دیوانے کا خواب۔۔۔عبید اللہ چوہدری

میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ میں میں چیف جسٹس کو اپنا چیف جسٹس کہوں۔ اپنے چیف جسٹس پر فخر کروں۔ اپنے عدالتی نظام میں انصاف کی بروقت فراہمی پر خوشی سے نہال ہو جاؤں۔

میرا یہ بھی دل کرتا ہے کہ وہ دن بھی آئے کہ میں وزیراعظم پاکستان کو اپنا وزیر اعظم کہوں۔ اس کی دوراندیش پالیسیوں کی حمایت کروں۔ اس کی عوام دوستی پر قربان جاؤں۔ وہ بات کرے تو میں سنو۔ وہ قدم بڑھائے تو میں دوڑنے لگ جاؤں۔

اور میرا یہ دل بھی کرتا ہے کہ میں افواج پاکستان کے لیے اپنا تن من اور دھن وار دوں۔ اس کی فرض شناسی، پیشہ وارانہ کارکردگی اور ان کی ملک کے لیے قربانی کو روز صبح اٹھ کر سیلوٹ ماروں۔ ان کے پیچھے سیسہ پلائی  دیوار بن جاؤں۔

اور دل چاہتا ہے کہ میرے ملک کا نام روشن ہو۔ اس کا جھنڈا سب سے بلند ہو۔ میں اقوام عالم میں سینہ تان کر چلوں اور سب کو فخر سے بتاؤں کہ میں پاکستانی ہوں۔ میرے ملک کے بچے صحت مند ، توانا، تعلیم یافتہ اور مہذب ہوں۔ میرے ملک کے جوان خوش اور برسر روزگار ہوں۔ اپنی خواہش کے شعبے میں کام کریں ۔ ناچیں گائیں اور موج مستی کریں ۔ میرے ملک کی عورت مطمئن اور خوشحال ہو۔ وہ برابر کی انسان اور برابر کی شہری ہوں۔ وہ ہواؤں میں اڑے ناچے گائے اور بے رنگ دنیا کو قوس قزا بنا دے۔ میرے ملک کے بزرگ مطمئن اور صحت مند ہوں ۔ کسی کے محتاج نا ہوں ۔ بزرگی میں بھی دل کی سنیں۔ اور کوئی ان کو طعنہ دینے والا نا ہو۔ میرے ملک کے رہنے والے سب شہری ان کا تعلق کسی نسل، رنگ، زبان، قبیلے ، عقیدے، مذہب اور فرقے سے ہو وہ مطمئن خوش اور پاکستانی ہونے پر ناز کریں۔ میرے ملک میں انصاف سب کیلے ہو، سب برابر کے شہری ہوں۔

میرے ملک میں میلے لگیں، عالمی مقابلے ہوں دنیا بھر سے لوگ اس پاک سر زمین کا حسن دیکھنے آئیں اور یہاں کے لوگوں کی دیانت سچائی اور محنت کی مثالیں دیں۔ جھوٹ جرم ہو اور سچ فخر۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر دماغ کہتا ہے کہ یہ تو ایک دیوانے کا خواب ہے اور خواب سچے کب ہوتے ہیں ۔ خواب تو بس خواب ہی ہوتے ہیں۔ اب دماغ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ سب تو آج کے دور میں ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے1500 سو سال پیچھے جانے کی کیا ضرورت ہے؟

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply