دوسری شادی کسی میم سے کریں۔؟اجمل ملک

دوسری شادی مرد کی پہلی ضرورت ہوتی ہے۔بندہ دوسری شادی کرے توکسی میم سےکرے۔جتنی دیرمیم کو زبان سیکھنے۔فرفر بولنے اور گالیاں سمجھنے میں لگے گی۔ شوہر کی زندگی پُر سکون رہے گی۔دیسی لڑکی سے دوسری شادی کرنا۔ایسے ہی ہے جیسے بندہ موبائل کی نئی کیسنگ خرید لے۔ پہلی بیوی بدتمیز ہے تو دوسری بھی نکلے گی۔پہلی موٹی ہوگئی تودوسری کی بھی گارنٹی نہیں۔بلکہ ممکن ہے۔پہلی طلاق لے لے اور۔دوسری نہ لے۔طلاق کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز شادی ہے۔شادی ایسا تعلق ہے۔جس میں ایک ہمیشہ درست ہوتا ہے۔اور۔دوسرا شوہر ہوتا ہے۔ بیوی جب کھل کے سونا چاہتی ہے۔شوہر سے لڑائی کرلیتی ہے۔’’پھر دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘۔کے اخلاقی سبق صرف نصابی کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ خواتین کاحُسن ان کی خاموشی میں چھپا ہوتا ہے۔اسی لئے خاتون جب تک بیوی نہ بن جائے اچھی لگتی ہے۔شوہر نیک ہو جائے توبیوی سمجھتی ہے کہ یہ ناٹھا۔ کسی حُور کے چکر میں ہے۔؟۔جس عورت نے کہا تھا سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔اس کا شوہر چین میں گم ہو گیا تھا۔۔ اقوال زریں میرے دوست شیخ مرید کے ہیں۔جو میرے لئے سندکی حیثیت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں کاروباری حالات ایسے ہیں کہ سوائے بیوی کے کچھ ڈبل نہیں ہو رہا۔ بیوی جتنی بھی زیرو سائز ہو۔شادی کےمحض تین چار سال بعد گاؤ تکئیےکی جگہ لے لیتی ہے اور شوہر جتنا بھی آوارہ مزاج ہو۔ چار پانچ سال کے لئے بسترمیں جگہ بنا لیتا ہے۔گاؤ تکیہ وہاں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ شادی کا ۔سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ’’گاؤ تکیہ‘‘رکھنے کے لئے الگ کمرہ مل جاتا ہے۔ سال دو سال بعدکمرے میں چھوٹے چھوٹے’’ کُشن‘‘آنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ شوہرپہلے بستر سے نکلتا ہے اور پھر ایک دن کمرے سے ہی نکل جاتا ہے۔شادی کی ہوا۔گیسی غبارے کی طرح جلد ہی نکل جاتی ہے۔اورعمررفتہ پچکے غبارے کی طرح گذرتی ہے۔۔میاں بیوی میں لڑائی ہیضے کی طرح پھوٹتی ہے اورالٹیوں کے بعدختم ہو جاتی ہے۔ہر خانگی جنگ کا اختتام بیوی کے اس ڈائیلاگ پرہوتا ہے کہ ’’بس میری زبان نہ کھلوا ؤ۔ منہ بند ہی رہنے دو‘‘۔۔شوہر میں لڑنے کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن ہمت نہیں ہوتی۔

میاں بیوی آرٹ گیلری گئے شوہر ایک پینٹنگ دیکھ رہاتھا۔ جس میں لڑکی کے جسم پر صرف درخت کے پتے تھے۔

بیوی (جل کر): آگے بھی چلیں یا آندھی آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

شیخ مرید اوربھابھی نصیبو نے دس سال قبل لو میرج کی تھی ۔ اب مرید کے پاس ذاتی گاؤ تکیہ ہے۔اورتین کُشن۔وہ پانچ سال سے بیڈ روم سےباہر ہے۔ تکیہ اس کی زندگی کاکمبل بن چکا ہے۔وہ ۔ ذرا سی چوں بھی کرتا ہے تو نصیبوفورا چاں چاں کرنے لگتی ہے۔وہ چاہتا تھا۔الطاف حسین کی طرح ۔نصیبو کے خطاب پرپابندی لگ جائے۔ بیوی کے جُسےاور غصے کاڈرنہ ہوتا تومرید کب کا کیسنگ بدل چکاہوتا۔ اسے معلوم ہے کہ ایک جیلس بیوی۔سکاٹ لینڈ یارڈسےبھی اچھی تفتیش کر سکتی ہے۔وہ جانتا ہےکہ خفیہ بیوی (دوسری)۔آف شور کمپنی کی طرح خفیہ نہیں رہتی۔ اسے پتہ ہے کہ سالے ۔اقوام متحدہ کےمعائنہ انسپکٹرز ہوتے ہیں۔جوگھر سے ہی’’کیمیائی حملے‘‘کروا سکتے ہیں۔

مالن (مالی سے) : وہ کون سی چیز ہے جوتم روزانہ دیکھتے ہو لیکن توڑ نہیں سکتے۔
مالی :تمہارا منہ
میاں اور بیوی میں منہ توڑ حملے اکثر جاری رہتے ہیں۔والدین ۔اولاد کو جو تربیت دیتے ہیں اسے جانچنے کا۔۔ سب سے بڑا امتحان شادی ہے۔جس طرح کرکٹ میچ فکس ہوتے ہیں۔ اسی طرح شادی کا نتیجہ بھی فکس ہوتا ہے۔ جس میں ہر شوہر فیل ہوتا ہے اور۔ بیوی۔فُل فیل۔اس امتحان میں۔ میاں بیوی کے پاس ہونے کی نہیں ۔البتہ پاس پاس ہونے کی گنجائش ضرور ہوتی ہے۔ بیوی روٹھ جائے تو اسے تہوار کی طرح مناناپڑتا ہے۔ اور جب وہ مان جاتی ہے تو باقی’’ تہوار‘‘ شوہرمناتے ہیں۔ مرید کہتاہے کہ خواتین کے موٹاپے کی بڑی وجہ تہوار ہیں۔لیکن ۔pregnant عورت کی زندگی کااذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے۔جب لوگ مبارک دینے کے بجائے جم جانے کا مشورہ دینے لگتے ہیں۔

دنیا بھر میں موٹاپے کی بڑی وجہ ٹینشن ہے۔اورثبوت شوہر ہے۔بیوی ٹینشن فری ہوتی ہےکیونکہ وہ کسی کا شوہر نہیں ہوتی۔  کنواری لڑکیاں۔شادی شدہ کی نسبت پتلی ہوتی ہیں کیونکہ کنواری۔ گھر آتے ہی پہلےفریج میں دیکھے گی اورکمرےکی طرف چلی جائے گی۔ جبکہ شادی شدہ پہلے کمرہ دیکھے گی اور پھر فریج کی طرف چلی جائے گی۔شادی کے بعدخواتین کا وزن۔وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے اثاثوں کی طرح اچانک بڑھ جاتا ہے۔شادی پر سلوائےگئے سوٹ۔ غبارے کی طرح پچکے لگتے ہیں۔پٹیالہ شلوار کی طرح جسم پر چربی کی تہیں چڑھ جاتی ہیں۔بیچاریوں کی باقی زندگی۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سوٹ جسم سے لگا لگا کردیکھنے میں گذرجاتی ہے۔لیکن خواتین کے لئے پتلا ہونا بائیں ہاتھ کا کا م ہے۔وہ آئینہ نہ دیکھیں۔ تصویر نہ بنوائیں اور وزن نہ کرائیں تو پتلی رہتی ہیں۔۔جبکہ۔موٹے مرد۔جینز پہن کرپتلے ہوتے ہیں۔۔موٹاپا اگرمرد کے جینز میں نہ بھی ہو۔ تو بھی موٹے جینز میں ہی ہوتے ہیں ۔پاکستان کے ستانوے فیصد مر د۔ گھروں کے اندر موٹا ہونے میں مصروف رہتے ہیں اور۔ تین فیصدپہلے ہی طاہر اشرفی ہوتے ہیں۔مرید کہتا ہے کہ۔طاہر اشرفی گوشت کا ایسا پہاڑ ہیں۔جو بیٹھا بھی ہو تو لیٹا محسوس ہوتا ہے۔

پاکستان میں۔سچے پیار، خالص دودھ اور اصلی شہدکی تلاش ہمیشہ جاری رہتی ہے۔سچا پیار تواتنا ۔ناپید ہوگیا ہے کہ چار پانچ بچوں کی ماں بھی پیار لوٹنے کےلئےبھاگ جاتی ہے۔پھررشتہ دار معاملہ دبانے میں لگ جاتے ہیں۔اگر اتنے ہی بچوں کا باپ بھاگ جائے تو’’سالے‘‘جگہ جگہ معاملہ اچھالتے پھرتے ہیں۔ہمارے ہاں ننانوے فیصد شوہر مائنس ون اور سو فیصد پلس ون کےشوقین ہیں۔مریدکہتا ہےکہ’’ آپ کسی بھی مردکی تلاشی لے لیں۔اس سےچار پانچ غیرمعیاری پیار ضروربرآمد ہوں گے‘‘۔کہتے ہیں کہ محبت ہمیشہ موٹی لڑکی سےکرنی چاہیےکیونکہ وہ ’’بھاگ‘‘ نہیں سکتی۔اور پتلی لڑکی کا پتہ نہیں ہوتاکہ اسے پیار چاہیے یا خوراک۔شائد اسی شش وپنج میں 30 ہزارپاکستانی مرد میموں سےشادی کرچکے ہیں۔

گذشتہ دنوں۔ سینٹ اجلاس کے دوران پاکستانیوں کی غیر ملکی خواتین سے شادی موضوع بحث رہی۔ سینیٹ کو بتایاگیا ہے کہ’’ گریڈ 1 سے 22تک کے 10 ہزار سے زائد ملازمین ایسے ہیں۔ جن کی بیویاں غیر ملکی ہیں۔جن میں گریڈ 1 سے 22 تک 3193 ملازمین جبکہ گریڈ 1 سے16 تک کے3127 ملازمین شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد گریڈ 5 کے 662 شوہروں کی ہے ۔ جبکہ 20 ہزار سے زائد پاکستانی ان کے علاوہ ہیں۔ جو گوری زلفوں کے اسیر ہو چکےہیں۔‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

معلومات کے مطابق گوریوں سے شادی کرنے والے مردوں کی اکثریت معاشی طورپر کمزور تھی۔کچھ غیر ملکی شہریت لینا چاہتے تھے۔اور کچھ سمارٹ میموں کے چکر میں تھے۔جنہیں اردو نہیں آتی۔ جن کے منہ توڑنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔جنہیں تہواروں کی طرح منانا نہیں پڑتا۔جن کے لباس پچکے غباروں جیسے نہیں ہوتے۔جو گاؤتکیہ بننے سے نفرت کرتی ہیں۔جہاں تصویروں سے پتے ہٹانے کے لئے آندھی کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بندہ نئی کیسنگ لینے کے بجائے نیا موبائل بھی لے سکتا ہے۔ سینٹ کی رپورٹ تو منظر عام پر آ چکی ہے۔ اللہ جانے اُن افسران کے پاکستانی گھروں میں کیاقیامت برپا ہو ئی ہوگی۔جنہوں نےآف شور کمپنیوں کی طرح بیویوں کو چھپا رکھا تھا۔۔

Facebook Comments

اجمل ملک
مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دوسری شادی کسی میم سے کریں۔؟اجمل ملک

Leave a Reply