ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں
مثل برگ آوارہ’سے کئی ماہ بیت گئے تھے، میں نے بس سیاہ فام نٹیشا کے گال پر اچٹتا ہوا بوسہ ہی لیا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے امریکہ میں دوسری جنس عنقا ہو۔ امریکہ کے ہالی ووڈ میں بنی← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے میں نے سعید کو آتے ہی بتا دیا تھا کہ میں اگلے روز نکل جاوں گا، اسی لیے میں نے سعید کے ہمراہ پورچ کی جانب بڑھتے ہوئے مسز سعید کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ باتیں← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے دھندلکا پھیلنے لگا تھا۔ ڈاکٹر سعید باجوہ کا “آفس ٹائم” بھی تمام ہو چکا تھا۔ جب گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھے تو میں نے ہٹ دھرمی کے ساتھ کہا کہ مجھے تو بس بیئر پینی← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے امریکہ کے ہر شہر میں ایک سے زیادہ اخبار چھپتے ہیں، ان میں سے ایک مقامی اخبار ڈاکٹر منیر سلیمی کے ہاں بھی آتا تھا۔ میں صبح کی چائے کے بعد اس کی سرخیوں پر نظر دوڑا← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ڈاکٹر منیر سلیمہ ایک اچھے مسلمان تھے۔ ان میں عادات قبیہہ تھیں ہی نہیں جبکہ میں تھا زندیق۔ منیر جانتے تھے کہ میں پینے سے شغف رکھتا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگے “یار میں تیرے شغل← مزید پڑھیے
منیر سلیمی کے گھر کے وسیع صحن کی گھاس میں، جس کی تراش خراش نہیں کی گئی تھی کبھی ہرن چرنے پہنچ جاتے تھے تو کبھی مرغابیاں اور قاز اتر کر اپنی ہنسا دینے والی چال چلتے دکھائی دیتے تھے۔← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے سب راستے نیویارک سے نکلتے تھے۔ برکت عباس جعفری نے فون پر مجھے اس ٹاؤن کا نام بتا دیا تھا جہاں وہ مقیم تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہاں پہنچنے کے لیے مرکزی سٹیشن← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے نذیر چوہدری نے مجھے اصرار کرکے بلایا تھا اور رشتے کے ایک بھائی نے جب میرے تقاضے پر دعوت نامہ اور اپنے ٹیکس کے کاغذات کی نقول ارسال کی تھیں تو لکھا تھا “تم ایک بار آ← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے چھوڑیں ماضی کی باتوں کو، حال کے انفاس میں لوٹتے ہیں۔ میں نیویارک شہر کے مرکز سے گرے ہاؤنڈ بس میں سوار ہوا تھا۔ سفر کے دوران شہر فلاڈلفیا راستے میں پڑا تھا← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی وفاقی اور مقامی ریاستیں اپنے ملک اور اپنی ریاستوں میں بسنے والوں کے لیے بلا شبہ بہت اچھی ہیں۔ دنیا میں امریکہ انسانوں کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کرے لیکن اپنے ہاں لوگوں← مزید پڑھیے
مثل برگ اوارہ’سے سہیل نیویارک شہر دکھانے لے تو جاتا تھا مگر اس کا مسئلہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بے توجہی تھا۔ ایسا کئی بار ہوا کہ جو دخول شہر میں لے جاتا تھا وہ اس سے آگے نکل گیا۔ زیادہ← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ماورائیت کے حوالے سے میری سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکی تھی۔ کونیات اور متوازی نفسیات پڑھنے کے بعد بھی میری تشکیک میں شاید ہی کمی آئی تھی۔ مجھے امریکا جانے← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ایمرجنسی روم میں پہنچنے کے کوئی دس منٹ بعد ایک ڈاکٹر نے میرے دائیں کان کے اوپر والے حصے پر افقا” تین ٹانکے لگائے تھے کیونکہ یہ کان چرا ہوا تھا۔ غالبا” حملہ← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے جب یولیا دوسری بار آئی تھی تو سیدھی دفتر میں پہنچی تھی۔ اس وقت وہاں ذوالفقار موجود نہیں تھا البتہ اس کے گاؤں سے کچھ عرصہ پہلے آیا ہوا اس کا کوئی عزیز← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ذوالفقار ان ایرانیوں کی سرگرمیوں سے متاثر تھا اور مسلسل پیسے مارنے کی مشق کیے جاتا تھا۔ ویسے بھی وہ پنجاب کے اس علاقے سے تھا جہاں زمینداریاں چند ایکڑوں کی ہوتی ہیں← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ان دنوں میرے مقام رہائش کے نزدیک تر ایک بہت بڑی کھلی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ اسی مارکیٹ میں ظفر نے بھی ایک کنٹینر کرائے پر لے کر وہی کام شروع کر دیا← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے میں ماسکو تو لوٹ آیا تھا لیکن مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مقرب تاجک نے ایسا آخر کیوں کیا؟ یہ تو بالکل کسی ہندی فلم کی کہانی بن گئی تھی جس میں مینیجر چال← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے میں اور نینا دریا کے ان دو دھاروں کی طرح تھے جو کبھی جھنجھلا کر اپنی اپنی راہ لے لینے کی جانب مائل ہو جاتے تھے لیکن تھوڑی دور کی بیگانگی کے بعد پھر سے باہم ہو← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے موسم چونکہ سرد تھا۔ اس لیے میرا قیام شولپان کے گھر پر ہی رہا تھا۔ ایک روز مجھے ایک پرانا شناسا مل گیا تھا جو ایک ایجنٹ یعنی ہیومن سمگلر تھا اور جسے میں پہلے ماسکو میں← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ظفر کمار کی تعریف کیا کرتا تھا کہ اس نے اکیلے کس طرح تیزی سے اپنا کاروبار جما لیا تھا۔ وہ ایک بار کمار کو مجھ سے ملانے لایا تھا۔ کمار چھ فٹ کا چالیس بیالیس سال← مزید پڑھیے