پِنجرہ ( چار دِلوں کی داستان )قسط1۔۔۔سید علی شاہ

نوشین مُٹھیاں بھینچے اور دانت کچکچاتے مسلسل کمرے میں اِدھر سے اُدھر پھِر رہی تھی ابھی کُچھ دیر پہلے اُس نے کانچ کے  دو گِلاس بھی دیوار پر مار کر توڑ دیے تھے ۔
وہ کبھی بیڈ پر بیٹھ جاتی تو کبھی اُٹھ کر پھِر کمرے میں چکر لگانے لگتی ۔
اٹھارہ بائی بیس کے ہال نُما کمرے اور اُس میں انتہائی نفاست سے لگا ہوا جہازی سائز کا فرنیچر ، دیواروں پرلگی ہوئی بیش قیمت پینٹنگز اور کھڑکی پر پڑے نفیس اور قیمتی پردے ،غرض یہ کہ کمرے کی ایک ایک شے سے امارت جھلک رہی تھی اور ایسا کیوں نہ ہو،
وہ مرزا وقار بیگ کی اربوں کی جائیداد اور کئی ممالک میں پھیلے کاروبار کی اکلوتی وارث تھی ،
اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کمرے کو کیا، پُورے گھر کو آگ لگا دے ۔

مرزا وقار بیگ دوستوں کی محفل سے فارغ ہو کر گھر پہنچے ڈرائیور نے کار پورچ میں گاڑی سلیقے سے لگا کر دروازہ کھولا اور مرزا وقار بیگ بردبار انداز میں نیچے اُتر کے اندر کی جانب بڑھے ہی تھے کہ سعید صاحب تیز تیز قدموں سے اُن کے قریب پہنچے اور جھُک کر مودبانہ انداز میں سلام کیا ، سعید صاحب گھر کی مینجمنٹ سنبھالتے تھے ، گھر کے چھوٹے سے چھوٹا کام بھی سعید صاحب کی ذاتی نگرانی میں ہوتا تھا ، سعید صاحب کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ ہوگی اور وہ بچپن سے ہی اس گھر میں رہے ہیں اور ان کا بچپن مرزار وقار بیگ کے ہی ساتھ گُزرا ہے کیونکہ سعید صاحب کے والد بھی اس گھر کی مینجمنٹ سنبھالتے تھے ، اس لئے مرزا وقار بیگ نے کبھی سعید صاحب کوملازم نہیں سمجھا بلکہ ایک دوست کی طرح ملتے تھے ۔

مرزا وقار بیگ سعید صاحب کی طرف دیکھ کر مُسکرائے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دونوں موبائل فون اُن کی طرف بڑھا دیئے ،
مرزا وقار بیگ کے گھر پہنچتے ہی موبائل فون سعید صاحب کے پاس چلے جاتے تھے ، پھر ساری کالز اٹینڈ کرنا اور جواب دینا سعید صاحب کی ذمہ داری تھی اگر کوئی بہت ضروری کال ہوتی تو مرزا وقار بیگ کو ڈسٹرب کیا جاتا تھا ورنہ سارے معاملات سعید صاحب ہی نمٹا لیتے تھے اور اگلے دِن آفس جانے سے پہلے موبائل مرزا وقار بیگ کو دے دیتے ۔
سعید صاحب نے مرزا وقار بیگ کے ہاتھ سے موبائل پکڑے اور پریشان سے لہجے میں اُن سے مخاطب ہوئے ۔
” بیگ صاحب آپ سے ایک بات کرنی تھی “۔۔
مرزا وقار بیگ رُکے اور چونک کر سعید صاحب کی جانب دیکھا اور بولے ۔
” ہاں ہاں سعید صاحب بولیں کیا بات ہے ۔۔؟
” نوشی بیٹی کو معلوم نہیں کیا ہوا ہے ۔ ابھی کُچھ دیر پہلے بہت غصے میں کمرے سے باہر نکل کر چیزیں اِدھر اُدھر پھینک رہی تھیں اور اب کمرے سے بھی توڑ پھوڑ کی آوازیں آ رہی ہیں ، میں آپ کو کال کرنے والا تھا کہ آپ خود ہی آگئے”۔۔

سعید صاحب نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا تو مرزا وقار بیگ کی پیشانی پر بھی لکیریں ظاہر ہو گئیں ۔
” آپ چلیں میں دیکھتا ہوں “۔۔
مرزا وقار بیگ نے ہونٹ چباتے ہوئے سعید صاحب سے کہا اور خود تیز تیز قدموں سے اندر گھر کی جانب بڑھ گئے ۔
———————–
“بیٹا ایک بار پھِر سے سوچ لو ، یہ نہ ہو کہ میں بات کروں اور بعد میں تُمہارا ذہن بدل جائے”۔۔
مرزا وقار بیگ نے نوشین کو سمجھاتے ہوئے کہا
” پاپا یہ میرا آخری فیصلہ ہے، اور میں کِسی بھی قیمت پر اپنے فیصلے سے نہیں ہٹ سکتی “۔۔
نوشین کے لہجے میں انتہائی غرور جھلک رہا تھا ۔
” ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں سعید صاحب سے “۔۔
مرزا وقار بیگ اُٹھے اور کمرے سے باہر نکل گئے ۔
نوشین کے چہرے پر اب فاتحانہ مُسکراہٹ تھی جیسے اُس نے پُوری دُنیا فتح کر لی ہو ۔۔
اُس نے اُٹھ کر پہلے دروازہ بند کیا اور پھر کتابوں والی الماری سے دو کتابیں نکالیں اور اُن میں سے ایک کتاب کھولی تو اُس میں صفحوں کی جگہ ایک باکس تھا ، نوشین نے وہ باکس کھولا تو اندرایک چھوٹی سی شیشی اور شیشے کی نلکی موجود تھی ۔

