کس قبیل کے لوگ ہم پر حکمران تھے اور ہیں۔۔گل بخشالوی

پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کہتی ہیں ،دشمن کے پروپیگنڈے پر کان   نہ دھریں ، نواز شریف اور شہباز شریف ایک ہی ہیں۔ ن لیگ جمہوری جماعت ہے، اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی قیادت پر سوا ل اٹھائے۔مسلم لیگ ن کے اجلاس میں اور بہت سی با تیں ہوئیں لیکن ایک درباری رانا تنویر حسین نے کہا کہ یہ فاشسٹ حکومت ہے، ا ن سے ملک نہیں چل سکتا۔

بڑے بزرگوں کا کہنا ہے کہ بھری محفل میں بات تمیز سے اور اعتراض دلیل سے کیاکرو ۔اگربات کے لئے تمیز نہیں اور اعتراض کے لئے دلیل نہیں تو خاموشی بہتر ہے ۔ انسان ہر گھر میں پیدا ہوتا ہے مگر انسانیت کہیں کہیں پیدا ہوتی ہے۔قومی سیاست میں ایسی باتیں وہ کرتے ہیں جو اپنے آنے والے بدصورت کل سے خوفزدہ ہو ں سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن خاندانی لوگوں کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کو اس کی عاجزی نہیں اس کا تکبر لے ڈوبتا ہے۔

در اصل سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیداہونے وا لے شاہی خاندانوں کے خانوادے سیاسی نابا لغوں کے بزرگوں کو ان کی خود پرستی کی وجہ پاکستان سے محبت کرنے والی عوام نے مسترد کر دیا ہے وزیرِ اعظم پاکستان نے سیاسی بصیرت سے امریکہ کو افغانستان سے نکال کر دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ، ہم محب ِ وطن عوام پاکستان کے خوبصورت مستقبل سے مایوس نہیں ان شاءاللہ، وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر میں آزاد اور خود مختار کشمیر کی صدائیں گونجیں گی ، قوم میں مایوسی پھیلانے وا لی اپوزیشن نے تختِ اسلام آباد کے لئے کیا کچھ نہیں کیا لیکن ان کے خواب ادھورے ہیں،پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے خوابوں کا سورج طلوع ہو رہا ہے ۔

سیاسی جماعتوں میں مفادات اور تحفظات پر اختلافات ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت اپوزیشن کے خود پرست صرف اپنی جماعتوں میں تسلیم کرتے ہیں، تحریکِ انصاف میں جب ترین گروپ نے سر اٹھایا تو اپوزیشن نے بھنگڑے ڈالے، ان سے رابطے شروع کر د  یے ،عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن نے حکومت کے اتحادیوں کے حضور ہاتھ جوڑے، ایم کیو ایم کو سبز باغ دکھائے، مسلم لیگ ق کے در پر دستک دی، جہانگیر ترین کے گھر دعوتیں اڑائیں ، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، اس لئے پاکستان کی عوام اس حقیقت کوجان گئی ہے کہ اگر کوئی بلاوجہ آپ کا دشمن ہے تو جان لیں کہ آپ میں کچھ خاص ہے اور آپ کے کردار پر انگلی اٹھانے والا حاسد ہے ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی خاموش ہیں۔ قومی عدالتوں میں بھی تماشا  لگا ہے مقدمات بن رہے ہیں کسی کو سزا نہیں ہو رہی اس لئے کہ اگر ان کو سزا دی گئی تو یہ ہیرو ہو جائیں گے ان کو سیاسی منظر میں ایم کیو ایم کی طرح زیرو کرنے کے لئے آزاد رکھا ہے  اس لئے کہ یہ بولیں اور بول رہے ہیں۔ پہلے مل کر بولتے تھے اب  آپس میں الجھ کر ایک دوسرے کے خلاف بول رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اہل دانش جانتے کہ ہر انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہے اگر اسے سمجھنا ہے تو اسے بولنے دو، اس لئے عمران خان ان کو بولنے دے رہا ہے، اپوزیشن بازاری زبان میں بول رہی ہے جواب میں عمران خان کے درباری رہے ہیں اس لئے کہ عمران خان کی ٹیم کے یہ لوگ آج کی اپوزیشن کی تالی میں تھوک کر آئے ہیں۔ سب گنگا میں نہائے ہوئے ہیں ۔ آب زم زم سے نہا کر تھوڑی تحریک ِ انصاف میں شامل ہوئے ہیں ،عمران خان کتنا ہی مومن اور محب ِ وطن کیوں نہ ہو لیکن ان کی ٹیم کی سوچ اس کی سوچ نہیں سوچتی اور قوم سوچ رہی ہے کہ کس قبیل کے لوگ ہم پر حکمران تھے اور ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply