ہار یا جیت نہیں، سبق اورجیت۔۔گُل بخشالوی

ورلڈ کپ میں تم نے جو فتوحات رقم کیں وہ بے مثال ہیں،ہم پاکستانیوں کو تم پر فخر ہے ، تم قومی ہیرو ہو ، ہمارا ہدف ، بھارت ، نیوزی لینڈ اور افغانستان کو ہرانا تھا ،تم نے ہرا دیا، ان کا غرور خاک میں ملانا تھا ،تم نے ملا دیا ، گروپ کے تمام میچ جیت کر تم نے پاکستان کا سر کرکٹ کی دنیا میں سر بلند کر دیا، سیمی فائنل میں شان سے پہنچے ، سر اٹھا کر اکھاڑے میں اُترے ، اکھاڑے میں ایک دوسرے کے مقابل پہلوان کم کمزور نہیں ہوتے جوڑ برابر کا ہوتا ہے دونوں داؤ  پیچ اپنی کسی ایک غلطی سے ہارتا ہے، تم ہار گئے۔۔ لیکن تم اپنی ہار پر قوم سے بھارت کی طرح شرمندہ نہیں ہو،ماضی میں اکثر پاکستان جب بھی کوئی ایسا بڑا میچ ہارا ہے تو کسی نہ کسی کھلاڑی پر انگلیاں ضرور اٹھائی گئیں، چاہے وہ 1996 کے کوارٹر فائنل میں عامر سہیل ہوں، 1999 کے فائنل میں سعید انور یا 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں مصباح الحق۔ انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان ٹیم کی آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہے، اور یہی وہ پیغام تھا جو میچ کے بعد ڈریسنگ روم میں کپتان بابر اعظم اور کوچز ثقلین مشتاق اور میتھیو ہیڈن نے   کہا ،درست کہا !دُکھ سب کو ہے، کہاں غلط کیا اور کہاں اچھا کرنا چاہیے تھا ۔یہ ہمیں کوئی بھی نہیں بتائے گا، سب کو پتا ہے۔ لیکن اس سے ہم نے سیکھنا ہے۔ ہمارا جو یہ یونٹ بنا ہوا ہے یہ ٹو ٹنے نہ پائے، نہ کوئی کسی پر انگلی اٹھائے ۔مداحوں کا ردِ عمل میچ کے نتیجے پر منحصر ہوتا ہے: اگر جیت جائیں تو ’واہ، واہ‘، ہار جائیں تو لعن طعن۔

ہر میچ میں ہر ایک نے ذمہ داری لی، یہی چاہیے ہوتا ہے‘’ مثبت بات کریں، کوئی منفی بات   نہیں کرے گا۔ ہار گئے ہیں، ہاں ہار گئے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں لیکن ہم سیکھیں گے ہمت ہمارے ہاتھ میں ہے اور وہ ہم کریں گے۔ نتیجہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جیسے جیسے آپ ہمت کرتے رہیں گے رزلٹ ہمارے ہاتھ میں آتے رہیں گے۔‘مجھے پتہ ہے سب کو دکھ ہے لیکن یہ تھوڑی دیر تک۔ سوچو ہم کہاں غلط تھے اور کہاں ہم اچھا کر سکتے تھے۔ کوئی گرا ہوا  نظر نہ آئے، ایک دوسری کو اٹھا ؤ ۔ یہی وقت ہوتا ہے ۔ آپ سب پر فخر ہے‘ہم نے ہر ممکن کوشش کی، میدان میں کوئی کسر نہیں چھوڑی رضوان اور شعیب ملک، جو ہسپتال سے اٹھ کر میچ کھیلنے آئے تھے، ۔ بڑی ہمت چاہیے ایسے موقعے پر کھڑے ہونے کے لیے اور ایسے مقابلے میں حصہ لینے کے لیے۔ پلیز، اپنے سر بلند رکھیں۔ یہ درد قلیل مدتی ہے لیکن ہمیشہ یاد رکھو کہ بہترین ٹیم ہونے کے لیے کیا درکار ہے۔ کچھ چیزوں پر ہمیں کام کرنا ہوگا، انفرادی طور پر اور مشترکہ طور پر، لیکن مجھے آپ سب پر فخر ہے۔ یہ ایک بہترین مہینہ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ثقلین مشتاق نے کہا،وِن آر لوز نہیں، وِن اینڈ لرن‘(Not Win and lose ,win and learn)، یہ جو لفظ ہیں کسی نے ایسے ہی بنا دیے ہیں۔ وِن اینڈ لرن (سبق اور جیت)۔ اپنی جیت سے جو اچھی یادیں وابستہ ہیں انھیں محفوظ کرو اور شیئر کرو کہ تم لوگ کیسے لڑے اور ایک دوسرے کے ساتھ سے کیسے لطف اندوز ہوئے اور کیسے ایک دوسرے  کو سپورٹ کیا۔ تمام کھلاڑیوں کو اس پر خوش ہونا چاہیے کہ وہ ادھر سے سیکھ کر کیسے جا رہے ہیں۔  مراد یہ ہے تم لوگ دوست ہو، تمہاری دوستی اور زیادہ بڑھے، تمہارے جوڑ میں اور زیادہ جوڑ آ جائے، تمہارے دل اور متحد ہوں۔ تمہارا ایک دوسرے پر یقین اور بڑھے، یہ سیکھ کر جاؤ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply