پیش بینی کا مجرم۔۔ چودھری رحمت علی…(کتاب ’’چودھری رحمت علی کے مکمّل کام‘‘ کا جائزہ)….فیصل عظیم

’’ایک مدبّر سیاستدان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیش بینی کرسکتا ہو‘‘۔ چودھری رحمت علی کی ڈائری کا یہ اقتباس، زیرِنظر کتاب کی آخری سطر مگر میری گزارشات کی تمہید ہے جسے قومی سیاست کے بیانیے کا محور ہونا چاہیے۔
چودھری رحمت علی تحریکِ پاکستان کے فراموش مگر اہم ترین کردار ہیں۔ محترم خورشید کمال عزیز (کےکےعزیز) نے ’’چودھری رحمت علی کے مکمّل کام‘‘ میں ان کی تحریریں یکجا کرکے، محترم اقبال الدین احمد نے انگریزی کی اس کتاب کا اردو ترجمہ کرکے اور پروفیسر زید بن عمر نے اسے کچھ اضافوں کے ساتھ مکتبۂ جمال سے شائع کروا کے ایسی قومی خدمت کی ہے جس کے لیے میں ان بزرگوں کا احسان مند ہوں اور بھائی سہیل احمد صدّیقی کا شکرگزار ہوں جن کی بدولت یہ کتاب مجھ تک پہنچی۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ چودھری رحمت علی نے صرف پاکستان کا نام رکھا تھا حالانکہ وہ ’’نقّاشِ پاکستان‘‘ تھے۔ ذرا یہ کتاب پڑھیے، پوری پڑھیے اور سنی سنائی چھوڑ کے پڑھیے۔
ہمارے پاس تقسیم سے متعلّق بہت سوالات ہیں جن کے جواب نہیں ملتے اور ہم تاریخ کے نام پر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرتے ہیں۔ بانیٔ پاکستان کا ریاست کے خدوخال سے متعلق کوئی جامع منصوبہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ نئی ریاست کی سمت وضع کرنے کے لیے فکری مواد، انتظامی ڈھانچے اور لائحۂ عمل کے نام پر بس تین الفاظ ملتے ہیں، ایمان، اتحاد اور تنظیم (وہ بھی مختلف شکلوں میں)۔ اس کے علاوہ واقعاتی فرمودات، سیاسی بیانات، مذاکرات کے خلاصے وغیرہ ہیں یا پھر مفروضے ہیں اور باقی محض جذبات۔ تو کیا ریاستی ڈھانچے کے لیے قائدین نے زیادہ سوچ بچار نہیں کی تھی؟ اس کا جواب ’’سب جلدی میں ہوگیا‘‘ نہیں ہوسکتا۔ انگریز نے قبضہ ۱۹۴۶ میں نہیں کیا تھا۔ معاملہ (تقریباً برِّاعظم کی) ماضی کی حکمراں قوم کے کروڑوں لوگوں کی قسمت کا تھا جن سے ایک یادگار سلطنت چھینی گئی تھی۔
مگر اس مطالعے سے کچھ ایسے سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں جو پوچھنا منع ہیں یا جن کا جواب اتنا ہی گنجلک ہوتا ہے جتنی ہماری سیاسی و تہذیبی صورت حال ہے۔ آخر اور کتنی نسلوں کو جواب نہیں دیں گے؟ کتنی نسلوں کو بولنے، سوچنے اور جاننے سے روکیں گے؟ ہم کب تک جھوٹ بولیں گے؟ پاکستان کے نام کا مطلب محض ’’پاک سرزمین‘‘ سمجھنے والوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ لفظ پانچ صوبوں کے ناموں کا مخفّف تھا (پ:پنجاب، ا:افغانی صوبہ، ک:کشمیر، س:سندھ، تان:بلوچستان) جسے رحمت علی کشمیر کے بغیر پاستان کہتے تھے۔ نہیں بتایا جاتا کہ پاکستان کا تصوّر چودھری رحمت علی نے ۱۹۳۳ میں پیش کردیا تھا اور ان کا کردار محض نام رکھنے تک محدود کرنا بددیانتی اور تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک تاریخی ڈرامے میں انھیں پاکستان کا نام تجویز کرتے ہوئے ایسے دکھایا گیا تھا جیسے کوئی دیوانہ بڑبڑا رہا ہو۔
اس کتاب میں پروفیسر زید بن عمر کا مقدّمہ، کےکےعزیز کا پیش لفظ اور تعارفی مضمون، چودھری رحمت علی کی ۳۴ باضابطہ تحریریں اور ڈائری کے اقتباسات اور خطوط پر مشتمل ایک ضمیمہ شامل ہے۔ تحریروں کی ترتیب تاریخِ اشاعت کے مطابق ہے جس سے تاریخ کے زینے بتدریج چڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ کےکےعزیز کی کتاب میں ۱۹۴۸، ۱۹۴۹ اور ۱۹۵۰ کے تین پمفلٹ نہیں تھے، جو پروفیسر صاحب نے ترجمے میں شامل کردیے ہیں مگر آخری پمفلٹ ’’سب سے بڑا دھوکہ ۱۹۴۷‘‘ چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس میں بعض جگہ لہجہ بہت تلخ ہے۔ ناچیز کی رائے میں اسے بھی شامل ہونا چاہیے۔ لہجہ تلخ ہے، تو ہے۔ جو چاہے رد کرے، جو چاہے مانے، یہ چودھری رحمت علی کا حق ہے۔ انھوں نے جو تلخیاں برداشت کیں، ان کے الفاظ کی تلخی اس سے بہت کم ہے۔ ان کے تصوّر اور جدوجہد کا پھل کھانے والی قوم کیا اپنے لیے زندگی وقف کرنے والے کے سخت الفاظ بھی برداشت نہیں کرسکتی! بقول مترجم ’’یہ تلخی پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے تھی۔ کسی ذاتی مفاد یا عناد کی بنیاد پر نہیں تھی‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london


چودھری رحمت علی کے لیے پاکستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، مسلمانوں کی پہچان بھی تھا۔ ان کی تحریروں میں ایک اور برِّصغیر، ایک اور پاکستان اور تاریخ، جغرافیہ، تمدّن، معیشت، ملّت کے مستقبل اور منصوبہ سازی سے متعلّق ایک مختلف زاویہ نظر آتا ہے۔ متّحدہ ہندوستان اور ۴۷ کی تقسیم کے درمیان ایک نئی بُعد، نئے راستے دکھاتی ہے۔ ’’اور کیا ہو سکتا تھا‘‘ کا جواب بھی مل سکتا ہے بشرطیکہ ہم اس دیوار کے پار دیکھنے کی ہمت کریں جس سے آگے دیکھنے کی ہمیں اجازت نہیں۔ چودھری رحمت علی کے خیالات و نظریات بہت واضح تھے۔ وہ انتہائی ذہین، زیرک اور وقت سے آگے سوچنے والے صاحب نظر اور عالمِ باعمل تھے۔ اِن تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کب سے علیحدہ ملک و قوم کی بات کر رہے تھے، نیز پاکستان کا بنیادی تصوّر کیا تھا جو مقبول ہوا تو مسلم لیگ کو بھی اپنانا پڑا۔ خیال رہے کہ میرے مضمون میں ہندوؤں سے مراد ہندوتوا ذہنیت ہے، عام ہندو یا مذہب نہیں۔
انھوں نے مسلمانوں کی آزادی کی کوششوں کا اعلان ۱۹۱۵ میں بزمِ شبلی کے افتتاحی خطاب میں کیا تھا۔ ۱۹۳۳ میں پاکستان نیشنل موومنٹ بنائی، اس کے اغراض و مقاصد شائع کیے اور اپنا پہلا کتابچہ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ شائع کرکے تحریکِ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ تب تک مسلم لیگ نے پاکستان کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔ قائداعظم الگ ملک کے سخت خلاف تھے بلکہ جب رحمت علی نے پاکستان کی بات کی تو سخت ناراض ہوئے تھے۔ یوں چودھری رحمت علی نے پہلی بار پاکستان کا مطالبہ کیا۔ شروع میں وہ انگریزی میںPakstan (’’i‘‘ کے بغیر) لکھتے تھے، بعد میں Pakistan لکھنے لگے۔ ان کے ابتدائی خاکے میں بنگال کا ذکر نہیں تھا (ص۴۲) اور نہ آسام اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے کوئی حل تھا کیونکہ وہ ابتداً پاکستان کو سب مسائل کا حل سمجھتے تھے۔ اس پر ایک حاشیے میں حیرت کا اظہار بھی کیا گیا ہے مگر اکیلے نوجوان سے پہلی ہی جست میں پوری جماعت والے کام کی توقع شاید ٹھیک۔ جلد ہی انھیں اس کا احساس ہوگیا تو انھوں نے بنگال، حیدرآباد اور پھر دیگر علاقوں کو مسلم ریاستوں کی حیثیت سے آزادی دلانے کے منصوبے بنائے (عثمانستان، فاروقستان، معینستان وغیرہ)۔ ان کے لیے مسلمانوں کی آزادی کا مطلب سب مسلمانوں کی آزادی تھا۔ وہ بیک وقت مختلف خطّوں میں قومی تحریکیں شروع کرنا چاہتے تھے۔ سوچیے! کیا مسلمانوں کی بہت بڑی اور انتہائی اہم آبادی اور ورثہ نظرانداز کرنے کے بجائے، ہر خطّے میں وہاں کی تحریکِ آزادی بہتر نہ ہوتی جو شاید موجودہ تقسیم کے بعد کے حالات میں بھی وہاں کے لوگوں کے تحفّظ کی ضمانت ہوتی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ۲۵دسمبر۱۹۴۸ کو بنارس ہندو یونیورسٹی سے خطاب میں کہا تھا ’’اگر ہم نے تقسیم کو قبول نہیں کیا تو ہندوستان بہت سے حصّوں میں تقسیم ہوجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح صرف ایک پاکستان نہیں بنے گا بلکہ کئی پاکستان بن جائیں گے (ص۱۴)‘‘۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ واقعی ایک سے زیادہ پاکستان بنتے تاکہ سب (یا زیادہ) مسلمانوں کی آبادیوں کے حقوق اور علاقوں کی آزادی کا تحفّظ ہوتا؟ یہی چودھری رحمت علی چاہتے تھے جس سے کانگریس خوفزدہ تھی۔
چودھری رحمت علی نے پمفلٹوں کے ذریعے مختلف خطّوں کو آزاد ملک بنانے کا منصوبہ پیش کیا جن میں کئی زاویوں سے اس کی ضرورت، اہمیت اور قابلِ عمل ہونے پر دلیلیں دیں۔ ہر ملک اور خطّے کے لیے ۱۲ نکات میں ثقافت، آمدورفت، دفاع، معاش وغیرہ پر بحث کی (ص۳۲۳) اور تحریکی خاکہ اور لائحۂ عمل دے کر باور کرایا کہ انگریزوں اور ہندوؤں کا انڈیا کو ایک ملک ظاہر کرنا دھوکہ بازی ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ انگریز جہاں آئے تھے، وہ ایک ملک نہیں، کئی ریاستوں پر مشتمل برّاعظم تھا۔ انگریز راج سے پہلے نہ یہ ہندوستان ایک ملک تھا، نہ ہندوستانی ایک قوم، جسے سب سے پہلے انگریزوں نے ایک ملک اور قوم کہا ورنہ یہاں مختلف ریاستیں، حکومتیں اور قومیں آباد تھیں اور ہیں۔ جو قومیں پہلے ہی ہندوؤں کی سماجی اور مذہبی تحریکوں کے دباؤ میں ہوں، انھیں ایک قوم کہ کر کسی دوسری قوم کے ماتحت کرنا ناانصافی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ گول میز کانفرنسوں نے مسلمانوں کی انڈیانائزیشن کی (ہندوستانی قوم کا جزو بنایا) اور ہندوستان کو ایک ملک منوالیا جو تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ یہی کثیر قومی نظریہ چودھری رحمت علی کے تصوّرِ ملت اور تصوّرِ پاکستان کی بنیاد تھا۔ دو قومی نظریہ اسی کا جزو تھا جو مسلم لیگ نے بعد میں اپنایا اور قراردادِ لاہور (۱۹۴۰) منظور کی جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا (ص۱۰)۔
انھوں نے اپنی تحریروں میں وضاحت کے ساتھ کئی علاقوں اور نئی ریاستوں کے نام بھی وضع کیے۔ انڈیا کی جگہ براعظم ’’دینیا‘‘ اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے اچھوت جیسے ذلّت آمیز نام کی جگہ اخوت (منبع: اُخوّت، بھائی) تجویز کیا۔ ایسے کاموں کے لیے جو علمی جرأت چاہیے وہ بڑی نادر شے ہے۔ افسوس کہ تنگ نظری نے ایسی قابلیت اور ایسے عبقری سے فائدہ اٹھانے کا موقع گنوا دیا۔ ان کا انداز کئی جگہ جارحانہ ہے اور مطالبات، جوش اور عزائم سے بھرپور ہیں۔ اسے الزام کہیں تو جذباتیت کا الزام تو مولانا محمد علی جوہر پہ بھی لگتا تھا۔ مگر ایسی زبان میں، ان تیوروں کے ساتھ مطالبات، ماضی کی حکمران قوم کا نمائندہ ہی کرسکتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ یہ کتاب ہر پاکستانی کو دل، دماغ اور آنکھیں کھول کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔
سو پاکستان کی بات قراردادِ پاکستان سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ اخباری حوالوں سے بھی ظاہر ہے کہ پاکستان کے تصوّر کی مخالفت میں ۱۹۳۴ میں ہی لکھا جانے لگا تھا اور ۱۹۴۰ کی قرارداد سے پہلے ہی پاکستان عوامی مطالبہ بن چکا تھا۔ ’’لفظ پاکستان ۱۹۳۵ میں جناح کے انگلستان سے انڈیا واپس آنے سے پہلے ہی لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا تھا‘‘ ص۹ (حوالہPakistan Yesterday and Today, New York, 1946, P104)۔ مسلم لیگ نے، جو ۱۹۳۷ کے انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی تھی، ۱۹۴۰ کے بعد عوامی جذبات کے زیرِاثر اسے اپنا کر مقبولیت اور ووٹ حاصل کیے لیکن باقی علاقوں کے مطالبات کو نظرانداز کردیا جس پر رحمت علی نے قراردادِ لاہور کو پسند نہیں کیا تھا (ص۵۲)۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اسے قراردادِ پاکستان کا نام دینے والے، پاکستان کے اصل تصوّر اور مصوّر، دونوں کو برا کہتے رہے۔ یہ ہوتی ہے انتخابی سیاست جس میں عوامی مقبولیت مسائل کے حل سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ بس ’’جو دلوں کو فتح کرلے‘‘ اور صحیح، غلط، اچھا، برا، سب پیچھے رہ جاتا ہے۔ عوامی مقبولیت کی نفسیات جاننے کے لیے وہ مشہور واقعہ یاد کیجیے جب ایک بوڑھے سے، جسے انگریزی نہیں آتی تھی، جلسے میں پوچھا گیا کہ جناح انگریزی میں تقریر کر رہے ہیں، تمھیں کیا سمجھ میں آرہا ہے تو اس نے کہا ’’معلوم نہیں وہ کیا کہ رہا ہے مگر جو بھی کہ رہا ہے سچ کہ رہا ہے‘‘۔
یہ کہنا کہ رحمت علی پاکستان کے منصوبے پر اس لیے تنقید کرتے تھے کہ مسلم لیگ نے ان کا منصوبہ اپنانے کا اعتراف نہیں کیا، غلط نہیں مگر مکمّل سچ بھی نہیں ہے۔ انھیں یہ جائز شکایت تو تھی مگر ان کا غصّہ اور اختلاف حقائق اور مسائل کے تناظر میں دلائل اور متبادل حل کے ساتھ ہوتا تھا، جو پانی سر سے اونچا ہونے پر شدید تلخی میں بدل گیا۔ وہ ملت کی بہتری کے لیے جدوجہد کررہے تھے، اگر تباہی اور بربادی (چاہے کوئی اسے بربادی نہ مانے) دیکھ کر بھی مزاحمت یا تنقید نہ کرتے، قومی مفاد کے لیے نہ لڑتے، عوامی رائے کے خلاف بھی کوششیں جاری نہ رکھتے اور مرتے کٹتے لوگوں کے لیے جدّوجہد نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟ کیا ایسے مایوس کن حالات میں، دشنام سہ کر قومی فلاح کے لیے خود کو وقف کرنے کے بعد بھی انھیں تنقید کا حق نہیں تھا؟ وہ کہتے تھے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان کیوں قبول کیا اور پنجاب کی تقسیم کیوں مانی (ص۸) جس سے مہاجرین پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ تقریباً آٹھ لاکھ شہید، دس لاکھ زخمی و معذور اور ساٹھ لاکھ بےگھر ہوئے اور دشمن کے ہتھّے چڑھنے والی لڑکیاں اور عورتیں الگ۔ پھر یہ کہ ہندوستان میں رہ جانے والوں کی حفاظت کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا گیا۔ بقول کےکےعزیز ’’یہ دلائل خلوصِ نیت سے دیے گئے تھے، دشمنی سے نہیں‘‘۔ چودھری رحمت علی اور مسلم لیگ کے فارمولے میں بنیادی فرق یہی تھا کہ وہ سب مسلمانوں کی بات کرتے تھے۔ ملّت پانچ صوبوں تک تو محدود نہیں تھی۔ انھوں نے تو سات ریاستوں ہی کو نہیں، جزیروں کو بھی اپنے منصوبے میں شامل کیا تھا۔ وہ حتّی الامکان، پورے خطّے کا سوچ رہے تھے۔ رہنما وہی ہوتا ہے جو آج کے ساتھ کل کا اور ایک طبقے کے بجائے پوری قوم کا سوچے۔
بہرحال ان کا اعتراف مسلم لیگی رہنماؤں پر فرض تھا اور پاکستانیوں پر اب تک قرض ہے جنھوں نے چودھری رحمت علی کی متاعِ فکر کا اعتراف کرنے کے بجائے، اسے بھی علّامہ اقبال کا خواب بنا ڈالا۔ حالانکہ خود علامہ اقبال نے لکھا تھا کہ ’’میں نے برطانوی سلطنت سے باہر ایک مسلم ریاست کا مطالبہ پیش نہیں کیا‘‘ (ایڈورڈ تھامسن کے مضمون کا جواب، اخبار ٹائمز لندن،۱۲اکتوبر۱۹۳۱)، ’’میری اسکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوّزہ انڈین فیڈریشن کا ایک حصّہ ہوگا (خط بنام ایڈرورڈ تھامسن ۴مارچ۱۹۳۴)‘‘ اور ’’میں نے انڈین فیڈریشن کے اندر ایک صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی (خط بنام راغب احسن ۶مارچ۱۹۴۶)‘‘ (ص۱۴)۔
اقبال الدین احمد ایک جگہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر انڈین فیڈریشن کو مان لیا جاتا تو کیا ہمارے ساتھ وہی ہوتا جو آج ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے (ص۱۰)۔ یہ بات بحث طلب ہے کیونکہ آج جو ہو رہا ہے، وہ ۱۹۴۷ کی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ کیسے مان لیں کہ مختلف فیصلے کی صورت میں بھی یہی نتیجہ نکلتا۔ یہ منطق اور قدرت کے قوانین کے خلاف ہوتا۔ مثلاً دوسری صورت میں بقول مولانا آزاد، مسلمان ایک بہت بڑی اور مضبوط قوم ہوتے۔ آج مولانا آزاد کی تقسیم کے وقت کی گئی پیش گوئیاں حقیقیت بن کر ہمارے سامنے اپنے پورے، واضح خدوخال کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ایسے میں چودھری رحمت علی کے کئی ریاستوں کے منصوبے یا مولانا آزاد کے متّحدہ ہندوستان کے نظریے کو مفروضے کی بنیاد پر رد کردینا بھری دوپہر میں سورج کے انکار کے مترادف ہوگا۔ باوجودیکہ وقت گزر چکا اور جو نقصان ہونا تھا، ہوچکا۔
اب ۱۹۴۹ میں آجائیے جب چودھری رحمت علی نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا مسئلہ اقوام متّحدہ میں اٹھوانے کی کوشش کی تھی اور پاکستانی وفد نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ۱۹۴۹ کے پمفلٹ کے مطابق دسمبر۱۹۴۸ میں جنرل اسمبلی کے پیرس اجلاس کے موقع پر مختلف ملکوں کے مندوبین اور صحافیوں نے انھیں حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن پاکستان نے کچھ نہ کیا (ص۱۱)۔ نہ یہ مسئلہ اسمبلی میں اٹھایا، نہ اس مشن میں دلچسپی لی اور نہ ان سے ملاقات کی۔ لکھتے ہیں ’’پیرس میں اس وقت یہ افواہ گردش میں تھی کہ پاکستانی وفد کا ایک ممبر ہندوستانی مندوبین سے قادیان کو پاکستان کے حوالے کرنے کے بارے میں بات چیت کر رہا تھا اور اس کے بدلے میں پاکستان کو حیدرآباد اور کشمیر کے مسئلے پر نہایت فراخ دلی سے دستبرداری اختیار کرنا تھی‘‘۔ اگر کوئی اس بات پر یقین نہ بھی کرے تو بھی ان کی بات سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ان پر قادیانیوں کی سازش کا حصہ بننے اور تنقید کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا الزام سفید جھوٹ تھا۔ پھر پاکستانی خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کے خیالات پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ الزام لگانے والوں نے یا تو ان کی تحریریں پڑھیں نہیں یا صرف وہ پڑھا ہے جو حکمران اشرافیہ عوام کو چمچمے سے کھلاتی رہی ہے۔ اور اگر سب پڑھ کر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے تو یہ لاعلمی نہیں، تعصّب ہے یا پھر (معذرت کے ساتھ) جہالت پر فخر کرنے کی عادت ہے۔ اسی طرح ۱۱ سے ۲۲ اکتوبر۱۹۴۸ تک، لندن میں برطانوی دولتِ مشترکہ کے وزرائے اعظم کا اجلاس ہوا جس میں لیاقت علی خاں بھی شریک تھے۔ اس میں تو پاکستان نے ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہی قرار دے دیا جسے رحمت علی مسلمانوں کی مدد نہ کرنے کی یقین دہانی گردانتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ تحریکِ پاکستان چلانے والے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے پھر کسی نے کچھ نہیں کیا (مولانا آزاد کی پیش گوئی)۔
اس سے پہلے اکتوبر۱۹۴۸ میں جب وہ لاہور آئے تو ان کے پیچھے سی آئی ڈی لگا دی گئی۔ ان کا پاکستانی پاسپورٹ نہیں بنایا گیا، انھیں ایک دعوت میں زہر دینے کی کوشش کی گئی اور پیغام دیا گیا کہ ملک سے چلے جائیں ورنہ گرفتار کرلیا جائے گا (ص۵۸۔ سوانح حیات ص۳۵۳)۔ بقول پروفیسر زید بن عمر، ان کے والد کو چودھری رحمت علی نے خود پاکستان میں مستقل قیام کے ارادے سے آگاہ کیا تھا (ص۱۸) مگر تکمیلِ پاکستان کی کوششوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے تحفّظ کی تحریک کے جواب میں نگرانی اور دھمکیوں کے باعث انھیں وہی ملک چھوڑنا پڑا جس کی تحریک خود انھوں نے شروع کی تھی۔ یکم اکتوبر۱۹۴۸ کو انھیں پاکستان سے جانا پڑا اور ۳ فروری۱۹۵۱ کو وہ کیمبرج میں انتقال کر گئے۔ وہ جو بہادر شاہ ظفر کا جسدِ خاکی رنگون سے پاکستان لانا چاہتے تھے، ان کا اپنا جسدِ خاکی بھی پاکستان نہ لایا گیا بلکہ انھیں یہاں دفن کرنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔ بحیثیت قوم یہ کتنے فخر اور عزّت کی بات ہے نا! بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ مترجم نے کےکےعزیز کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن (۱۹۷۸) میں پبلشر نے بھی ایک شرارت کی تھی کہ اپنی طرف سے تحریف کرکے کچھ باتیں رحمت علی کے خلاف لکھ دی تھیں (ص۴۶)، سو تعارف میں جو تنقید اور لہجے کی اچانک تبدیلی نظر آتی ہے وہ اسی پبلشر کی کارستانی معلوم ہوتی ہے (ص۱۷)۔
نجانے رحمت علی جہاں تک سوچ چکے تھے، وہاں تک مسلم لیگی رہنما بشمول جناح صاحب، کیوں نہیں پہنچ سکے اور باور کرانے پر بھی کیوں نہیں مانے۔ جواب سے قطع نظر، تقسیم کے بعد جو ہوا ان کے نظریات اور توقعات کے برعکس ہوا جبکہ رحمت علی اور مولانا آزاد جیسے رہنماؤں کی پیش بینی اور اندیشے درست ثابت ہوئے۔ چودھری رحمت علی کی دُوراندیشی دیکھیے:
آج ہندوستان میں مسلمانوں پر جو ظلم ہورہا ہے، اسی خطرے کی پیش گوئی کرکے انھوں نے مسلمانوں کو اقلیت بننے سے بچانے کی بات کی تھی اور ناموں کے ساتھ خودمختار ریاستوں کے منصوبے پیش کیے تھے (ص۱۳)
مشرقی بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے پر کہا تھا کہ اس کا الگ ہونا یقینی ہے (وہی ہوا)
بنگال کو الگ ریاست (بنگستان/بانگستان) بنانا چاہتے تھے (آخر مسلمانوں نے آپس میں لڑ کر الگ ملک بنایا)
کہتے تھے کہ پاکستان کے بغیر کشمیر ہندو سرزمین بن جائے گا (بن رہا ہے) اور پاکستان ریگستان بن جائے گا (پانی روک کر بنایا جارہا ہے)
کہتے تھے صوبہ سرحد کا نام بدل کر پٹھانستان رکھا جائے (خیبر پختونخواہ ہوگیا)
مجوّزہ ریاستوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کرتے تھے (سی پیک اس کی چینی شکل ہے)
دوستو! نعرے، جوش اور تحریک پیدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ تحریک ختم یا کامیاب ہوجائے تو حقائق کی طرف جانا ہوتا ہے۔ کیا بالغ قومیں ماضی (۱۹۴۷) کے نعروں اور بیانات میں زندہ رہتی ہیں، جیسے:
اور کوئی راستہ نہیں تھا (یا دیکھنا نہیں چاہتے تھے؟)
ہندو ہمارے دشمن تھے، ان کے ساتھ رہ نہیں سکتے تھے (ان کا قصور، جنھیں چھوڑ آئے؟)
عبادت اور اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے الگ ملک چاہیے تھا (ہندوستانی مسلمان کیا کریں؟)
سب کے لیے الگ ملک نہیں ہوسکتا تھا، جن کے لیے بن سکا بنا لیا؟ (ایک قوم کیا ہوئی؟)
جو بچا سکے، بچا لیا (واقعی بچا لیا؟)
لیکن ہم میں سوچنے کی سکت نہیں، اس سے آگے ہمارے پر جلتے ہیں۔ ’’ہندوستان کے مسلمان ہندوستانی ہیں، وہ ہندوستان میں رہیں‘‘، کیا اس بیان سے پورے برصغیر کی سوچ پلٹ جاتی؟ کیسے اور کیوں؟ کیا ہندو قائداعظم کے کہنے پر چلتے تھے؟ کیا واقعی انگریز اور ہندو کانگریس (مولانا آزاد اس کے خلاف تھے) کے تھوپے گئے حل کو ماننے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا؟ کیا قیامِ پاکستان کا سہرا انگریز اور ہندوؤں کے سر ہے؟ تو ہم ہر سال ۱۴اگست کو اُنِھیں کا شکریہ ادا نہ کریں جنھوں نے ہمیں زبردستی پاکستان دیا؟ ہندوستان میں ۱۴اگست سے پہلے جو دو قومیں تھیں، اچانک ایک کیسے ہوگئیں یا ہوجاتیں؟ چودھری رحمت علی کی تجاویز سے واضح ہے کہ راستے تو تھے۔ آسان نہ سہی مگر ان کے لیے خود کو بے بس نہیں سمجھنا تھا۔ ورنہ اتنی ہی بے بسی تھی تو کیسی تحریک، کیا آزادی اور کس بات کی قیادت!
’’اور کیا ہوسکتا تھا‘‘ کا ایک جواب تو چودھری رحمت علی ۱۹۴۲ کے پمفلٹ ’’ملت اور مشن۔ ساتویں براعظم دینیا کے لیے سات تقدیر ساز ہدایات‘‘ (ص۴۴) میں لائحۂ عمل کی صورت میں بھی دیتے ہیں۔ وہ براعظم، ممالک اور پاکیشیا کے حلقے (orbit) کا تصوّر پیش کرتے ہیں جس کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک براعظم میں الگ الگ ریاستی سرحدوں کے ساتھ متحدہ قوت بنانے کی بات کی جاتی ہے یعنی انھیں ایک فیڈریشن یا دولتِ مشترکہ کے ذریعے جوڑنے کا تصوّر جو عملی طور پہ ممکن تھا۔ وہ برّصغیر کو ساتواں براعظم کہتے اور منوانا چاہتے تھے جو تاریخ میں کبھی ایک ملک نہیں رہا اور یہی نکتہ کئی ممالک کے مطالبے کا جواز بھی تھا۔ نیا براعظم تسلیم کروانا کیسے ممکن تھا! ایسے کہ آسٹریلیا کو اٹھارویں صدی میں چھٹا برّاعظم مانا گیا تھا۔ ۱۹۴۲ میں چھ برّاعظم تھے مگر پھر ساتواں بن گیا۔ ایک امریکی براعظم کو۱۹۵۰ میں شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں تقسیم مانا گیا۔ تو پھر ہندوستان کو تاریخ اور جغرافیے کی بنیاد پر برّاعظم کیوں نہیں منوایا جاسکتا تھا۔ انھوں نے جغرافیے، ثقافت، معیشت، مذاہب، تاریخ اور قدرتی وسائل کی بنیاد پر منطقی انداز میں یہ مقدّمہ بھی پیش کیا تھا۔ اسے برّاعظم مان لیا جاتا تو بہت بڑا سیاسی اور سماجی انقلاب ممکن تھا، جس سے دیگر مذہبی آبادیاں بھی مستفید ہوسکتی تھیں اور مسلمانوں کو بھی خودمختاری کی جدّوجہد میں مدد مل سکتی تھی۔ مگر کوشش تو کرتے۔
ہندوستانیت کے بارے میں ان کے خیالات سے پہلے چند باتیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ سب ہندو ایک مذہبی قوم ہیں۔ برہمو سماج اور آریہ سماج کی تحریک والے تو بت پرستی کے ہی قائل نہیں تھے۔ بی بی سی کے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’گدومل کے مطابق بنگال میں برہمو سماج کے پیروکار بھی خود کو ہندو کہنے سے احتراز کرتے تھے‘‘ (۱۱نومبر2007) ہندوؤں کی اکثریت کے لیے رام ہیرو اور اوتار جبکہ راون ولن اور دشمن ہیں لیکن جنوبی ہندوستان کے لیے وہی راون ہیرو ہیں۔ تو کیا ایک مذہب کے دو الگ خدا یا پیغمبر ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں؟ بقول چودھری رحمت علی، ہندوؤں نے ماضی میں دوسری اقوام اور مذاہب کو زبردستی اپنے اندر سمو کر سب کو ایک قوم ہونے کا دھوکہ دیتے رہے۔ وہ اس ہندوستانیت کو من گھڑت قصّہ (myth) کہتے ہیں۔ یعنی آریاؤں نے جنوبی ہندوستان کے لوگوں کو کچل کر، اپنا ٹھپّہ لگایا اور ان کی شناخت ہی بدل ڈالی۔ یہ استحصال اور شناخت چھیننے کے وہی طریقے ہیں جو امریکہ میں نیشن آف اسلام (Nation of Islam) والوں کے ساتھ دورِغلامی میں برتے گئے تھے اور انھیں بہت بعد میں احساس ہوا تھا کہ وہ تو مسلمانوں کی نسل سے ہیں۔ دراصل برّصغیر میں کئی بت پرست قومیں تھیں جنھیں سیاسی مقاصد کے لیے ایک ہندو قوم کہ دیا گیا اور یوں باقی مذاہب کو عددی اعتبار سے مزید اقلیت ثابت کیا گیا۔ مگر اچھوت، ہندوؤں (یا برہمنوں) کے برابر نہیں ہوسکتے۔ انھیں بھی مسلمانوں (الگ مذہب) کی طرح چھونا گناہ ہے۔ بھگوت گیتا پڑھیے، پوری کتاب میں شودر تقریباً غائب ہیں سوائے وہاں کے، جہاں ان کا کام مزدوری اور برہمنوں کی سیوا کرنا بتایا گیا ہے ورنہ تقریباً ہر اچھائی، برائی برہمن ہی سے جوڑی گئی ہے۔ پھر، اچھوت بے چارے کھشتری اور برہمن کے مندر تک میں نہیں جاسکتے تو ہم مذہب کیسے ہوگئے۔ انھیں زبردستی ہندو شناخت تو دے دی گئی مگر اپنی طرح ہندو نہیں مانا گیا۔ کیا آج بھی جاری تامل ناڈو، ناگا لینڈ، آسام، خالصتان، کشمیر، منی پور (ماؤ)، بورولینڈ، دریویڈا (دراوڑی) ناڈو، ارونچل پردیش اور دیگر علیحدگی کی تحریکیں نہیں بتاتیں کہ برصغیر دو سے زیادہ ملکوں میں تقسیم ہونا چاہیے تھا؟ اگر دراوڑ، بدھ، سکھ، عیسائی، مسلمان، پارسی اور دیگر قوموں کے علاوہ باقی سب کو ایک ہندو قوم مان لیا جائے (اچھوتوں سمیت) تو بھی مختلف زبان، ثقافت اور جغرافیے کی بنیاد پر انگریزی تسلّط سے پہلے کی طرح باقی برصغیر میں ایک سے زیادہ ہندو ریاستیں کیوں نہیں بننا چاہیے تھیں۔ یہ ممکن بھی تھا، منطقی بھی اور فطری بھی۔
برصغیر کی موجودہ ساخت مابعد نوآبادیات (post colonialism) کا شاخسانہ ہے، جیسے عرب دنیا میں فلسطین۔ یہ تو دھوکہ ہے کہ سب کو ایک ہندوتوا کے زیرتسلّط دینے کے لیے پورے برصغیر کی ایک ثقافت قرار دے دی جائے۔ گجراتیوں اور پنجابیوں ہی کو لے لیجیے، کیسے ایک دوسرے کی ثقافت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کتنے ہندوستانی (مثلاً جنوب والے) ہندی کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور اسے برہمنوں کی زبان کہتے ہیں۔ اگر بریانی اور سموسہ ہی قوم کی شناخت ثابت کرتے ہیں تو افغانستان، ایران، ترکی، صومالیہ بلکہ بریانی، پلاؤ، سموسے (صومالی سمبوسہ کہتے ہیں) والی سب قوموں کو ایک ہی قوم اور ملک نہ مان لیا جائے! قوموں کی بقا قنوطیت میں نہیں، امید اور ہمت میں ہوتی ہے۔ ہتھیار ڈال کر ہمیشہ کے لیے بےعزّت ہونے سے لڑ کر باعزّت شکست کھانا بہتر ہوتا ہے۔ مستقبل کے بارے میں فیصلہ سنانا ہمارے بس میں نہیں لیکن خطّے کی ۲۲ فیصد آبادی اپنے اپنے علاقے کی تحریک چلاتی تو مقابلہ ۷۸ فیصد سے نہیں بلکہ ان سے ہوتا جو اوروں کو ملا کر خود کو ۷۸ فیصد دکھا رہے تھے۔ مسلمان ممالک کا ہندوستان کی سرحدوں کے اندر جزیرہ نما ہونا ضرور ناقابلِ عمل ہوتا اگر باقی ہندوستان کو ایک ملک کے طور پہ چھوڑ دیا جاتا اور مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کے خلاف مختلف قوموں کو علاقائی خودمختاری نہ دی جاتی۔ قباحتیں تو تھیں مگر برصغیر کو ایک ملک ماننے کے بجائے تاریخی حقائق کی بنیاد پر سیاست کچھ تو بدلتی۔ دوسری قومیں بھی اپنی خودمختاری کے لیے کھڑی ہوسکتی تھیں۔ ممکن ہے سب مسلمانوں اور غیرہندو قوموں کے حق کے لیے کوئی تیسرا، چوتھا، پانچواں حل ڈھونڈنا پڑتا۔ مثلاً انگریز نے کئی ریاستوں پر قبضہ کیا تھا تو یہ بھی ایک حل تھا کہ ان ریاستوں کو اسی طرح آزاد کیا جاتا۔
چودھری رحمت علی پر غیرحقیقت پسندی کے الزام کا زندہ جواب پاکستان کی موجودہ حالت بھی ہے، ۱۹۴۷ کی نسل کشی بھی اور موجودہ ہندوستان میں جاری نسل کشی کی لہر بھی۔ بقول کےکےعزیز، چودھری رحمت علی اپنی غلطیوں کو بھانپ لیتے تو انھیں درست کرنے سے ہچکچاتے نہیں تھے جو ان کے کھلے ذہن کا مظہر ہے۔ تو کیا ہمارے ذہن اب تک ایسے بند ہیں کہ ہم انجام دیکھ کر بھی اپنے فیصلے کو صحیح مانیں گے اور خبر دینے والے پہ لعن طعن کرنے سے باز نہ آئیں گے؟
چند گستاخیاں اور۔ (۱) چودھری رحمت علی نے ہر ملک میں اقلیتوں کے لیے مخصوص علاقوں کی تجویز دی تھی (ص۵۶) مگر اس سے اقلیتیں الگ تھلگ اور غیرمحفوظ ہوسکتی تھیں۔ تاہم انھوں نے اس کی وضاحت کرکے اقلیتوں کو اپنے معاملات اپنی مرضی سے چلانے کے حق کی بات بھی کی تھی (مقامی حکومتوں کا تصوّر)۔ (۲) جگہوں کے نام مسلمانوں والے نام سے بدلنا ٹھیک نہیں کہ اپنے ورثے کی طرح غیرمسلموں کے ورثے کا احترام بھی ضروری ہے۔ (۳) اردو کا نام ’’پاک‘‘ رکھنے کی تجویز مناسب نہیں کہ زبان کے ساتھ ایسا غیرضروری کھلواڑ خطرناک ہوتا ہے۔
آزادی سے پہلے انھوں نے جو آخری پمفلٹ لکھا تھا، اس کی زبان سخت تھی (ص۵۴) مگر اس پر جیسا ردِّعمل ہوا اور جس زبان میں ہوا، وہ تنگ نظری اور ناجائز تھا کیونکہ ان کے پاس دلیل بھی تھی اور جواز بھی۔ جس نے اپنی زندگی قومی بقا اور تحفّظ کے لیے صرف کی ہو، وہ الٹی گنگا بہتی دیکھ کر کیسے نہ بپھرتا! عوام اپنے مستقبل کے لیے رہنماؤں کے فیصلوں اور حکمت عملی پر رائے اور جذبات کے اظہار کا پورا حق رکھتے ہیں۔ جناح صاحب پر تنقید کا حق تو برصغیر کے ہر مسلمان کو تھا، یہ تو پھر رحمت علی تھے، وہی تحریکِ پاکستان شروع کرنے والے، جسے جزوی طور پہ بغیر اعتراف اور مشورے کے اپنا بنالیا گیا اور اس کے لیے دلیلیں تک ان کی استعمال کی گئیں۔ مگر جس نے راستہ دکھایا، لوگ اسی کو کچل کر آگے بڑھ گئے اور اسے پاکستان میں دفن تک نہ ہونے دیا۔ یہ چھوٹی بات نہیں، اس سے قومی سوچ اور سمت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کردار کے ساتھ ہم کس منہ سے اور کس سے گلہ کریں!
چودھری رحمت علی نے مہاجر اور مقامی دونوں لوگوں کی صحیح بات ہر حمایت اور غلط پر تنبیہ کی۔ یہ بھی ان کی بڑائی تھی کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود وہ لوگوں کو مولانا آزاد کی کردارکشی سے منع کرتے تھے۔ لیکن مسلم لیگ نے ان دونوں کے ساتھ وہ کیا کہ آج غدّار بنانے کا کارخانہ ہماری گھٹّی میں پڑا ہے۔ رحمت علی اور آزاد کے راستوں میں اصل فرق متحدہ ہندوستان اور منقسم برصغیر کا تھا مگر دلیل دونوں کی ایک تھی کہ تمام مسلمان ایک ہیں اور مسلمانوں کا عظیم ورثہ ہندوتوا کے قدموں میں ڈال کر ایک ٹکڑا لینا غلط ہے۔ دونوں ہی مسلمانوں کو بے یارومددگار چھوڑنے کے سخت خلاف تھے۔ آزاد نے موجودہ تقسیم کی مخالفت اُنِھیں دلائل کے ساتھ کی تھی جو رحمت علی کے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ تقسیم مسلمانوں کے حق میں ہوتی تو میں اس کا ساتھ دیتا مگر یہ مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کمزور کردے گی اور ہم ایک دوسرے کے لیے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ کیا ان کے کہے سے ذرّہ برابر بھی مختلف ہوا! آج ہندوستان کے مسلمان جن کے رحم و کرم پر ہیں وہ مسلمانوں کی پوری نسل اور صدیوں کی وراثت کے خلاف کھُل کھیل رہے ہیں اور ہم بظاہر ’’اپنا حصّہ‘‘ لے کر الگ بیٹھے ہر چیز سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ وژن یا نظر کیا کچھ اور ہوتی ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply