مکالمہ مزاح کو بھی جگہ دے

حیرت ہے مکالمہ ٹیم کے ممبران پر جنھوں نے ابتک میری دو لکھی ہوئی مزاح بر مبنی تحریریں ارسال نہیں کیں۔حالآنکہ اس میں موضوع سے ہٹ کر کوئی ایسا مواد بھی نہیں تھا بس طبع تفریح کے لیئے اور مکالمہ نوجوانوں کے لیئے ایک تفریح کا زریعہ۔لیکن نہ جانے کیوں میری دونوں تحریروں کو عرصے تک لٹکائے رکھا اور پھر ایک دن موقع پا کر اسے منظر سے بھی غائب کردیا گیا۔ حالآنکہ میری تحریر میں سازش کی کوئی ایسی بو نہیں تھی جس سے مکالمہ میں بدمزگی پیدا ہوتی۔
اگر دیکھا جائے تو مزاح بھی ایک دل کو لبھا دینے والا موضوع ہے اگر اس پر آپ کی گرفت اچھی ہو۔کیونکہ مذاق اور مزاح کو سمجھنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔جو سمجھ میں نہ آئے وہ مزاح کہلاتا ہے۔اور سمجھ میں آجانے والا مواد مذاق کہلاتا ہے۔لگتا ہے جو غلطی ہمارے قلم سے سرزد ہوئی تھی وہ مزاح تھا جو مکالمہ ٹیم کو سمجھ نہ آیا اور دیوار پر چسپاں کرنے سے پیشگی معذرت کرلی۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ مکالمہ میں لکھنے والوں کی تعداد اکثریت میں ہے۔اور ماشااللہ خوب لکھتے ہیں۔اور خوب سے خوب تر لکھتے ہیں۔اور ان کا لکھا قابل تعریف بھی ہوتا ہے۔لیکن کبھی کبھار مکالمہ ممبران انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرپاتے۔
ابھی کچھ عرصے قبل مکالمہ میں اک تحریر شائع ہوئی تھی ۔جو غالبا ایک خاتون لیکچرار نے لکھی تھی۔جسکا موضوع انتخاب تھا.لڑکیوں میں ہم جنس پرستی کا نفسیاتی جائزہ ۔اس خاتون کا نام بھی اگر یاد ہوتو شائد ؛ نجمہ سلطانہ؛ تھا ظاہر ہے عنوان سے ہی پتہ لگتا ہے کہ موصوفہ نے کیا لکھنے کی کوشش کی ہے یا بتانے کی؟ لیکن محترمہ کے لکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ محترمہ جو موادقارئین کو من و عن یہاں پیش کرنا چاھتی تھی۔اسے اس طریقے سے وہ پیش نہ کر سکی ۔ہاں یہ کہاں جا سکتا ہے کہ محترمہ نے اپنی ایک کوشش ضرور کی۔جیسے میں نے مزاح لکھ کر کی تھی۔فرق اتنا ہے کہ میری تحریر کو نا قابل اشاعت اور نوجوانوں میں بے راہ روی بڑھے گی، قرار دیکر واپس بھیج دیا گیا ،جس میں سوائے مسکراہٹوں کے کچھ بھی نہ تھا۔اور اس خاتون کی تحریر کو بہشتی زیور قرار دیکر نوجوانوں کے لیئے اک صحت افزا موضوع قرار دیا گیا، جسے پڑھ کر نوجوانوں میں مزید صلاحیتیں بیدار ہونگی۔میری ناقص رائے میں وہ موضوع اشاعت کے قابل تھا ہی نہیں۔مکالمہ ٹیم اور محترمہ نجمہ سلطانہ سے بڑی معذرت کے ساتھ ۔لیکن اس میں سوائے سیکس کو مزید ابھارنے کے کچھ بھی نہیں تھا۔یہ تحریر شائع ہونے کے بعد لوگوں کے اس جملے سے ملتے جلتے کامنٹس پائے گئے تھے۔اکثریت نے اس تحریر کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا۔اس کی وجہ لکھا ہوا وہ مواد تھا جو ناقابل اشاعت تھا لیکن باوجود اس کے اسے شائع کردیا گیا۔
اس تمام گفتگو کو یہاں منظرعام پر لانے کا مقصد یہ تھا کہ میری ان تحریروں کو بھی جگہ دی جاتی ۔جس میں سوائے مزاح کے کچھ بھی نہ تھا۔یہ تحریر مجھے اس وقت لکھنا پڑی جب میں مکالمہ ٹیم سے کافی دلبرداشتہ ہوا کہ وہ حس لطافت جیسے موضوعات کو بھی اپنے صفحے میں جگہ نہیں دے پاتے۔جو سوائے محفل کو کشت زغفراں بنانے کے کچھ بھی نہیں۔جہاں تمام دن کی تھکن پلک جھپکتے ہی ختم ہوجاتی ہے جب محفل کشت زغفراں بنتی ہے۔اس موضوع کو بھی مزاح سمجھ کر شائع کیا جاسکتا ہے۔بہرحال یہ مکالمہ ممبران کی صوابدید پر ہیکہ وہ اسے قابل اشاعت سمجھتی ہے یا نہیں۔بہرحال ہم تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہیں گے۔۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply