رشیدہ۔۔اُسامہ ریاض

رشیدہ سے سارا گاؤں ڈرتا تھا۔ وہ جب بھی اپنا آدھا پھٹا ڈوپٹہ لے کر گھر سے نکلتی سب جلدی جلدی گھروں کی کھڑکیاں بند کر لیتے۔ گلی میں کھیلتے بچے اپنے کھلونے چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ کبھی کبھار کچھ شرارتی بچے رشیدہ پر آوازے کستے یا پھر کسی گلی کے نکڑ سے اُس پر چند پتھر پھینک کر دوڑ لگا لیتے، مگر رشیدہ کبھی کسی کو کچھ نہ کہتی، پھر بھی سارا گاؤں اُس سے ڈرتا تھا۔ بچے کھانا نہ کھاتے یا رات کو روتے تو مائیں اُنہیں ڈرانے کے لیے کہتیں ’’ رشیدہ آ جائے گئی‘‘ پھر بچے جلدی جلدی کھانا کھا لیتے اور رونا بند کر دیتے۔

گاؤں کی واحد مسجد کے امام صاحب کا رشیدہ سے جب بھی سامنا ہوتا وہ لاحول پڑھ کر راستہ بدل لیتے۔

چوہدری صاحب سے لے کر ہر بچے تک سبھی رشیدہ سے خوف کھاتے۔ گاؤں پر عجیب سکوت طاری تھا۔ رشیدہ کے علاوہ اکرم سے بھی سب ڈر کر رہتے تھے۔ بڑی بڑی موچھین، کاٹن کا سفید سوٹ، ہاتھ میں حقہ اور پشاوری چپل پہنے وہ جب بھی گلی میں نکلتا سبھی اُس کے سامنے سر جھکا لیتے۔ وہ کسی پنچائیت کے فیصلے پر پہنچتا تو اُس کا فیصلہ حتمی سمجھا جاتا۔ کسی کو اکرم کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اکرم وہ واحد انسان تھا جس سے رشیدہ بھی خوف کھاتی تھی۔

رشیدہ کو اگر پتا چلتا کہ اکرم اُس کے محلے کی طرف آ رہا ہے تو وہ گھر کی ساری کھڑکیاں بند کر کے کئی کئی دن گھر سے نہ نکلتی۔ اکرم کا ڈر ہر طرف طاری تھا۔ وہ شہر کو جانے والی پکی سڑک پر کھڑا ہو جاتا تو سڑک پر گاڑی چلانے کی کوئی ہمت نہ کرتا۔ یہ وہی پکی سڑک تھی جہاں برسوں پہلے شادی کے انکار پر اکرم نے رشیدہ کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اُس کے چہرے کا حلیہ بیگاڑ دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تب سے ہر کوئی رشیدہ کے چہرے اور اکرم سے خوف کھاتا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply