پاکستانی عورت ، مسلمان اور اسلام/محمد وقاص رشید

اسکا نام عورت ہے۔ جس سر زمین پر پیدا ہوتی ہےوہاں اسے رحمت کہتے ہیں۔ کہنے کا کیا ہے یہاں خدا کو بھی واحد معبود کہتے ہیں۔

اسکے پیدا ہونے کی اطلاع ایسے دی جاتی ہے جیسے خدا سے توفیق کی دعا مانگی جاتی ہے۔ جیسے جھوٹی دی جاتی ہے۔ کمال کے لوگ ہیں ہم خدا  نے کہا دل کا حال جانتا ہوں اسکا حل یہ نکالا توفیق کی دعا اسی خدا سے مانگنے لگے۔

بیٹی ہوئی ہے۔ اچھا ۔ ۔۔اللہ نصیب اچھے کرے۔ جیسے ہمیں یقین ہو کہ ہماری سماجی روایات سے اسے خدا ہی بچا سکتا ہے۔ مگر اسے خدا کے بچانے سے بھی بچانے کا مکمل انتظام کیا جاتا ہے۔ خدا سے اسکا تعارف ہی ایسا کروایا جاتا ہے۔ اس پر سماجی جبر کو خدا کی رضا بتایا جاتا ہے۔

یہ پہلی دفاعی ذہنیت ہے جو اسکے ساتھ جڑ جاتی ہے۔ بیٹا ہو تو مبارک ہو وارث مل گیا۔ جائیداد کا وارث، نسل کا وارث۔ اور۔۔۔اور۔۔۔لکھ دوں۔۔؟ ان سماجی روایات کا وارث مل گیا جن سے بچنے کے لیے بیٹیوں کو اچھے نصیب کی دعائیں دی جاتی ہیں۔

آنکھ کھلتی ہے تو پہلا منظر کیا دیکھتی ہے ۔ اسکے رول ماڈلز کون ہوتے ہیں ۔ ایک مرد جو اپنی بیوی کا استحصال کرتا ہے وہ اسکا باپ ہے۔ ایک عورت ہے جو عورت ہونے پر شرمسار سی ہے۔ یہ اسکی ماں ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے کہنے پر اپنے انسانی حقوق گروی رکھ چکی۔ یہ خدا سے اسکا پہلا تعارف ہوتا ہے۔ دوپٹہ لپیٹ کر قریبی مسجد سے آتی جمعہ کی نماز کے بعد کی دعا میں ننھے ننھے ہاتھ کھڑے کرتی ہے تو چھوٹے چھوٹے کانوں میں آواز پڑتی ہے ۔۔۔اے خدا سب کو اولادِ نرینہ عطا فرما۔ آمین کہتے سوچتی ہے اسکا نام ہی نرینہ رکھ دیتے۔ دعاؤں میں مانگی جاتی۔

سوچتی ہو گی رحمت مجھے کہتے ہیں دعا اولادِ نرینہ کی مانگتے ہیں۔ کیا انہیں رحمت نہیں درکار۔ اگلے ہی لمحے وہ سوچ ایک وجود تلے دب جایا کرتی ہے۔  یہ اسکا بھائی ہوتا ہے ۔ اچھا اچھا یہ ہے نرینہ۔۔۔ اچھا اسکے آگے خدا کی رحمت ہیچ ہے ۔ ابدی احساسِ کمتری کی مشق کا آغاز یہاں سے ہوتاہے۔ اسے لگتا ہے ماں نے بھی یہ ریاضت اپنے گھر سے شروع کی ہو گی۔

سماج، گھر نامی پراسیسنگ انڈسٹری کی پراڈکٹ ہوتا ہے۔ قومی فکری ترقی کی راہ میں حائل مردوزن میں تفریق کی سیاہ دیوار کی پہلی اینٹ بیٹے اور بیٹی میں فرق کی صورت گھر میں رکھی جاتی ہے۔ جہاں بیٹی کو احساسِ کمتری کا شکار کر کے دوسرے درجے کا شہری بنایا جاتا ہے وہیں بیٹے کو احساسِ برتری کا شکار بنا کر کسی کی بیٹی کے لیے آدم خور بنایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے گھر میں اسی ترویج پر تیار ہونے والے دو مردوزن آگے جا کر انکے جیون ساتھی بنتے ہیں۔ نسل در نسل استحصال جاری رہتا ہے۔

روح کو احساسِ کمتری کی گڑھتی دینے کے بعد اگلا ہدف اسکا جسم ہوتا ہے ۔ بچپن کو نہ آنے دینے والے جوانی کیسے آنے دیتے۔ سو اس کا نشانہ “حیا ” نامی کسی شے کے کاندھے پر رکھ کر لیا جاتا ہے ۔ اسے گاہے یوں لگتا ہے کہ عورت ہونا ہی بے حیائی ہے۔

حیا میں بھی مردوزن کی تفریق کائنات کی سب سے بڑی بے حیائی ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ مرد کی آنکھوں پر قدرتی پردے کی بے عملی کا ازالہ عورت خود پر متجاوز مصنوعی پردوں کی صورت کرتی ہے۔ عورت کا اعتماد حیا کا کاندھا استعمال کر کے چھینا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بااعتماد عورت پر پہلا ٹھپہ بے حیائی کا لگتا ہے۔ دراصل تو روائیتی مردانگی کی خو کے لیے عورت کا اعتماد ایک آئینہ ہوتا ہے۔ اپنی شکل نہ بھانے پر آئینہ شکنی عام رویہ ہے۔

اپنے نام سے جڑی گالیاں کانوں میں پڑیں تو سوچتی ہو گی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو سانجھا کہنے والے گالی دیتے کسے ہیں۔ حیا زیور تھا اسکی ہتھ کڑی بنا دی گئی ۔ اب پاؤں کھلے تھے۔ غیرت نامی بے غیرتی کی بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ اسکے انسانی حقوق کے تابوت میں آخری کیل غیرت کا لگتا ہے۔

جب روحانی اور جسمانی اعتماد چھین لیا جاتا ہے تو ہاتھ پاؤں اور دماغ مقید ہو چکے تو اگلا مرحلہ معاشی طور پر خود انحصاری سے دور کرنے کا آتا ہے ۔ تاکہ جیون بھر کسی نہ کسی مرد کے ٹکڑوں پر پلتی رہے۔ گندم کے دانوں اور سیمنٹ کے ذروں کے ساتھ پستی رہے۔ زخم کی مانند رستی رہے۔

تعلیم میں اسے پہلے تو اپنی خواہش کے مطابق پڑھنے کی آزادی نہیں ملتی ہے  پھر یہ کہہ کر سلسلہ ہی منقطع کر دیا جاتا ہے کہ اس نے ہانڈی روٹی ہی تو کرنی ہے اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ اور پھر اس تمام تیاری کی ابدی ریاضت کے لیے کارڈز ہر “نکاح سنت ہے” لکھ کر ایک تجربہ گاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ اے لوگو ” عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو” والی حدیث اور سنت کسی کارڈ پر نہیں لکھی تھی۔ بات ختم۔

تجربہ گاہ اسے یوں لکھا کہ کسی ماں باپ نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کے نتائج کسی پر انسان پر ڈالنے ہوتے ہیں۔ اس لیے بیٹے کی شادی کر دیتے ہیں۔ شادی کر دو سدھر جائے گا۔

جب ہر استبداد کو مزہبی تقدیس حاصل تھی تو افزائشِ نسل کو کیوں نہ ہوتی۔ “ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے ” اولاد کے حقوق کا جنازہ اسی مزہبی تفہیم کے کاندھے پر اٹھتا ہے۔ کاش کہ روحانی ، ذہنی ، جسمانی اور جنسی تشدد تک سہتے تین کروڑ “چھوٹے” پوچھ سکیں کہ ہم جو خدا سے رزق لائے تھے وہ کہاں ہے۔ کھیلنے کودنے ہواؤں میں اڑنے اور قوسِ قزح کے رنگوں میں بکھرنے کی عمر میں ماں باپ کے بچے پالتی بچیوں کی اداس آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملا سکتی انسانیت۔

خدا نے عورت کی گود میں اسکے وجود کا حصہ الگ کر کے ڈالا اسے انسان بنانے کے لیے ۔ اسکے پیروں پر کھڑا ہونے تک اسے بچے کا خدا بنایا۔ خالق وہ ، پالنہار وہ ، رازق وہ ، محافظ وہ، ہادی وہ۔۔۔ یا للعجب زمین پر اپنے قائم مقام کو نہیں دیا تو وہ نہیں دیا جو انسان کی شان ہے۔ عقل۔ افلا یتدبرون ؟ کا جواب کیسے دے۔ خوراک آدھی ، محبت آدھیں، تعلیم آدھی ، گواہی آدھی اور عقل بھی آدھی۔

سچ تو یہ ہے کہ اس صنفی تسلط کے لیے مرد نے خدا کا نام استعمال کیا۔ بھلا خدا کسی انسان کی عقل ناقص بنا کر اسکے پیروں کے نیچے جنت کیسے بچھا سکتا ہے۔ زمین پر اسے تخلیق میں اپنا قائم مقام کیسے بنا سکتاہے ۔ اسکی آغوش کو انسانیت کی پہلی درسگاہ کیسے بنا سکتا ہے۔ یعنی اشرف المخلوقات میں بھی تفرق و درجہ بندی۔

خدا اسکے پیروں کے نیچے جنت بچھاتا ہے تو ہم پکے مسلمان سوچتے ہیں جسکے پیروں کے نیچے جنت ہے اس نے زمین کیا کرنی ہے۔ اسکی ردا کو اولاد کے سر کا آسمان بناتا ہے تو ہم سوچتے ہیں اب باپ کے مکان میں حصہ اسکے کس کام کا۔

پہلے بھی عرض کی تھی اب ایک قدم آگے چلتا ہوں۔ یہاں یہی سوال مجھ سے پوچھنے والی میری بیٹی روزِ حشر اپنے منصف و عادل شہنشاہ سے پوچھے گی کہ اے خدا عقل پر انسان اشرف المخلوقات ہوا ، مسجودِ ملائک ہوا تو کیا میں اشرف المخلوقات نہیں تھی ؟ اس بچی کو خدا کا جواب کیا ہو گا ؟سوچو ناں ۔۔۔۔۔۔افلا یتدبرون ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

طالبعلم کی حیرت کی تان وہاں ٹوٹتی ہے۔ ضبطِ تاسف وہاں جواب دیتا ہے جب یہی عورت جب کسی اپنے نام کے مارچ میں پہنچ کر اپنے حقوق مانگتی ہے تو صنفی عدم توازن اور مردانہ تسلط قائم کرنے کے لیے خدا کا نام استعمال کرنے والے ، بچپن ہی سے اسے مساوات کے دین کے نام پر دوسرے درجے کا انسان بنانے والے ، اسکا اعتماد اور تشخص چھیننے والے ، اسے بچپن سے بڑھاپے تک کہیں خودساختہ حیا کی ہتھکڑیاں اور کہیں نام نہاد غیرت کی بیڑیاں پہنانے والے ، اسے وراثتی حق سے محروم کرنے والے ، ہر جا اسکے نام کو مغلظات میں استعمال کرنے والے ، اسے نکاح جیسی خدائی اجازت کا استعمال کرنے پر جان تک لینے والے ، گلیوں بازاروں میں اس کو اپنی نظروں ، آوقزوں اور ہاتھوں تک کی پراگندگی کا نشانہ بنانے والے ، اس سے کسی بھی قسم کے اختلاف پر پہلا وار اسکے کردار پر کرنے والے ( جسے شرک کے بعد سب سے بڑا جرم کہا خدا نے) ہم مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں “اسلام عورت کو سارے حقوق دیتا ہے “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply