ذیل ہیں :
سندر مندریے،
تیرا کون وچھارا ہو
دلا بھٹی والا ہو
دُلّے دی دھی ویاہی ہو
شیر شکّر پائی ہو
کڑی دا لال پٹاخہ ہو
کڑی دا سالو پاٹہ ہو
سالو کون سمیٹے
چاچے چوری کُٹی
زمیندارا لُٹی
زمینددار سُدھائے
بڑے بھولے آئے
اک بھولا رہ گیا
سپاہی پھر کے لے گیا
سپاہی نے ماری اٹ
سانوں دے دے لوڑی
تے تیری جیوے جوڑی
بھانویں رو تے بھانویں پٹ
سندر مندریے
(یہ اشعار بعض جگہ ترمیم و بعض جگہ اضافہ کے ساتھ بھی ملتے ہیں)
اس قصے کے علاوہ بتایا جاتا ہے کہ دپلا بھٹی کو آخر کار مغل سرکار کے خلاف مزاحمت کرنے پر سزا دی گئی تھی۔ اس ضمن میں یونس ادیب “میرا شہر لاہور” میں لکھتے ہیں “تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دُلا بھٹی شاہ حسین کا مرید تھا اور اکبر کے خلاف بغاوت میں چھوٹے طبقے کے لوگ شاہ حسین کی تعلیمات کے اثر میں شریک ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب دُلا بھٹی کو میانی صاحب لاہور میں پھانسی دی گئی تو شاہ حسین لاہور کی کوتوالی میں زیر حراست تھے۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ جس جگہ دُلا بھٹی کو پھانسی دی گئی شاہ حسین وہاں بھی موجود تھے۔” یہ روایت بھی زبان زد عام ہے کہ شاہ حسین نے ہی دلا بھٹی کی لاش حکومت سے وصول کی اور نماز جنازہ بھاٹی چوک میں پڑھانے کے بعد میانی صاحب میں ایک اونچے ٹیلے پر دفن کردیا۔ میانی صاحب قبرستان میں میجر شبیر شریف کے احاطے کے قریب دُلا بھٹی سے منسوب ایک قبر تو موجود ہے، لیکن یہ کچھ برس قبل بنائی گئی ہے۔ مگر یہ کسی طور قدیم نہیں نہ ہی اس حوالے سے تاریخ میں کوئی واضح بیان موجود ہے۔ اب ماضی میں یہاں کوئی قبر تھی یا نہیں اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ دُلا بھٹی کی قبر ہے یا نہیں۔

ہندوستان بھر میں جہاں لوہڑی کا تہوار جوش و خروش سے منایا جاتا تھا وہاں تقسیم سے قبل لاہور کا بھی یہ ایک اہم تہوار تھا۔ منیر صاحب کی کتاب میں مستری محمد شریف کا انٹرویو شامل ہے۔ اس انٹرویو میں وہ لوہڑی سے جڑی اپنی یادوں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں “لوڑی کے موقع پر چوکوں میں آگ جلاتے تھے۔ بھاٹی چوک, لوہاری چوک, شاہ عالمی, ڈبی بازار, کشمیری بازار, سوہے بازار۔ ہر چوک میں آگ جلتی تھی۔ شام کے وقت پہلے ٹائم۔ مطلب رات کے آٹھ نو بجے سے پہلے پہلے۔ پانچ پانچ, سات سات, دس دس سال کی لڑکیاں گاتی تھیں
مومائی دے کے جا
داڑھی پھل پوا کے جا
ساری رات آگ جلتی رہتی تھی۔۔۔۔”
اے حمید صاحب لاہور میں لوہڑی کے تہوار کے متعلق لکھتے ہیں “لاہور میں جب سردیوں کا موسم اپنے عروج پر ہوتا تھا، تو ہندو, سکھ لوہڑی کا تہوار مناتے تھے۔ اس تہوار کے موقع پر ہندو سکھ حلوائی خاص طور پر مٹھائیاں اور چڑوے ریوڑیاں اور بتاشے تیار کرتے تھے۔ لوہڑی کے تہوار پر ہندو سکھ ایک دوسرے کے گھروں میں خاص طور پر چڑوے ریوڑیاں تحفے کے طور پر بھیجتے تھے۔ گلی گلی آگ کے چھوٹے چھوٹے الاؤ روشن ہوجاتے تھے اور لڑکے کاٹھے یعنی پتلے گنے لے کر ان کی جڑوں کو آگ میں ڈال کر گرم کرتے اور پھر زور سے زمین پر مارتے جس سے وہ پٹاخ سے پھٹتا تھا۔ چھوٹے بچے دکان دکان پر جا کر لوہڑی کے چڑوے ریوڑیوں کے لیے چندہ مانگتے تھے۔ ساتھ ساتھ ایک لوک گیت بھی گیت بھی گاتے تھے۔
ہٹی والیا ویرا
سِر سونے دا چیرا
سانوں موہ مائی دے
تیری جیوے مجھی گائیں
دکانوں سے ہمیں جو پیسے ملتے ہم ان کی ریوڑیاں اور چڑوے خرید کر کھاتے تھے۔”
لوہڑی کے تہوار سے بہت سی رسمیں منسلک تھیں، جیسے لوہڑی ویاؤن جس میں لڑکے دوسرے علاقے یا گاؤں کے لوہڑی کے الاؤ سے لکڑی اٹھا کر لاتے تھے۔ اسی طرج بچوں کی ٹولیاں گھر گھر جا کر چیزیں بھی مانگا کرتی تھیں۔ بچے گھروں کے باہر جا کر اونچی آواز میں مل کر کہتے:
ڈبہ بھریا لیراں دا تے ایہو گھر امیراں دا

Advertisements
julia rana solicitors

جبکہ ایڈی میکلیگن لکھتے ہیں کہ “(بچے کی) پیدائش کے بعد آنے والا لوہڑی کا تہوار خصوصی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تانبے کے سکے اور کوڑیاں غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔”
پہلے یہ تہوار سرحد کے دونوں جانب مقبول تھا مگر اب یہ فقط بھارتی پنجاب میں سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب بہت کم لوگ لوہڑی کا اہتمام کرتے ہیں۔ بلکہ بہت سے نوجوان تو اس تہوار سے واقف ہی نہیں۔ تقسیم سے قبل ایسے تہوار جو موسم کے ساتھ جڑے تھے، ان میں کوئی خاص مذہبی تفریق شامل نہ تھی۔ مگر اب لوہڑی کو غیر اسلامی تہوار جان کر ہم نے ملک بدر کر دیا ہے۔ تہوار تو ہمیں جوڑتے ہیں, نفرتوں کو کم کرتے ہیں۔ ایسے تہوار جو کہ ہمیں اکٹھا کرنے کی “سازش” ہیں, آئیے سبھی مل کر اس میں شریک ہوں۔ دلے بھٹی سے جڑے اس تہوار سے اپنے بچوں کو متعارف کروائیں۔ نونہالان وطن کو ارطغرل کے ساتھ ساتھ دلا بھٹی جیسے کرداروں سے بھی واقف کروانے کا بندوست ہونا چاہیے۔ تاکہ ان کو بھی معلوم ہو کہ سبھی جانباز عرب و ترک نہ تھے کوئی ان کی دھرتی کا بھی تھا۔ خیر حکومتوں کے کام تو وہی جانیں۔ البتہ احباب سے گزارش ہے کہ جو کچھ ہمارے بس میں ہے، اس کے لیے تو کوشش کر ہی سکتے ہیں۔ نیز اہلیان پنجاب کو تو خصوصی طور پر اس کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ دم توڑتی روایات کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply