کشمیر ۔ ابتدائی مسائل (24)۔۔وہاراامباکر

آج جب ہم بادی النظر میں الحاقِ کشمیر معاملے کو پاکستان کے نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو یہ کہنا آسان ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس ریاست کو پکا ہوا پھل سمجھا تھا جو جھولی میں گر جائے گا۔ اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ کی اتحادی مسلم کانفرنس نے قیامِ پاکستان سے صرف تین ہفتے قبل پہلی بار اعلان کی کہ وہ ریاست کے پاکستان سے الحاق کے حق میں ہیں۔ اس سے پہلے مسلم کانفرنس کی پوزیشن یہ رہی تھی کہ وہ مہاراجہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں آزاد جمہوری کشمیر کا حکمران تسلیم کرتے ہیں۔ (جبکہ اس کے خلاف نیشنل کانفرنس کی پوزیشن مہاراجہ کے مخالفت کی تھی)۔
اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلم لیگ کی اس علاقے میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ یہ کہ یہ ایک بہت مشکل دور تھا جب بہت تھوڑی سی دیر میں بہت اہم فیصلے لئے جانے تھے۔ نہ ہی یہ ٹھیک علم تھا کہ پاکستان قائم ہو گا اور یہ اعتماد بھی اتنا زیادہ نہیں تھا کہ قیام کے بعد سروائیول کیسے ہو گی؟ (کوتاہیاں ڈھونڈنا صرف بعد میں آسان مشق ہے)۔
پاکستانی قیادت کے لئے آزادی انڈین قیادت کے مقابلے میں زیادہ مشکل چیلنج تھا۔ علاقوں اور لوگوں کی تقسیم، مہاجرین کے مسائل، گمشدہ لوگوں کی تلاش کے مسائل تو فوری آ کھڑے ہوئے تھے لیکن انڈیا کے حصے میں وہ علاقے آئے تھے جو مرکزی انڈیا کے زیادہ ترقی یافتہ علاقے تھے۔ بیوروکریسی اور انتظامیہ کام کرتی تھی۔ دارلحکومت دہلی، بندرگاہیں، بڑے شہر ان کے پاس تھے۔ مالیاتی کنٹرول ان کے پاس تھا (گاندھی کے احتجاج اور مرن برت رکھ لینے کے بعد ہی انڈین قیادت نے جنوری 1948 میں پاکستان کا حصہ ادا کیا)۔ ملٹری اور نیوی کے بیس، بڑا ریلوے نیٹورک انڈیا کے حصے میں آئے۔
پاکستان کے دو الگ یونٹ تھے جن میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ کراچی کے پاس نئی حکومت چلانے کے وسائل ناکافی تھے۔ دفتر بھی دستیاب نہیں تھے۔ سلطنت کے پسماندہ علاقے بھی اس کے پاس آئے تھے۔
انڈیا کو اقوامِ متحدہ میں “برٹش انڈیا” کی سیٹ مل گئی۔ پاکستان نیا ملک تھا۔ اس کو ستمبر 1947 میں درخواست دینا پڑی۔ افغانستان اس میں واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ افغانستان کا بھی خیال تھا کہ پاکستان اپنے پاوٗں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا اور واپس انڈیا میں ضم ہو جائے گا۔ اس نے حکمتِ عملی کے تحت پرانی طے شدہ عالمی سرحد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پاکستان کے بڑے علاقے پر دعویٰ کر دیا۔ اس کو توقع تھی کہ اگر پاکستان واپس انڈیا میں جذب ہو جاتا ہے تو وہ ان علاقوں کو حاصل کر سکے گا۔ (افغانستان نے اگرچہ پاکستان کو تسلیم کر لیا لیکن پاک افغان عالمی سرحد کو ابھی تک سرکاری طور پر قبول نہیں کیا)۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مسائل کے پس منظر میں پاکستان کی طرف سے ابتدا میں کشمیر کی طرف زیادہ توجہ نہ دینا ان کے لئے مہنگا ثابت ہوا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے نتیجے میں جلد ہی نوزائیدہ پاکستان کی فوج اپنے پہلے برس ہی دو محاذوں پر متحرک تھی۔ دونوں ہی مغربی پاکستان کی سرحدیں تھیں۔ تاریخ کے بعد جغرافیہ کے اس جبر کی وجہ سے مغربی پاکستان میں دفاع ترجیحات میں اوپر آ گیا۔ جبکہ یہ مشرقی پاکستان کے مسائل نہیں تھے۔ آنے والے وقتوں میں اس نے پاکستان کی سیاسی قسمت کے نقشے کی تشکیل بھی کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقسیمِ ہند کی سرحدوں کا تعین کرنے کے لئے سرجری کی جانی تھی۔ یہ کرنے کے لئے پانچ رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس میں دو نمائندے مسلم لیگ کے، جبکہ دو کانگریس کے تھے۔ کانگریس کے نمائندے مہر چند مہاجن اکتوبر 1947 میں ریاستِ جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم بنے۔ ان چار ارکان کا اس کمیشن میں کوئی خاص فائدہ نہیں تھا۔ کیونکہ ان کی آراء ہمیشہ مخالف ہوتی تھیں۔ پانچواں ووٹ فیصلہ کن ہوتا تھا۔ یہ اس کمیشن کے سربراہ سرل ریڈکلف کا تھا۔ یہ ناممکن مرحلہ تھا۔ ریڈکلف اس خطے سے بالکل واقف نہیں تھے اور انہیں کوئی وقت نہیں دیا گیا تھا۔ 8 جولائی کو آئے اور کام مکمل کر کے 12 اگست کو واپس چلے گئے۔ ان کی رپورٹ کو 17 اگست کو پبلک کیا گیا۔انڈیا اور پاکستان پہلے اتفاق کر چکے تھے کہ وہ اس کو تسلیم کریں گے۔ اس میں نہ صرف آبادی کو، بلکہ جغرافیے کو، نہری نظام جیسے عوامل کو بھی مدِنظر رکھا جانا تھا۔ اس میں کچھ ایسے فیصلے تھے جنہیں متنازعہ کہا جا سکتا ہے۔ گورداسپور اور فیروزپور کا انڈیا میں چلے جانا ایسا اہم فیصلہ تھا۔ چٹاگانگ کی پہاڑیوں کا پاکستان میں آ جانا اور اس کے علاوہ کوچ بازار اور رنگپور کے علاقے پاکستان میں شامل کئے گئے جو انڈیا کے اندر تھے۔ پنجاب سے جنوب کے علاقے پر سرحد نہیں کھینچی گئی تھی۔ اس میں بہاولپور، جیسالمیر، جودھپور، بکانیر کے ریاستیں تھیں۔ ان کے جنوب میں کچھ کی ریاست اور سندھ کے صوبے کا علاقہ تھا۔ یہ دلدلی زمین بحیرہ عرب سے ملتی تھی۔ اس پر پاکستان اور انڈیا کی جھڑپیں اپریل 1965 میں ہوئیں۔
(آسام کے ضلع سلہٹ اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں عوام کی رائے پوچھنے کے لئے برٹش نے استصوابِ رائے کروایا۔ دونوں میں پاکستان کے حق میں ووٹ آنے سے یہاں معاملہ طے ہو گیا)۔
گورداسپور کے فیصلے نے انڈیا کو کشمیر میں داخلے کی ایک کچی سڑک دے دی۔ یہ کشمیر کے ابتدائی دنوں کے لئے اہم رہا۔ اس کے بغیر انڈیا کو ہماچل پردیش سے سڑک نکالنا پڑتی اور انڈیا سے الحاق اتنی سرعت سے نہیں ہو سکتا۔
گورداسپور بہت قریب کا فیصلہ تھا۔ اس کی ایک تحصیل (پٹھان کوٹ) میں ہندو اکثریت تھی۔ جبکہ تین تحصیلوں (بٹالہ، شکرگڑھ اور گورداسپور) میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شکرگڑھ پاکستان کے حصے میں آئی، جبکہ باقی تحصیلیں انڈیا کو ملیں۔ پاکستان میں اس ایوارڈ کو بددیانتی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن یہ آئیڈیا وائسرائے لارڈ ویول فروری 1946 میں بھی دے چکے تھے۔ اس کی وجہ امرتسر کے ضلع کی لوکیشن تھی جو ان کے بغیر پاکستان کے بیچ میں آ جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ ریڈکلف نے ویول کی بات پر دھیان دیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ان پر “اثرانداز” ہوا گیا ہو۔ ہم کہہ نہیں سکتے۔ لیکن سترہ اگست کو اعلان کردہ اس ایوارڈ نے جموں و کشمیر کے انڈیا سے الحاق کو مقابلتاً آسان کر دیا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ لگی تصویر میں پنجاب کا ڈیٹا جو 1941 کی مردم شماری کا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply