نینا ملی میمونہ سے/ڈاکٹر مجاہد مرزا

“مثل برگ آوارہ”سے
قصّہ کوتاہ لاہور کا ٹرپ اب تک کسی ایسی “پاکستانی روش” سے پاک تھا جس سے اغیار کو یا اغیار کی سی سوچ رکھنے والے یعنی لبرل افراد کو تکلیف ہوتی۔ اب میرا پروگرام اپنی بیٹی سے ملنے کا تھا جس کے لیے میں ماسکو سے چاکلیٹ کے ڈبے لے کر آیا تھا۔ چونکہ اس کی ماں اب کسی اور کی بیوی تھی چنانچہ میں نے کسی نہ کسی طرح سے کسی اور کے رابطے سے اپنی سابقہ  اہلیہ کے ساتھ طے کیا تھا کہ وہ بیٹی کو لے کر فلاں جگہ اس رابطے کے رشتہ دار کے گھر پہنچ جائے۔

یہ قصہ بعد میں پہلے لاہور کے ٹرپ کا آخری منظر سمجھ  لیں۔ جانے سے ایک روز پہلے غزالہ کے ہاں اس کے چند ملنے والے مرد آئے تھے جن میں سے کوئی یونیورسٹی میں پروفیسر تھا تو کوئی کسی اعلیٰ  سرکاری عہدے پر مامور۔ گفتگو کے دوران ان میں سے کسی نے پھر وہی پاکستانی سوال کیا یعنی یہ آپ کی مسز ہیں۔ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا “نہیں جی، یہ میری دوست ہیں”۔ غزالہ کے چہرے کے عضلات مرتعش ہوئے تھے۔ ان افراد کے جانے کے بعد غزالہ مجھ سے اُلجھ پڑی تھی،” تمہیں کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی”۔ میں نے اس کو شاہ جی کی طرح “ایتا تی بروتس” یعنی “تم بھی بروٹس” تو نہ کہا البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ، “پہلی بات تو یہ کہ وہ پڑھے لکھے لوگ تھے، دوسری بات یہ کہ تمہارے شناسا تھے، میں سمجھا تھا کہ ان کی سوچ تمہاری سوچ جیسی ہوگی چنانچہ میں نے وہی کہا جو سچ تھا”۔

غزالہ کا موقف تھا کہ نہ تو اس کے سارے شناسا لبرل ہیں اور نہ ہی وہ سب کو سب کچھ سمجھا سکتی ہے۔ لوگوں کے منہ نہیں پکڑے جا سکتے۔ دھت تیرے کی، میں نے سوچا تھا۔

نینا اور میں اگلے روز کوچ پر سوار ہو کر منڈی بہاؤالدین جا پہنچے تھے ۔ میں اس شہر میں پہلی بار آیا تھا۔ جس جگہ جانا تھا اس کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ وہاں صرف تانگے جاتے ہیں۔ تانگے کا یہ سفر بہت اچھا تھا۔ چھوٹے سے قصبے بلکہ بڑی بستی تک جاتی سڑک پر ٹریفک اِکا دُکا تھی۔ کوچوان باتونی تھا۔ بتاتا گیا کہ کتنی بار “گوریوں” نے اس کے تانگے میں سواری کی ہے۔ درست ہی کہتا تھا، اس علاقے کے بہت زیادہ لوگ یورپی ملکوں میں تارکین وطن ہیں۔ اس بستی میں جا کر پوچھتے ہوئے متعلقہ شخص کے ہاں پہنچے تو ان کے دروازے کے ساتھ ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ دروازہ کھٹکھٹایا، جس نوجوان نے دروازہ کھولا اس نے کہا تھا “اندر آ جائیں”۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے بیٹھک تھی جس میں میمونہ بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ کوئی موٹی سی بچی بیٹھی تھی۔ میمونہ نے بیٹھے بیٹھے سلام کیا تھا۔ دو چار فقروں کے تبادلے کے بعد میں نے پوچھا تھا ” آریانا کہاں ہے؟” میمونہ نے موٹی سی بچی کی جانب اشارہ کرکے کہا تھا،”اور یہ کون ہے؟”۔ مجھے موٹاپے سے چڑ تھی۔ میں اپنی بیٹی پر برس پڑا تھا جو میری طعن و تشنیع سن کر روہانسی ہو گئی تھی، پھر میں نے اسے مزید موٹا ہونے کے لیے چاکلیٹ کے ڈبے دیے تھے جو موٹے بچوں کی طرح اس کے بھی پسندیدہ تھے چنانچہ وہ خوش ہو گئی تھی۔

جب روانہ ہونے کے لیے عارضی میزبان بلکہ مہربان کے گھر سےنکلے تو میمونہ نے آریانا کو مخاطب کرکے اور آنکھ سے کچھ دور کھڑی نینا جو پتلون بلاؤز پہنے ہوئی تھی، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ” ایسے لگتا ہے جیسے بیچاری کے پاس کپڑے نہیں ہیں”۔ میں نے اس طنز پر چپ سادھ لی تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی تلخی جنم لے۔ میں نے تانگے والے کو واپسی کے لیے روکا ہوا تھا۔ میمونہ نے کہا تھا “میں تمہیں منڈی تک چھوڑ آتی ہوں، تانگے والے کو فارغ کر دو”۔ نینا اور آریانا پچھلی نشست پر بیٹھ گئی تھیں، میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو میمونہ نے کہا تھا ” میں کم از کم تمہیں کھانا تو کھلادوں”۔ اسے وہاں کے کسی بہتر ریستوران کا علم تھا جہاں لے جا کر اس نے انہیں کھانا کھلایا تھا۔ بعد میں وہیں بیٹھے بیٹھے، ہم دونوں کے درمیان کسی بات پر تلخی پیدا ہو ہی گئی تھی۔ میمونہ اور میں دونوں نے اونچا اونچا بولنا شروع کر دیا تھا۔ نینا ڈری بیٹھی تھی۔ اسے خوف تھا کہ جھگڑا کہیں تشدد کی شکل نہ اختیار کر لے۔ میں نے میمونہ سے کہا تھا “اٹھو ہمیں اڈے پر چھوڑ آؤ”۔ وہ جسے کہتے ہیں پیر پٹختی ہوئی اٹھی تھی اور سب کار میں سوار ہو گئے تھے۔ راستے میں ان دونوں کی تو تکار جاری رہی تھی۔ میں نے کہا تھا، “دل کرتا ہے کہ تمہارا کھلایا ہوا کھانا قے کرکے نکال دوں” میمونہ بولی تھی ” تو نکال کیوں نہیں دیتے، گاڑی سائیڈ پر کروں” یہ لاگ سے لگاؤ کی جانب مراجعت تھی۔

اس نے مجھے اور نینا کو ایک ویگن میں سوار کرا دیا تھا۔ ہم پنڈی کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ راولپنڈی میں دکھانے کو کیا تھا، کچھ بھی نہیں۔ اسلام آباد دکھایا۔ شکر پڑیاں لے گیا۔ اگلے روز مری جانے کا پروگرام تھا۔ ایک دوست کی گاڑی میں ابھی چھتر تک ہی گئے تھے کہ شدید بارش نے آ لیا جو بہت دیر تک رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی چنانچہ وہیں سے لوٹ آئے تھے۔ راولپنڈی میں زیادہ دیر قیام بے سود تھا چنانچہ کراچی جانے کے لیے لاہور پہنچ گئے تھے۔ ایک اور رات نفیسہ کے ہاں بتانے کے بعد، ماسکو جانے کے لیے بذریعہ طیارہ کراچی روانہ ہو گئے تھے۔ اس بار نجانے عاصم کے دل میں کیا آئی کہ اس نے ہمیں اپنی بڑی بیگم کے ہاں اپنے کمرے میں ٹھہرایا تھا۔ شاید اسے اپنے چچا یعنی میرے بڑے بھائی سے سبق سیکھ لیا تھا جنہوں نے ان دونوں” بن نکاح” افراد کے قیام کو اعتدال پسندی سے لیا تھا۔

نینا کا پاکستان سے متعلق مجموعی تاثّر یوں تھا، “پاکستان کے لوگ بہت اچھے ہیں لیکن یہاں اصول و ضوابط مبنی بر دیوانگی ہیں”۔ ظاہر ہے وہ پاکستان میں کسی ہندوستانی مسلمان کے ہاں پیدا نہیں ہوئی تھی اس لیے وہ اصول و ضوابط جو پاکستان کے باسیوں کے لیے عموم ہیں اس کے لیے دیوانگی پر محمول تھے۔ اگر وہ اتفاق سے میرے باپ کے ہاں پیدا ہو جاتی تو ساری عمر دروازے کی ریخ سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہ ملتی یوں وہ نمک کی کان میں رہتے ہوئے خود نمک ہو جاتی۔ قدرت نے اسے نمک ہونے سے تو ویسے ہی بچا لیا تھا چنانچہ صبح کے بھٹکے شام کو ہم ماسکو آ گئے تھے۔

پاکستان میں مَیں نے نینا کو چرس بھی  پلائی تھی۔ آتے ہوئے میں نے چرس کی ایک ڈلی نینا کی سگریٹ کی ڈبی میں ڈال دی تھی اور شاید جان بوجھ کر بھول گیا تھا۔ چرس کی وہ ڈلی ہمارے ساتھ ماسکو پہنچ گئی تھی۔ میرا ملازم مقرب تاجک اور میرا بھتیجا شہزاد ہمیں لینے ایئر پورٹ پہنچے تھے۔ نینا نے گاڑی میں بیٹھ کر پہلی بار سگریٹ نکالی تو اس کی چرس پر نظر پڑی تھی۔ وہ مجھ سے خفا ہو گئی تھی کہ کیا تم چاہتے تھے میں پکڑی جاتی۔ گھر پہنچ کر مقرب تاجک نے چرس چکھانے کی فرمائش کی تھی۔ اس شغل کے بعد میں نے مقرب کو کوئی کام کرنے کو کہا تھا تو اس نے مشکل سے اٹھتے ہوئے کہا تھا،”سر کیا کرتے ہیں، پہلے چرس پلاتے ہیں اور پھر کام کرنے کو کہتے ہیں”۔ اس پر مجھے بندرعباس ایران کا ایک واقعہ یاد آ گیا تھا جب میں اور میرا ایرانی دوست مہرداد ایک اور دوست کے ہاں سے وائن اور چرس پی کر نکلے تھے۔ راستے میں چلتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہر چیز ایک ایک کرکے مہرداد کو تھما دی تھی جس کے بعد مہرداد نے کہا تھا “اب کیا آپ کو بھی کندھے پر لاد لوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply