بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط17)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

گزشتہ قسط:

مل جل کے چلتے کلاس رومز پہنچے ، دو پیریڈ پڑھے تو چپڑاسی نے اصغر کو ڈھونڈ کے بتایا کہ سٹوڈنٹ آور میں اسے پرنسپل نے طلب کیا ہے، پریشان دیکھ کے اس نے تسلی دی کہ گورنر ہاؤس کی گاڑی پہ  آنے والے صاحب بارے کچھ معلومات کے لئے طلبی ہے فکر کی بات نہیں ،پرنسپل صاحب عاصمہ کے والد کے وکیل دوست تھے، یوں عاصمہ اور اصغر دونوں اکٹھے پیش ہوئے تو صوبیدار صاحب
کے کوائف پہ  باتوں میں یہ پتہ چلا کہ عاصمہ شاہ کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی سالٹ رینج علاقے کے سادات کے مشہور گاؤں سے تھا، پرنسپل کسی ذاتی کام کے لئے گورنر سے ملنا چاہتے تھے، فون پہ  ملتان عاصمہ کے والد سے بات کی تو دوران گفتگو سردار حق نواز، سے دوستی ، سید وقار شاہ اور عاصمہ کے والد کی باہم رشتہ داری کڑیاں مل گئیں ۔ان کے ددھیال اور وقار شاہ کے ننھیال ایک خاندان کے نکلے ، اصغر شاہ سے رشتہ داری نکل آنا شاید عاصمہ شاہ کی کوئی  مراد تھی جو پوری ہو گئی، اصغر کو بھی خوشی ہوئی  یوں کالج میں ادارے کے سربراہ سے تعلق منسوب ہونا بھی بڑی بات ہوتی ہے، اُس دن کالج سے کیمپس ہاسٹل واپسی پہ  عاصمہ بس پہ  نویدہ کے ساتھ جانے کے بجائے اصغر  کے ساتھ جیپ پہ  گئی۔اگلے ایک ماہ میں ملتان بنچ کے مشہور ترین وکیل کی اکلوتی بیٹی اور کالج کے سمارٹ ترین فائنل پارٹ کے سٹوڈنٹ وکیل کی دوستی کے چرچے کالج سے گرلز ہاسٹل تک کانا پھوسی کا مستقل موضوع بن گئے۔

نئی قسط:

شیزان بیٹھنے والی چوکڑی میں تبدیلی آئی ، عاصمہ اور نویدہ شامل ہوئیں ۔ شفقت کی کورٹ اور چیمبر کی مصروفیت آڑے آنے لگی تو یہ دن ڈھلے جمنے والی محفل مال روڈ پہ  الفلاح بلڈنگ کے ساتھ واقع انڈس ہوٹل کے گرین ہال شفٹ ہو گئی ۔عاصمہ، نویدہ ، اصغر کے امتحان شروع ہونے والے تھے، احسن نے بھی تیاری کرنی تھی، لنچ حسب توفیق یونیورسٹی کے سامنے ٹولنٹن مارکیٹ میں بنے کیپری ریسٹورنٹ میں باری پر دیا جاتا، فقر کی صورت ہاسٹل میس میں شفقت کے کھاتے پڑتا، کماؤ پُوت تو وہی تھا، باقی چندہ جمع کر کے جیپ کا پٹرول اور انڈس کی چائے کا بل دینے کا بندوبست لازم تھا۔ گرین ہال فرسٹ فلور پہ  تھا، میوزک مشین تھی اٹھنی کا سکہ ڈال کے تین گانے سنے جا سکتے تھے۔
گیلری کی طرف دیوار گیر شیشے تھے باقی بند کمرے کی شکل تھی، پُر سکون ماحول ، موسیقی، پرائیویسی میں پرچے دینے کی تیاری کرتے  تین چار گھنٹے گزارے جاتے، شفقت بھی کبھی شامل ہوتا، اصغر کا امتحان تو اسی نے دلوانا تھا۔اسی دوران ایک روز احسن نے عاصمہ کے ہاتھ اصغر کو پیغام بھیجا کہ وہ گیارہ بجے انڈس ہوٹل پہ پہنچ جائے،ڈیڈی مطلب صوبیدار صاحب لاہور ہیں اسے ملنے آئیں گے۔

ہوٹل میں صوبیدار صاحب اور اصغر کی میٹنگ لنچ پہ  دو گھنٹے چلی، انہوں نے اپنے ذرائع سے فوجی سٹائل میں باوا جی اور زہرا کی شادی بارے تمام متعلقین بارے معلومات اور رائے جمع کر لی تھی، سیکریٹ پلان بھی تیار تھا۔۔تفصیلات پر تو بات نہیں ہوئی  لیکن اصغر کو اس کے رول کی داد ملی، وہ اپنی کار پر ڈرائیور کے  ساتھ آئے تھے،اور ہوٹل سے ہی چلے گئے، یہ راز کسی کو پتہ نہیں  تھا کہ وہ پرنسپل کا کام کرانے آئے تھے، داماد کا کام تھا،یا وہ بطور بزرگ صرف اصغر کو آن بورڈ رکھنے کے لئے اسے ہی ملنے آئے ۔ شادی ہونے کی تاریخ بارے بھی بات نہیں  ہوئی  تھی اشارہ بقر عید کے بعد کا لگا تھا۔

امتحان ختم ہو گئے ، اب تعطیلات میں ہوسٹل کا ماحول بوجھل ہونے لگا، نویدہ اورعاصمہ نے سامان باندھ لیا۔۔احسن بھی گھر جانے کو تیار  تھا،اصغر شاہ بھی اپنا سامان سٹی ہاسٹل سے کیمپس احسن  کے پاس لے آیا،شفقت کا بار سے لائسنس بن چکا اور اس نے سینئر کو راضی کر لیا کہ اسے وہ ملتان کام کرنے دیں ، انشااللہ وہ ان کا نام مزید اونچا کرے گا، لاہور رہنا وہ افورڈ نہیں  کر سکتا۔ وہ مان گئے ،ڈنر سے پہلے الوداعی میل ملاقات میں عاصمہ نے تجویز پیش کی، سب اکٹھے اصغر شاہ کی جیپ پہ  چلتے ہیں ۔ساہیوال نویدہ کنول کو اتاریں گے، احسن نے کہا کہ کس خوشی میں ہم سب کے دروازے پر جائیں ؟
نویدہ ہنس کے بولی ۔۔ تاکہ ہمارے گھر والے بھی دیکھ لیں ہم کن لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں !
عاصمہ نے براُ منایا، شفقت نے کہا، صبح کا ٹائم طے کرو، کھانا کھاؤ اور سو جاؤ ،جیپ  مسافر بس کی طرح لوڈڈ تھی، اصغر نے ڈرائیو کی، شفقت فرنٹ سیٹ پہ، احسن، عاصمہ اور نویدہ پچھلی سیٹ پر، صبح دس بجنے سے پہلے ساہیوال پہنچ گئے۔
چوہدری کچھ زیادہ خوش نہیں  لگ رہے تھے، نویدہ کا سامان نوکر لے کر گئے، نویدہ اور عاصمہ بھی اندر چلی گئیں ۔ کوئی ان جیپ سوار مہمانوں سے ملنے نہیں  آیا، بہت دیر بعد عاصمہ شاید معذرت کر کے نکل آئی تھی، کہ نویدہ اس کے پیچھے لپکی،احسن ڈرائیو سنبھال چکا تھا، شفقت اور اصغر پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے، عاصمہ اور نویدہ کی بات کسی نے نہیں  سنی۔
جیسے  ہی عاصمہ سیٹ پر بیٹھی احسن نے جیپ سیکنڈ گیر میں فُل تھراٹل دے کر چلا دی ۔
مین جی ٹی روڈ پہ  چڑھنے کے بعد گفتگو بھی ہموار ہو گئی، عاصمہ نے بتایا کہ  نویدہ کی والدہ کو  اس طرح  لڑکوں   کو گھر تک لانا پسند نہیں  آیا۔ شکر ہے نویدہ کے ابا گھر نہیں  تھے ورنہ یہ گھر چھوڑنے کی نیکی گلے پڑ سکتی تھی ۔۔
اصغر نے شوشہ چھوڑا، اب اگلے سٹاپ کا حشر کیا ہو گا، اس ہلکی پھلکی گپ شپ موسیقی سنتے وہ ڈیڑھ گھنٹے میں ملتان پہنچ گئے۔
شفقت نے سٹی کی مین روڈ پہ  گائیڈ کرتے اصغر سے پوچھا کہ وہ یہاں اتر جائے ؟ اصغر نے نفی میں سر ہلایا ، تو تھوڑی دور آگے ایک چوک  کے پاس اس نے جیپ  کو رکوایا ، سامنے کچھ دفاتر تھے، وہاں سے تین چار لڑکے ساتھ لایا، چائے کی آفر کی ،عاصمہ نے منع کیا کہ گھر میں پئیں گے، اس کا سامان وہ لڑکے لے گئے، واپس جیپ میں بیٹھتے  ہوئے اس نے بتایا کہ یہاں اسکے چچا کا ٹکٹنگ کا دفتر ہے
اصغر نے لقمہ دیا ساتھ شعیہ مدرسہ ہے، احسن ،عاصمہ سے راستہ پوچھتے ان کے گھر پہنچ گئے،گارڈ نے گیٹ کھولا ، احسن نے جیپ پارک کی ، یہ سب آفس بلاک کے برآمدے میں جا بیٹھے، عاصمہ ایکسکیوز کر کے گھر چلی گئی، اس کے والد آئے سب کو بہت شفقت سے ریسیو کیا، اور اپنے دفتر میں  ساتھ لا کے محبت سے بٹھایا، اصغر اور احسن سے تعارف در تعارف ہو چکا تھا۔

بس شفقت نواز بی اے ایل ایل بی نئی ہستی تھی، اور وہ آنکھیں گاڑے میز پہ پڑی نیم پلیٹ ، زین شاہ ایڈووکیٹ  کو گھورے جا رہا تھا، اتنی دیر میں عاصمہ بھی دفتر آ گئی ، سائیڈ روم میں ڈائیننگ ٹیبل چائے اور لوازمات سے سج گئی۔۔
اب سب یہاں کانفرنس موڈ میں بیٹھ گئے۔۔۔ شفقت نے ادب کے ساتھ لیکن بھرائی  آواز میں شاہ جی سے عجیب سوال کیا۔
“ مُرشد کیا آپکو مستری ربنواز یاد ہے جس نے آپکا یہ گھر بنایا تھا ۔ ؟ شاہ جی نے ہنکارا بھرا ، ربنواز کون ؟ تم کون ہو ؟
شفقت بولا۔ مُرشد میں اسی ربنواز کا پوتا ہوں ، میں اسی کے ساتھ رہتا ہوں، وہ زین شاہ جی کو بہت یاد کرتا ہے ! لیکن کوئی  تفصیل نہیں  بتاتا، برسوں گزر گئے ، آج آپ سے شرف ملاقات  حاصل  ہوا شاید وہ آپ ہوں ۔۔۔
شاہ جی نے تھوڑی تفصیل پوچھی تو مستری وہی تھا نام اس نے بدل لیا تھا۔۔ لیکن جو انکشاف زین شاہ جی نے کیے وہ ہوشربا تھے۔۔ مستری کا اصل نام تھا فتح شیر وہ صوبیدار صاحب کے ملحقہ گاؤں کے چوہدری کا بیٹا ہے۔چالیس سال قبل اس نے ماں باپ اور ماموں کے انکار کے باوجود ماموں کی بیٹی رضیہ کو راتوں رات بھگا لیا۔ یہ سب ہمارے خاندان کے مرید تھے، دربار پہ  پناہ لی ، چوہدری دونوں کی تکا بوٹی کرنے پر تُلا ہوا تھا ، چچا جی نے   ان سے دو دن کا ٹائم لیا، اور ان دونوں کو بھیس بدلا کے میاں والی کی طرف یہاں میرے پاس بھیج دیا، نکاح کرا دیا، لیکن سال بھر تو کوارٹر میں چھپے رہے، پھر یہ گھر شروع ہوا تو فتح شیر نے کہا میں رات کو مزدوروں کا کام کروں گا ۔صبح مستری کو چال تیار ملتی، یوں کام سیکھ گیا ۔
اچانک ایک رات میاں بیوی غائب ہو گئے، ہو سکتا ہے ہمارے علاقے کا بندہ ملا ہو یا دیکھا ہو۔
آپ دادا دادی دونوں کو ساتھ لے کے آؤ   کسی دن ۔۔۔
احسن نے شفقت کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا ، لو جی سانوں ہک ہور پتریر مل گیا۔۔۔۔۔۔۔

شفقت کی رخصتی کے بعد احسن نے بھی اجازت مانگی لیکن شاہ صاحب نے ضد  کی کہ رات یہیں قیام کریں ۔
احسن نے دو بار پی اے کے کمرے میں جا کے گاؤں صوبیدار صاحب سے بات کی ۔ دونوں طرف کی صورت حال کی آگاہی ہو گئی، صوبیدار صاحب نے ۔بغیر ایونٹ، اور کرداروں کے نام بتائے۔ گاؤں میں خواتین کو خواتین سے کہلوا دیا اور یہی کام حضرات کے ساتھ چند حضرات نے کیا، اکبرشاہ جعفر کے سسرال،بیٹیوں کے سسر صاحبان غرض ہر معتمد پارٹی کو سمجھا دیا گیا۔۔کہ اس ممکنہ فنکشن کو روٹین میں قبول ہونا چاہیے، کہ اس میں نہ کوئی  حق تلفی ہو گی نہ کسی کا حق مارا جائے گا۔
احسن اور اصغر ملتان سے سیدھے گاؤں آ گئے۔ شام کو پہنچے ۔ حویلی، بیٹھک کیا گاؤں میں سکوت تھا، یہ بھی نہا کے کھانا کھا کے سو گئے۔ سحری کے وقت کھڑاک پھڑاک ہوئی۔ پھاٹک سے ٹرک اندر آیا حویلی کے صحن میں ڈبل بیڈ، ڈریسنگ الماری، سیون سیٹر صوفہ سیٹ اور کچ کارٹن پیک تھے، قالین ، گول ڈائننگ ٹیبل چھ چیئرز ، تپائیاں، کراکری بورڈ، ٹرک والے سائیڈ پہ  ہوئے مسز اکبر شاہ نے منشی کی بیوی کو ساتھ رکھا، نقاب اوڑھے، ہر شے سیٹ کرا دی ۔ سورج نکلنے سے پہلے یہ آپریشن مکمل ہو گیا۔

گیارہ بجے تک دونوں فیملیز کے مرد اور خواتین کرنل صاحب کے ڈیرے پر جمع تھے، وقار شاہ جی ،صوبیدار صاحب احسن اور اصغر کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے نکاح خوان بھی موجود، نکاح پڑھا گیا،رسومات ہونے لگیں ۔
احسن نے اصغر کو نئی زیرو میٹر ہنڈا سوک کار  دکھائی  جو برآمدے میں پارک تھی۔بہت ہیوی اور پُرتکلف لنچ دیا گیا ، صوبیدار صاحب نے اعلان کر دیا یہ دعوت ولیمہ ہے۔
اب رش کرنل صاحب کے رہائشی صحن میں تھا جہاں زہرا بی بی دلہن بنی براجمان تھی۔رخصتی کی تیاری ہو چکی ، کرنل صاحب کے ڈرائیور نے سیوک سامنے لگا دی،رسومات کی جھلمل میں کار اصغر چلا کے لایا، اب وینو وقار شاہ کا گھر تھا، مٹھائی  بانٹی جا رہی تھی، گاؤں سے خواتین مبارک دینے آ تی جا رہی تھیں۔ چائے مٹھائی  کا کھلا بندوبست تھا،موہاٹھ چھڑائی  اور دیگر ساری رسمیں ہوتی ہیں۔
گود بھرائی  کا ایونٹ زہرا بی بی لیٹ کرتی گئی، جب رش کم ہوا تو اس نے اصغر کو بلوایا
زنانیاں ہکا بکا، سب پریشان ۔۔
زہرا نے پلنگ پہ  اصغر کو پاس  لٹا کے اس کا سر گود  میں رکھا۔ بھرائی  ہوئی  آواز میں کہا میری گود تو بھری بھرائی  ہے۔۔۔

سیوک کی چابی منگوا کے اصغر کو پکڑاتے ہوئے اونچی آواز میں کہہ دیا، اصغر یہ تمہاری والدین کی شادی پر تمہارا گفٹ ہے۔
This is congratulations gift on Asghar’s parent’s happy wedding ,,

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply