شکوہ میری بے رخی کا/شاکر ظہیر

ایک شکایت ہا شکوہ ہمیں اکثر مذہبی حلقوں کی طرف سے سننے کو ملتا ہے کہ لوگ مسجد سے ، دینی پروگرامات سے یا دین سے دوری اختیار کر رہے ہیں ۔ جمعہ کی نماز کے وقت بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ لوگ عین اس وقت مسجد میں داخل ہوتے ہیں جب امام اُردو خطاب ختم کر کے عربی خطبہ دینے والے ہوتے ہیں ۔ کچھ امام مسجد تو اس چال کو سمجھ جاتے ہیں اور عربی خطبے کو درمیان میں روک کر درمیان میں پانچ دس منٹ پھر بھی زبردستی اپنی بات مقتدیوں کے کانوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ، کیوں لوگ اس حد تک بیزار ہیں ۔ یہ تو اتنا اہم موقع ہوتا ہے کہ خدا نے اس کمیونٹی کو پابند کیا ہے کہ وہ خطاب ضروری سنیں بلکہ اگر امام خطبہ دے رہا ہے تو آپ کو نوافل پڑھنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ اس کا خطبہ آپ کے نوافل سے زیادہ اہم ہے ۔ اس کے خطبے نے آپ کو وہ پروگرام دینا ہے جس کے مطابق معاشرے نے عمل کرنا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جمعے کا خطبہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ہے ۔ لیکن یہ معروف اور منکر کی بات واقعی کیا اس خطبے میں ہوتی ہے ۔؟

میں گزشتہ دو سال سے ایک ہی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھ رہا ہوں عربی خطبے سے دس سے پندرہ منٹ پہلے ہی میں مسجد پہنچ جاتا ہوں ۔ آج تک ان دو سالوں میں مجھے خطبے میں کوئی ایک وہ بات جو میرے اور معاشرے کے عملی مسائل کے متعلق ہو، نہیں مل سکی ۔ بلاشبہ امام صاحب کی قرات بہت دلنواز ہے ،نماز میں قرات کےلیے سورۃ  کی سلیکشن بہت اعلیٰ  ہے لیکن کیا صرف قرات ہی کافی ہے ۔ کیا ہمارے دین کا کوئی تعلق اس موجودہ دنیا اور اس کے معاشرے سے نہیں ہے ۔ کیا نیکی صرف نماز روزہ ہی ہے ۔ کیا پارسائی صرف مکہ مدینہ کی زیارت ہی ہے ۔؟

خیر شعبان کے حوالے سے اکثر مساجد اور خاص کر ان مساجد میں جن کے ساتھ مدارس بھی ہیں میں قرآن کی عظمت کے حوالے سے پروگرامات کیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح کے ایک پروگرام میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کی آمد کی خبر ملی تو شرکت کی ،  عرصہ  سات آٹھ سال کے بعد ایسی محفل میں شرکت کی ۔ آٹھ سال پہلے کی آخری محفل جماعت اسلامی کی تھی ۔ لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اصل بات یہ ہے کہ ہماری روایتی فکر اور محفلیں ابھی تک پچھلی صدی میں جی رہی ہیں ۔ وہی جو کچھ جمعہ کے موضوعات ہیں وہی یہاں بھی ہیں ۔ دنیا کیا کیا سوال اٹھا رہی ہے اس سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں، بس اپنی تنہائی میں جی رہے ہیں اور اسی کو مکمل دنیا سمجھتے ہیں ۔ محترم ذاہد الراشدی صاحب نے نپی تلی پانچ سات باتیں کیں، لیکن باقی مقررین کی حالت یہ تھی کہ کہاں کی آیت کا ربط کہاں جوڑ رہے ہیں , آیت کیا کہہ رہی ہے اور اسے معنی کیا پہنا رہے ہیں ۔ محترم جناب زاہد الراشدی صاحب نے پہلے حفاظ کو مبارک باد دی اس کے بعد فرمایا آپ کے اس کام میں پہلے مددگار آپ کے والدین اس کے بعد اساتذہ اس کے بعد یہ ادارہ اور سب سے اہم وہ لوگ جو اس ادارے کو چلانے کےلیے تعاون کر رہے ہیں ۔۔ یعنی دوسرے لفظوں میں آپ پر اس معاشرے نے اپنی محنت کی، اب آپ یہ سوچیں آپ نے اس معاشرے کو اس کے بدلے میں کیا دینا ہے ۔ ابھی تک تو جو کچھ نظر  آرہا ہے واپس معاشرے کو اس سے کچھ نہیں مل رہا ۔

باقی مقررین کے خطاب کا مقصد میرے ناقص خیال کے مطابق بس سامعین کو مصروف رکھنا ہے ، سامع کچھ حاصل کر کے جاتے ہیں کہ نہیں اس کی پرواہ نہیں ۔ وہی سُر سنگیت پونے گھنٹے کی تقریر میں شاید ہی کوئی علمی نقطہ ہو یا شاید ہی سامع کےلیے کوئی حاصلِ کلام ہو ۔

معاشرے کے وہ لوگ جو اس ادارے کو قائم رکھنے کےلیے مالی مدد دے رہے ہیں یہ میرے خیال میں ایک دینی حوالے سے تقدس کی ہے ،ورنہ افادیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کے بدلے میں معاشرے کو کچھ نہیں مل رہا ۔ فتوے تو اب گوگل پر بھی مل جاتے ہیں اور وہ سب سے بڑا مفتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پروگرام میں شرکت کے بعد میرے خیال میں ایک مرتبہ لوگوں سے شکوے شکایت کرنے کی بجائے علما  کو کچھ لمحوں کےلیے اپنے اوپر بھی نظر دوڑا لینی چاہیے ،کہیں غلطی اس طرف تو نہیں ؟ معاشرہ کہاں جا رہا ہے اس کی ضروریات کیا ہیں، اسے کس حوصلے اور تعلیم کی ضرورت ہے ،ان مسائل کو سمجھے بغیر آپ کے لوگوں سے شکوے شکائتیں بے معنی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply