خامہ بدست غالب۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

غالب کے اشعار پر مبنی نظم کہانیاں

بجوکا
رسیدن ہائے منقار ہما بر استخواں غالب
پس از عمرے بیادم داد کاوش ہائے مژگاں را

———–
(1)
آدمی شاید رہا ہو گا ، مگر اب
ایک دھڑ تھا، ایک سر تھا
بانس کی ٹانگوں پہ سرکنڈے مڑھے تھے
ڈھیلے ڈھالے
دھڑ تھا پھر بھی
سر تھا پھر بھی
آدمی کا
الٹی ہانڈی بانس کی گردن پہ لٹکائی گئی تھی
زندہ ڈھانچا
اک بجوکا
جو پرندوں کوڈرانے کے لئے گاڑا گیا تھا

(2)
ہڈّیاں تو ہڈّیاں تھیں
چرچراتی تھیں، مگر ۔
پھر بھی شکستہ جسم کے اعضا کو جیسے
باندھ کر رکھے ہوئے تھیں۔

یہ تمسخر خوب تھا ۔۔ سارے پرندے
اس سے ڈرنے کے بجائے
پاس آ کر
اپنی منقاروں سے اس پر
وار کرتے تھے ہمیشہ
اشک افشاں، خس بدنداں
چیختا رہتا تھا، لیکن
کون سنتا؟
ڈھیٹ تھے سارے پرندے
اڑتے اڑتے پاس آ کر
اپنی منقاروں سے اس پر
وار کر کے لوٹ جاتے
جیسے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو
زندہ ڈھانچہ، اک بجوکا
آبدیدہ ، اپنے سر کو دھنتا رہتا

(3)
اور پھر اک دن ہوا اک حادثہ سا
اک پرندے کی کچھ ایسی ٹھونگ تھی، وہ
الٹی ہانڈی کا سا چہرہ
گر گیا نیچے زمیں پر
اور بجوکا ظاہراً تو مر گیا ۔۔
لیکن نہیں! اس کا شکستہ دھڑ سبھی اعضا کو اپنے
باندھ کر رکھے ہوئے ہے
اور بجوکا ، کچھ خمیدہ
اب فقط اک دھڑ ۔۔
پرانے بانس کی ٹانگوں پہ ویسے ہی کھڑا ہے
جیسے اب سے پیشتر تھا
ہاں، مگر سارے پرندے
اک غلط انداز سی ترچھی نظر سے
دیکھ کر، تیزی سے اپنا رخ بدل کر
دور اُڑ جاتے ہیں اس سے

سوچتا ہے، میں یہیں ہوں
میں وہی ہوں
طائروں کو کیا ہوا ہے؟
کیا مجھے اب یکہ و تنہا، اکیلا
کنجِ تنہائی میں اپنے آپ ہی رہنا پڑے گا؟
یاد کرتا ہے ۔۔۔
سنہرے دن پرندوں سے بقائے باہمی کے
ہائے کیا لذت تھی، کیسی چاشنی تھی
بے کلی میں بھی خوشی، آسودگی تھی
اب وہ ’کاوش ہائے مژگاں ‘ کیا ہوئی ہے؟
کاش وہ دن لوٹ آئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالب کے فارسی کلام کے کچھ نسخوں میں یہ شعر اس طرح درج ہے

’’ رسیدن ہائے منقار ہما بر استخواں غالب

پس اس عمرے بیادم داد رسم و راہ پیکاں را‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر شعر کو یوں پڑھا جائے تو مژگاں کے استعارے کا ایک فاضل پہلو ، یعنی آنکھوں کی ہر پلک کا چبھنا اور اس چبھن کے تلذز کی داد دینا، شعر سے خارج ہو جاتا ہے، اور براہ راست تیر اندازی کا ایک تصویری پہلو ابھر آتا ہے دونوں حالتوں میں استعارے کی ملفوفیت اور مدوریت قائم رہتی ہے۔ بہر حال جس طرح شعر عنوان میں درج کیا گیا ہے، اس کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے ۔’’ غالب کے استخوان پر ہُما نے کچھ اس طرح اپنی منقار سے ٹھونگیں لگائی ہیں ، کہ اک عمر گذرنے کے بعد بھی مجھے اس کی مژگاں کی لگاتار چبھن سے زخمی ہونے کی دادینا پڑ رہی ہے ۔‘‘ (س۔پ۔آ)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply