ہمارے تعلیمی مسائل اور ان کا حل/عفیفہ شہوار

کوئی بھی فاتح اپنی مفتوح قوم کے محض علاقے پر قبضہ نہیں کرتا بلکہ اس کے کلچر ، مذہب یہاں تک کہ سوچ تک پر حاوی ہو جاتا ہے اور یہی انگریز نے ہندوستان پر کیا یعنی صرف جغرافیائی لحاظ ہی سے قبضہ نہیں کیا بلکہ اس نے مقامی لوگوں کے دل و دماغ کو بھی فتح کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے قبضے کو دوام دے سکے۔
اس غرض سے اس نے سب سے پہلے یہاں کے نظامِ تعلیم کو منہدم کیا۔ ان کے اوقاف ختم کر دیے، فارسی کی بجائے انگریزی کو قومی زبان قرار دیا جس سے مسلمانوں کے قائم کردہ مدارس بند ہو گئے ۔

مسلمانوں میں اس پر دو طرح کا ردِ عمل سامنے آیا۔ ایک گروہ نے یہ سوچا کہ اگر مسلمانوں نے انگریزی نہ سیکھی اور جدید مغربی علوم سے استفادہ نہ کیا تو وہ ترقی کی دوڑ میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اور دوسرے گروہ نے سوچا کہ اگر مذہبی تعلیم باقی نہ رہی تو مساجد و مدارس ویران ہو جائیں گے اور یوں معاشرے سے اسلام کا نام ہی مٹ جائے گا۔ ان خدشات کے پیش نظر اوّل الذکر گروہ میں سے سر سید احمد خاں اور ان کے ساتھیوں نے۱۸۷۵ء میں علی گڑھ سکول وکالج قائم کیا جو ترقی کرکے یونیورسٹی بن گیا اور مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر علما  کرام نے ۱۸۶۶ء میں دیوبند قائم کیا۔ علی گڑھ بتدریج مغرب زدہ تعلیم کا رول ماڈل بن گیا اور دیوبند ایسی محدود مذہبی تعلیم کا جس میں دنیوی علوم سے اعتناء نہ کیا جاتا تھا۔

پھر بتدریج ان دونوں کی طرز کے بہت سے تعلیمی ادارے ملک کے طول وعرض میں قائم ہوگئے۔ تاہم ان دونوں تعلیمی دھاروں کے منتظمین کو اپنی فراہم کردہ تعلیم کے یک رخے پن کا احساس تھا چنانچہ علی گڑھ اور دیوبند نے قریب آنے اور باہم استفادے کی کوشش کی لیکن حالات کے جبر نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔

ہمارا تعلیمی نظام بنیادی طور استعماری دور کی یاد گار اور اسی کی توسیع ہے۔ استعمار کی حمایت میں اور اس کی حمایت سے ابھرنے والے جدید تعلیم کے نظام کا نمائندہ علی گڑھ ہے اور اس کے رد عمل میں ابھرنے والی مذہبی تعلیم کی نمائندگی دیوبند کرتا ہے۔ اوّل الذکر مغرب زدہ عصری تعلیم مہیا کرتا ہے جس میں دینی تعلیم وتربیت کا موثر اہتمام نہیں ہوتا تو ثانی الذکر میں عصری اور دنیاوی علوم سے اعتناء نہیں کیا جاتا حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ تعلیم وتربیت کو اس گرداب سے نکالا جائے اور وحدت تعلیم کے اسلامی تصور پر ان دونوں تعلیمی دھاروں کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ عمومی اور جدید تعلیم کی اسلامی تناظر میں تشکیل نو ہو اور دینی تعلیم کے متخصصین عصری علوم ، افکار اور جدت سے ناواقف نہ رہیں۔

لہذا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان بننے سے جو بنیادی تبدیلی واقع ہوئی اس کے نتیجے میں پاکستانی ریاست و حکومت کو پورے معاشرے کی اور خصوصاً نظام تعلیم کی اسلامی تقاضوں کے مطابق تشکیل نو کرنی چاہیے تھی اور مذہبی تعلیم دینے والے مدارس کو بھی اپنا ڈھب بدلنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ استعمار نے چالاکی یہ کی کہ نو آزاد ممالک میں اقتدار اُن طبقات کے سپرد کیا جو اس کی فکروتہذیب کے پروردہ اور شائق تھے اور نئے ملک میں اسی کو غالب رکھنا چاہتے تھے۔ جب علماء کرام نے دیکھا کہ حکومت نظام تعلیم کی اصلاح اور اسے اسلامی تقاضوں کے مطابق بدلنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تو انہوں نے بھی بادل نخواستہ اسی محدود مذہبی تعلیم کو جاری رکھا جو وہ قیام پاکستان سے قبل سے دیتے چلےآرہے تھے۔

پاکستانی حکومتوں اور علما کے اس طرز عمل نے تعلیم کے مسئلے کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنادیا۔ ملک کے درد مند حلقے اور اہل علم وفضل اس پر غور بھی کرتے رہے، دونوں گروپوں کو اصلاح پر مائل بھی کرتے رہے اور اصلاح کے لیے تجاویز بھی دیتے رہے مگر آج تک کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صورتحال کی اصلاح ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں قانون سازی کے کٹھن مراحل کیساتھ ساتھ تعلیم کے لئے کثیر بجٹ کی بھی ضرورت ہے جو کہ آئندہ چند سالوں تک بھی ممکن نظر نہیں آتا۔

میرے ذہن میں اس کے لئے کچھ عملی تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے کچھ بہتری لائی جاسکتی ہے۔
سب سے پہلے تو چونکہ دیہی علاقوں میں تعلیمی صورتحال زیادہ دگرگوں ہے تو وہیں سے شروعات کریں تو مساجد کو ایک مربوط پلان کے تحت جدید تعلیم کے سینٹرز کا درجہ دیا جائے اور اس علاقے کے وہ طلباء اور قابل لوگ مثلاً  وہاں کے قریبی شہروں کے نوجوان افسروں کو یہ اسائنمنٹ دی جائے کہ وہ چند گھنٹے یہاں کے بچوں کو باقاعدہ تعلیم دینا شروع کریں اور ہفتہ وار رپورٹ تحصیل یا ضلع کی سطح پر مامور افسر کو جمع کروائی جائے۔ اس کام میں مستعد اور بہترین کاکردگی والوں کو ایک سال کے بعد گورنمنٹ ملازمت بطور انعام دی جائے۔

جو طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، ان کے لئے ان کے متعلقہ سبجیکٹ میں ہفتہ وار پریکٹیکل ورک یعنی کام کو لازمی کیا جاے تاکہ انہیں موقع ملے کہ جو پڑھا اس کو اپلائی کر سکیں۔

محض کتابی رٹہ کی بجائے ہفتے میں ایک دن جدید تعلیم کو بتدریج اپنے سسٹم میں لایا جائے اور اس کو زیادہ نہیں تو ایک گاؤں میں ایک پروجیکٹر اور ضروری سامان کی فراہمی یقینی بنا کر زیادہ زیادہ طلبا کو کم بجٹ میں اڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعلیم ہمیشہ سے نہ صرف فرد بلکہ معاشرے کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو دعوت وتبلیغ، تزکیہ و تربیت اور ابلاغ عامہ کے ذرائع بالخصوص آج کا میڈیا بھی تعلیم ہی کا حصہ ہے۔ بس ضرورت سنجیدہ سوچ اور مصمم ارادے کی ہے کیونکہ ذرا سی بہتر پلاننگ سے صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply