کھانا گرم کرنا مسئلہ نہیں ،خود کو بہت روکا کہ اس بارے میں کچھ نہ لکھوں مگر بات برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔ ” کھانا خود گرم کر لو” ایک نعرہ تھا، مگر نعرہ یونہی نہیں ہوتا اس کے← مزید پڑھیے
میں حقوق کے سلسلے میں جنس کی تخصیص کا مخالف ہوں۔ مردوں اور عورتوں کے حقوق یکساں ہونے چاہئیں لیکن کیا کبھی یہ یکساں تھے بھی؟ کیا کہیں یکساں ہیں بھی؟ کیا کبھی یکساں ہونگے بھی؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔← مزید پڑھیے
“محبت” انسان کو پیدائشی طور پر ودیعت نہیں ہوتی ،شاید اسی لیے یہ اب تک جینیات میں دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کا سبق ہمیں بچپن سے پڑھایا جاتا ہے، خدا سے محبت سے لے کر انسان سے محبت← مزید پڑھیے
معلوم ہوا کہ لبرل افراد کو “دیسی لبرل ” یا ” لنڈے کے لبرل ” صرف رجعت پسند ہی نہیں بلکہ وہ جنہیں پروگریسیو ہونے کا زعم ہے وہ بھی کہتے ہونگے یا شاید کہتے ہی ہوں۔ بتایا گیا کہ← مزید پڑھیے
ادھیڑ عمر کا ایک مرد اپنی ہمکار جوان لڑکی سے بلاوجہ اظہار محبت کرتا ہے۔ لڑکی کے چہرے پر بل پڑتا ہے، وہ کہتی ہے کہ بکواس بات ہے۔ مرد پوچھتا ہے کونسی بات بکواس ہے؟ لڑکی کہتی یہی محبت← مزید پڑھیے
دنیا کبھی جوہری جنگ کے اس قدر قریب نہیں ہوئی تھی جتنی کہ 1962 کے موسم ِخزاں میں۔ امریکہ کے ساحل سے کلومیٹروں کی دوری پر واقع کیوبا میں غیر متوقع طور پرسوویت میزائل اور ایٹم بم گرانے والے جنگی← مزید پڑھیے
منیر سلیمی کے گھر کے وسیع صحن کی گھاس میں، جس کی تراش خراش نہیں کی گئی تھی کبھی ہرن چرنے پہنچ جاتے تھے تو کبھی مرغابیاں اور قاز اتر کر اپنی ہنسا دینے والی چال چلتے دکھائی دیتے تھے۔← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے میں اس سے پہلے بھی الماآتا آیا تھا۔ میری رہائش کا انتظام رؤف تاتار نے کیا تھا۔ رؤف تاتار، نینا کی ایک سہیلی کے ساشا نام کے بیٹے کا دوست تھا، دونوں ماسکو آئے تھے جہاں میں← مزید پڑھیے
“مثل برگ آوارہ “سے جب میں اور نینا پاکستان سے لوٹ رہے تھے تو مجھے طیارے میں ہی ایک خیال آیا کہ نینا سے تعلق کو تین سال بیتنے کو آئے ہیں۔ اس ساتھ کو طول← مزید پڑھیے
“مثل برگ آوارہ”سے قصّہ کوتاہ لاہور کا ٹرپ اب تک کسی ایسی “پاکستانی روش” سے پاک تھا جس سے اغیار کو یا اغیار کی سی سوچ رکھنے والے یعنی لبرل افراد کو تکلیف ہوتی۔ اب میرا پروگرام اپنی بیٹی سے← مزید پڑھیے
“مثل برگ آوارہ”سے اس شام میں نینا کو ساتھ لے کر مولوی مشتاق کے ہاں دعوت میں چلا گیا تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ مولوی صاحب نے مقامی ایم این اے کو پہلے سے مدعو کیا ہوا← مزید پڑھیے
کسی دوست نے خود نوشت پڑھ کے سوال کیا کہ آپ ملحد کیوں ہوئے اس بارے میں نہیں لکھا آپ نے ، تو میرا جواب یہ تھا۔۔۔ مجھے 8 اکتوبر کو حج کی سعادت پانے کی خاطر ارض ِمقدس کے← مزید پڑھیے
ریڈی میڈ کپڑوں کے کارٹنوں سے بھرا کنٹینر پہنچنے والا تھا۔ ہم سب کا ندیم کی وزیٹر فیملی سمیت ایک گھر میں رہنا غیر آرام دہ تھا چنانچہ شہر کے مرکز میں دو کمروں والا ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے← مزید پڑھیے
نتاشا اپنی نانی سے ملنے ہارکوو (خارکوف) چلی گئی تھی۔ تاحال ملکوں کی یونین موجود تھی اس لیے سرحدوں کا کوئی بکھیڑا نہیں تھا۔ نتاشا کے جانے کے بعد مظہر خود کو آزاد محسوس کر رہا تھا، کیونکہ اب بلانوشی← مزید پڑھیے
میں نے جو دیکھا تھا، اس کا جب میں نے تذکرہ کرنا شروع کیا تو یہ کہہ کر آغاز کیا کرتا تھا کہ “جب میری آنکھ کھلی” ۔ ۔ ۔ میں کبھی نہیں کہتا تھا کہ جب مجھے ہوش آیا← مزید پڑھیے
بالکل ہی اور طرح کے ماحول میں آ کر مجھے لگا تھا جیسے میں کسی اور آسمان پر آ گیا ہوں جس میں مظہر فرشتے اور نتاشا حور کے روپ میں دوست تھے۔ میں جانتا تھا کہ یہ مقام جنت← مزید پڑھیے
ایسے ٹولے کئی تھے، جن سب میں مذہب کی نفی، شعور کی معراج تصور کی جاتی تھی۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی مذہب کے مُلا، پروہت، پادری، ربّی وغیرہ حاکموں کی مدد کرنے کی خاطر مذہب کا حلیہ بگاڑنے← مزید پڑھیے
مجھ جیسے لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک میں نہ تو خود چین آتا ہے اور نہ ہی ان کا اپنا ملک انہیں کوئی ایسا موقع دیتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ خود کی مناسب طریقے← مزید پڑھیے
(“مثل برگ آوارہ”سے) وقت کو روکنے کی خواہش جتنی بھی شدید ہو، وقت کسی کے روکے نہیں رکا۔ وقت ایک دائرہ ہے یا اپنے عقب میں معدوم ہوتا ہوا خط مستقیم یا کچھ کے مطابق ٹیڑھا میڑھا مگر ہے دریا← مزید پڑھیے
“مثل برگ آوارہ “سے! جب یولیا دوسری بار آئی تھی تو سیدھی دفتر میں پہنچی تھی۔ اس وقت وہاں ذوالقار موجود نہیں تھا البتہ اس کے گاؤں سے کچھ عرصہ پہلے آیا ہوا اس کا کوئی عزیز یا دوست شاہد← مزید پڑھیے