نوشین نے دونوں چیزیں نکال کر ٹیبل پر رکھیں اور دوسری کتاب کھولی تو اُس میں کافی زیادہ ڈی وی ڈیز موجود تھیں ، اُس نے ان میں سے دو ڈی وی ڈیز نکالیں اور ایک ڈی وی ڈی پلیئر میں لگائی اور دوسری ڈی وی ڈی اور وہ شیشی اور نلکی پکڑے آرام سے بیڈ پر آ گئی ۔
بیڈ پر بیٹھ کر اُس نے شیشی کھولی اور اُس میں سے تھوڑا سا پاؤڈر  نکال کر ڈی وی ڈی پر بکھیر دیا ، اب وہ اپنا ایک نتھنا بند کئے شیشے سے بنی نلکی سے ڈی وی ڈی پر پڑا پاؤڈر اپنے دوسرے نتھنے میں کھینچ رہی تھی، ہر بار اُسے ایک چھینک آتی اور وہ سر اوپر اُٹھاتی تو اُس کی آنکھیں لال ہوئی ہوتیں ۔

ڈی وی ڈی پر پڑا پاؤڈر ناک میں انڈیلنے کے بعد اُس نے یہ سب چیزیں بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھیں اور ریموٹ اُٹھا کر بٹن دبایا تو دیوار میں نسب ایک ساٹھ انچ کی ایل ای ڈی روشن ہو گئی اب اُس نے ایک اور بٹن دبا کر ڈی و ی ڈی پلے کر دی ۔

وہ ایک اخلاق باختہ فلم تھی ، فلم کے ایک ایک سین کے ساتھ نوشین کی آنکھوں کی چمک بڑھتی جا رہی تھی اور آنکھوں کے کنارے گلابی ڈوروں میں بدلتے جا رہے تھے ۔۔۔۔جسمانی حدت سے نوشین کے کان لال سُرخ ہوگئے تھے اور اُس نے نڈھال ہو کر تکیے سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور اُلٹی ہو کر لیٹ گئی وہ مُسلسل تڑپ رہی تھی اور کمرہ اُس کی تیز سانسوں سے گونج رہا تھا۔
—————
اشعر نے ساجدہ کا ہاتھ پکڑ کر آنکھوں سے لگا لیا اور پھِر چُومنے لگا ۔
” آپا مُجھے اگر دس زِندگیاں بھی مِلیں اور وہ سب بھی میں آپ پر وار دوں تو بھی آپ کی ہمارے لئے دی گئی قُربانیوں کا قرض نہیں چُکا سکتا مگر خدا کے لئے مُجھ سے یہ وعدہ نہ لیں، میں ایسا کبھی نہیں کر پاؤں گا” ۔۔
“اشعر میں نے جو بھی کیا وہ امی سے کِیے ہوئے وعدے ایفا کِئے اور کُچھ نہیں “۔۔
ساجدہ نے پیار سے اشعر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی
“امی جان نے مُجھ سے وعدہ لیا تھا کہ تم سے ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دُوں اور آج اللہ تعالیٰ کا شُکر ہے میں سُرخرو ہو رہی ہوں “۔۔
“عمارہ اپنے گھر کی ہو چُکی ہے اب تمٍ بھی سر کو شادی کے لئے ہاں کر دو تاکہ تمہاری شادی کے بعد میں افشین اور زارا کے فرض سے بھی سبکدوش ہو جاؤں “۔۔
ساجدہ نے دھیرے سے اشعر کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اپنی بات مُکمل کی ۔

“لیکن آپا ابھی میری پڑھائی بھی باقی ہے اور پھِر ابھی میری نوکری بھی نئی نئی ہے ، میں خود کو اس ذمہ داری کے لئے تیار نہیں سمجھتا آپ سر سے بات کر کے انہیں منع کر دیں پلیز “۔۔
اشعر نے بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے کہا تو ساجدہ نے مُسکراتے ہوئے اُس کے کاندھے پر ایک تھپکی دی اور بولی کہ ۔۔” ٹھیک ہے میں سر سے بات کروں گی “۔۔
اشعر نے ساجدہ کا ہاتھ پکڑ کر ایکبار پھِر بوسہ دِیا اور کمرے سے نکل کر باہر دالان میں رکھی کُرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔
اُس کا دماغ اُلجھا ہوا تھا اور وہ مسلسل سوچوں میں گم تھا ۔

اُسے توقع نہیں تھی کہ معاملات اِس حد تک بڑھ جائیں گے کہ آپا کو بھی اِس معاملے میں گھسیٹ لیا جائے گا، کُچھ دِن سکون کے گُزرے تھے تو وہ سمجھ رہا تھا کہ بلا گلے سے ٹل گئی ہے مگر یہاں تو بلا ہڈی کی طرح گلے میں اٹک گئی تھی ۔

کُرسی سے ٹیک لگائے لگائے اُس نے جھُک کر ساجدہ کے کمرے کی طرف دیکھا اور جیب سے سگریٹ نکال کر سُلگا لیا ، اب وہ مسلسل سجّل کے بارے میں سوچ رہا تھا، سجل کو چھُٹیوں پر گئے ہوئے آج تیسرا دِن تھا اور ابھی مزید چار دِن بعد اُس نے گاؤں سے واپس آنا تھا، گاؤں میں نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے وہ سجل سے رابطہ بھی نہیں کر پا رہا تھا اور اُس کا کوئی قریبی دوست بھی ایسا نہ تھا جِس پر اعتماد کر کے یہ سارا معاملہ ڈسکس کرتا اس لئے اکیلے ہی سوچوں کے بھنور میں ڈوبتا، نکلتا سگریٹ پھونکے جا رہا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply