پشتین ،پی ٹی ایم ، ریاست، سازش اور ہم۔۔۔ثاقب ملک

میرے مشاہدے کے مطابق پختونوں کی حب الوطنی پاکستانیوں کے لئے باعث فخر ہونی چاہیے. اتنا جانی اور مالی نقصان کروا کر بھی پختون بھاری اکثریت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، افغانستان اور بھارت کے ساتھ نہیں. لیکن پرو بھارت، پرو پختونستان، اور پرو افغانستان والے عناصر تیزی کے ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ پر اپنا لچ تل رہے ہیں.

جنہوں نے لاشیں اٹھائیں ہوں، زخم کھائے ہوں انکے زخموں پر مرہم رکھنا ہمارا بنیادی مقصد ہونا چاہیے. کم از کم حکیم اللہ محسود جتنی سپورٹ تو منظور پشتین کو ملنی چاہیے. جس کو آغاز میں مجاہد وقت بنا کر پیش کیا جاتا رہا تھا .

“پشتین”

منظور پشتین میں مجھے اچھائی اور خلوص کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے. اسکا لہجہ نرم ہے. شکایات اور مطالبات کو بطور طعنہ استعمال نہیں کرتا. جن مطالبات میں پیشرفت ہو رہی ہے ان کو صاف تسلیم کرتا ہے. تعصب نہیں جھلکتا بلکہ مسائل پر فوکسڈ ہے. عمر اور ناتجربہ کاری کا مارجن دینا چاہیے. منظور اور دیگر پر خلوص نوجوانوں کو بھی اس تحریک کو ہائی جیک ہونے سے بچانا ہوگا.

“پی ٹی ایم ”

پی ٹی ایم کے پانچ درج ذیل بنیادی مطالبات ہیں.

1. بارودی سرنگیں ہٹائی جائیں.( اس مطالبے پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے. منظور پشتین اور پختون تحفظ موومنٹ اس پر مطمئن ہے. )

2. چیک پوسٹوں پر رویہ توہین آمیز نہ ہو اور چیک پوسٹ کم کی جائیں. بقول منظور پشتین اسکو جنوبی وزیرستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے میں 40 کلومیٹر کے دوران 17 چیک پوسٹوں سے واسطہ پڑتا ہے. ہر چیک پوسٹ پر سب مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر قطار بنا کر چیک کیا جاتا ہے. اس سے مزید وقت ضائع ہوتا ہے. خواتین کے لئے خاتون آفیسرز موجود نہیں ہیں جو قبائلی کلچر کے سخت منافی ہے.

3. کرفیو کم کیا جائے یا ختم کیا جائے. فی الوقت ہفتہ اور اتوار کرفیو نافذ ہوتا ہے. جب حالات بہتر ہیں تو پھر کرفیو کی ضرورت کیوں ہے؟

4. کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں فوراً اردگرد والے گاؤں کے ہزاروں لوگوں بشمول بچوں، بزرگوں اور عورتوں کے سب کو باہر کھڑا کر دیا جاتا ہے. سب کو بطور مجرم ٹریٹ کیا جاتا ہے.

5. آٹھ ہزار افراد لاپتہ ہیں. پی ٹی ایم کے مطالبات کے بعد ڈھائی تین سو افراد گھر واپس آ چکے ہیں. باقیوں کے متعلق کچھ علم نہیں.

“ریاست”

یہاں ریاست سے میری مراد فوج ہے کیونکہ وہی وزیرستان میں مختار ہے. بات صاف ہے کہ پاک فوج اپنی قربانیوں اور شہداء کے کارپٹ تلے مسائل، اور سوالات کو نہیں دبا سکتی. جوانوں کی قربانیوں سے انکار ممکن نہیں. آپریشن کے بعد امن قائم رکھنا قابلِ تحسین ہے. سوشل اکنامک فرنٹ پر پاکستانی آرمی نے بہت مثبت کام کیا ہے. فاٹا میں اچھے سکولز ہسپتال، گراونڈ، کمیونٹی سنٹر بن رہے. فوج کی کامیابیوں کو ڈس کریڈٹ کرنا ممکن نہیں ہے.

لیکن یہ مسائل پاک فوج کی ہی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں. اسی کے عشرے سے لیکر آج تک، مجاہدین، دہشت گرد، گڈ اور بیڈ طالبان کی تفریق سے لوگوں کو جو نقصان اٹھانا پڑا اور پورے پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختون خوا اور فاٹا کے لوگوں کو ہزاروں کی تعداد میں لاشیں اٹھانی پڑیں اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری پاک فوج پر عائد ہوتی ہے. اب پاک فوج کو ہی زخموں کو رسنے سے بچانا ہے. کیونکہ میاں صاحب اپنی سیاست بچا رہے ہیں، عمران خان اقتدار کی چمک سے شاید آنکھیں چندھیا بیٹھے ہیں، زرداری کے لئے یہ ایشو نہیں ہے اور باقی بولنے والے اپنی سیاست ہی چمکا رہے ہیں.

فوج کا کہنا ہے کہ جب ہمارے جوان چیک پوسٹوں پر جانیں دیتے ہیں تو لازماً ایک سختی کافی عنصر پیدا ہوتا ہے. دوسرا جوان اپنے بیوی بچوں سے دور ہوتے ہیں. کسی کا بچہ بیمار ہوتا ہے کسی کا کوئی اور ایشو۔۔۔ تیسرا تلاشی دینے والے بھی بدتمیزی کرتے ہیں. میرا خیال ہے یہ کمزور دلائل ہیں. پاک فوج کے جوان تربیت یافتہ ہوتے ہیں یہ بودے دلائل کسی بچے کو بھی متاثر نہیں کرینگے. کیا یہی مسائل تلاشی دینے والوں کے ساتھ نہیں ہوتے؟ کیا کسی سویلین کو یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ وہ جوانوں سے توہین آمیز رویہ اختیار رکھے؟

چیک پوسٹ کم کرنا شاید ممکن نہ ہو مگر رویہ بہتر کرنا، لوگوں میں گڈول پیدا کرنا، جدید  سکینر لگانا، خواتین آفیسرز کی تعیناتی اور مقامی لوگوں کا ڈیٹا بیس بنانا تاکہ ریگولر لوگوں کو روز مشکلات نہ ہوں تو لازمی ہونا چاہیے . امید ہے آرمی یہ اقدام اٹھائے گی.

کرفیو اوقات اگر کچھ کم کئے جائیں تو یہ ایک بہتر آغاز ہوگا. کسی بھی حادثے کی صورت میں ایک سیٹ پروٹوکول طے ہوتا ہے مگر اس میں بھی گھروں سے لوگوں کو نکالنے اور روہے میں بہتری کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے .

مسنگ پرسنز ایک ایسا ایشو ہے جس پر آرمی اور ایجنسیاں اپنے لب سی کر رکھتے ہیں. مانتے ہیں دہشت گردوں کو بھی پکڑا ہوگا اور کافی لوگ خود بھی بھاگے یا غائب ہوئے ہیں. میں کئی ایسے لوگوں اور انکے رشتہ داروں کو جانتا ہوں جو اسلام آباد، پنڈی سے غائب ہوئے اور بعد میں سال ڈیڑھ بعد رہا کر دئیے گئے. کیا ان کو کوئی کمپینسیشن دی گئی؟ آگر وہ بے گناہ تھے تو ان کے ضائع شدہ وقت کا کون ذمہ دار کون ہے؟. ان کے گھر کس طرح چلتے رہے؟ ان کے بچوں کی جدائی کا الزام کس کو دیں؟ پاک فوج اگر اس عمل کو لازمی سمجھتی ہے تو کوئی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ہی طے کر دے. اصولاً تو عدالتوں میں لیکر جائیں. دہشتگردی کے قانون موجود ہیں مجرموں کو الٹا لٹکائیں مگر اس طرح خوف کی فضا پیدا نہ کریں. یہ نفرت پیدا کرنے والی بات ہے.

“سازش”

ایک خدشہ جو بالکل سامنے ہے کہ نمبر ایک کم از کم سوشل میڈیا کے اینٹی پاکستان اور پرو پختونستان والے اس تحریک کو بڑھ چڑھ کر سپورٹ کررہے ہیں. دوسرا بھارتی اور افغانستان میڈیا پر اس تحریک کو ہمارے میڈیا سے کہیں زیادہ کوریج مل رہی ہے. یہ دو شکوک و شبہات پیدا کرنے والے اشارے ہیں. نقیب کے والد سے آرمی چیف نے ملاقات کی ہے کیا پاکستان میں اس سے بڑا کوئی اتھارٹی والا ہے؟ شکایات کا لازمی ازالہ ہونا چاہیے مگر پاکستان میں جس طرح ہر تحریک ہائی جیک ہوجاتی ہے اس بنیاد پر مجھے خدشات بھی ہیں. اگر تاریخ دیکھیں تو مجاہدین سے قبل پختونستان تحریک تھی. اب شاید مجاہدین کے بعد پھر پختونستان تحریک چل نکلے کیونکہ ایک ہمارے ادارے کرپٹ ہیں تو مظلوموں کی داد رسی کرنا مستقل ممکن نہیں اور چند مزید حادثے اس آگ پر مزید ایندھن ڈال سکتے ہیں.

موقع ملنے پر اپنے تعصبات کی آگ میں جلنے والے اپنے مذموم مقاصد کے لئے مظلوموں کے جائز مطالبات کو بھی بے وقعت بنا دینگے. پاک آرمی سے ہر صورت میں نفرت کرنے والے لبرلز، اور رائٹ ونگ دونوں کے مکرو عناصر کی ہلچل کو مانیٹر کرنا ہوگا. اپنے نسلی تعصب کی ساڑ نکالنے والوں کے چھتے بھی اس تحریک کو بدبودار کر سکتے ہیں.

“ہم”

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں سازشی اور مظلومیت والے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنا ہوگا. پاکستان کوئی کانچ کی گڑیا نہیں کہ کوئی اپنے حق کی بات بھی کرے تو مشرقی پاکستان یاد آجائے. لوگوں کو انصاف اور عزت دینے کی جدوجہد کی حمایت کریں. لیکن سازشی عناصر کے پراپیگنڈے پر نظر بھی رکھیں.

Facebook Comments

ثاقب ملک
رائٹر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply