ایک یادش بخیریا ۔۔کبیر خان

وہ بڑی بھولی بیٹی، سیانی بہن ، سادی ماں، سیدھی بیوی اور انتہائی اکھڑ ڈاکٹر ہیں ۔ کھنگ کھرک ، تاپ دھڑک ، سوُل بیلے اور پیلے تیلے سے لے کر چوٹ چرکے تک ہر درد کا درماں’’وِکس‘‘سے کرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ ہمیں ایک نہایت دیسی مرض المعروف ’’لِڑکنی‘‘(مقامی آشوبِ چشم) لگ گیا۔ پہلے تشخیص فرمائی۔۔۔۔ کِس کلمونہی کو آنکھ ماری تھی۔۔۔۔۔؟ کس کو اور کہاں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔؟تم اس قدر گُرسنہ چشم کیوں ہو۔۔۔؟ تم انسان ہو کہ لومڑ۔۔۔۔۔؟؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے بعد ’’ھو الشافی‘‘کہہ کر وکس کی سلائی دونوں آنکھوں کے پپوٹوں پر پھیر دی۔ ’’لِڑکنی‘‘ تو اپنے وقت پر دور ہو گئی ، ہمارے پپوٹے اور نتھنے دو ہفتے تک سُلگتے رہے۔ (پھر دسمبر کی ’’کالی راتوں ‘‘ میں برف کی ڈلی سے ٹکور کرنے سے آنے والی تھاں پر آئے۔) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ ’’وِکس‘‘کی قائل (اور ہم گھائل) ہیں ۔ ہر مرض کا یہ علاج ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی ماں سے سیکھا۔ امّی مرحومہ کے تکیے تلے ’’مرہم‘‘یعنی وِکس کی آٹھ دس خالی اور دوچار بھری ہوئی شیشیاں ادھر اُدھر لُڑھکتی رہتی تھیں ۔ کسی بچّے کو چوٹ لگ جائے، بڑے کو (کسی قسم کی ٹھوکر)، کسی عزیز رشتہ دار یا پڑوسی کو کسی نوعیت کی جسمانی تکلیف ہو جائے، امّی کا ہاتھ تکیہ تلے سرک جاتا۔۔۔۔ ’’یوں کھول کر، یوں شہادت والی انگلی کو بسم اللہ کر کے دوائی میں ڈوبا دینا ہے، بسم اللہ کر کے انگلی باہر نکالنی ہے،بسم اللہ کرکے چوٹ ، درد والی جگہ پر ہولے ہولے،ہولے ہولے ملتے جانا ہے۔ جب بیمار کی آنکھ پوری طرح لگ جائےتو سر پر دوپٹّہ لے کر ،شکر الحمد پڑھ کر پھونک مارنی ہے۔ اوپر والا شفا دے گا۔ نہ دے تو مجھے بتانا‘‘۔
( نِکّی بے جی بھی امّی کی طرح ڈاہڈی سیانی تھیں ۔ وہ اُترے ہوئے گِٹّے، پرتے ہوئے (الّو کے ) پٹھّے، ٹلی ہوئیں نافیں وغیرہ ’’چاڑھنے‘‘ اور ’’چھِترولے‘‘(آنکھوں کا ایک مرض) جھاڑنے کی ماہر تھیں ۔ اپنی جگہ سے ٹلے ، چڑھے اور اُترے ہوئے کو تھاں پر لانے کے بعد مریض کو جولی چیڑ کی نسوار ضرور سنگھاتی تھیں ۔ جس کا فوری نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ مریض دس بارہ چھینکیں فی سیکنڈ کی رفتار سے اُگلنے کے بعد امریض کے پلّے کہنے سہنے کو ککھ نہیں رہ پاتا تھا۔ چنانچہ اُسے ہفتوں بعد اپنی اُسی جھلنگی کھاٹ پرمیٹھی نیند آتی تھی جس پر ساری ۔۔۔۔۔ ساری ساری رات پاسے پرتدیاں لنگھ جاندی ۔
ہم نے نَکّی بے جی سے کچھ نہیں سیکھا، پروفیسر مرحب قاسمی نے اپنی امّی سے’’ ڈاکٹری‘‘ سیکھی۔ جس کی پریکٹس وہ ہم پر کرتی رہتی ہیں :
*تمہارے فقروں، تمہاری فکروں اور عبارت سمیت پوری عمارت میں بنیاد تک کان پڑی ہے۔
* مجھے شک ہے کہ تم نے کبھی کھیتی باڑی کی ہی نہیں، ورنہ تمہاری سطور بے سمت نہ ہوتیں۔
*کھاتے ہوئے تمہارا ایک کان ہلتا رہتا ہے،جبکہ دوسرے کو مستقل ’’ تراہ‘‘لگا رہتا ہے۔ یہ وصف چغلخور زنانیوں کا ہے، مردماں کا نہیں۔
*تم جب بھی سنجیدگی سے لکھتے ہو، تمہارے قلم سے مزاح نکل نکل جاتا ہے۔ اور جب مزاح لکھنے بیٹھتے ہو پھکڑپن ڈپکتا ہے۔ میری مانو تو لکھنے کی بجائے پڑھنے کی عادت ڈالو۔اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ تم اپنے سامعین اور قارئین کی ہائے سے بچے رہو گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اولیا و مشائخ کی دھرتی سندھ شعر و ادب کے حوالہ سے بھی انتہائی نمایاں اور زرخیز واقع ہوئی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو صفحہ صفحہ شاہ لطیف اورسچل سائیں سے لے کر شیخ ایّاز تک ایسے ایسے نابغے ملتے ہیں کہ اسکالرز بھی دنگ رہ جاتے ہیں ۔ اس گئے گذرےدور میں بھی اندرونِ سندھ جگہ جگہ وقیع کُتب خانے ملتے ہیں ،جن سے علم کے پیاسے پیاس بجھاتے ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر مرحب قاسمی انہی پیاسوں میں سے ایک ہیں ، جنہوں نے میرپور خاص کی ’’ایک آنہ لائبریری‘‘سے بچّوں کی کہانیاں پڑھنا شروع کیں اور پھر خود سندھ یونیورسٹی میں پڑھانے لگیں ۔ پڑھاتے پڑھاتے ایک دن اچانک لکھنے لگیں ۔ ’’سوکھے پتّے اور پانی‘‘اُن کا پہلا شعری مجموعہ تھا جس کے بارے میں شیخ ایاز نے لکھا تھا:
’’ان کے کچھ اشعار مجھے یونانی شاعرہ سیفو کی یاد دلاتے ہیں اور وہ مجھے ایک نیم شگفتہ سیفوسی لگتی ہے۔ ایسی شاعرات شکارِ آہو پر تلاشِ آہو کو ترجیح دیتی ہیں اور پوری زندگی ایک دشت سراسیمگی میں بسر کر دیتی ہیں ‘‘۔
ایک اور مقام پر شیخ ایاز فرماتے ہیں :
’’شاعری اگر احساس سے مبرّا ہوجائے تو وہ شاعری نہیں رہتی ، صنعت کاری ہوجاتی ہے۔ اس لئے پیرایہ سے قطع نظر صرف وہ شاعری زندہ رہ سکتی ہے جو انسانی احساس سے ہم آہنگ ہو۔عصر حاضر کی انسانی زندگی کے نازک احساسات کا اظہار مرحب کی ان نظموں میں نمایاں ہے۔ آنسو، سوچ کے زخم، سچّے لمحے،مسیحا، زندہ لاشیں ، جس کے سزاوارہیں ہم، کاسہ طلب،بھوکی سماعت،سوداگر انجام ،الوہیات، خواہش، انتخاب، ان احساسات کی ترجمان ہیں۔۔۔۔‘‘
شیخ ایاز کے علاوہ ’’سوکھے پتّے اور پانی‘‘ کے بارے میں جن معتبر و موقّر ادبا و شعرا نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا تھا ، اُن میں حمایت علی شاعر، حسن منظر، عبدالجبار جنیجو،فاطمہ حسن، عبدالقادر جونیجو،تاجدار عادل، جوہر حسین اور دیگر کئی اہم نام شامل تھے۔ چنانچہ اتنی معتبر گواہیوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مرحب قاسمی کا ایک اور شعری مجموعہ منظر عام پر آتا۔ لیکن ہوا یہ کہ ’’کرچیوں میں عکس‘‘نامی ناول شائع ہو گیا۔ جس پر مقتدرادبی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ مرحب قاسمی شاعرہ اہم ہیں یا ناول نگاربہتر؟۔اس کے بعد وہ مترجم کے طور پر سامنے آئیں اور ’’لیر لیر دامن‘‘ کے نام سے سندھی افسانوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر چھپوا ڈالا۔ اس کے بعد ’’سندھو کنارے‘‘ کے نام سے تحقیقی مضامین کا مجموعہ منظر عام پرلائیں ۔ ازاں بعد’’پابجولاں‘‘کے نام سےاردو افسانوں کے مجموعہ نے ادبی حلقوں سے خوب داد پائی۔ ’’چیدہ شنیدہ‘‘مضامین اور خاکوں پر مبنی ایک اور قابل مطالعہ تصنیف مرحب قاسمی کے کریڈٹ پر ہے۔ ’’کھوپڑی کے نیچے پچکا ہوا انسان‘‘افسانوں کا تازہ ترین مجموعہ حال ہی میں منظر عام پر آکر ادبی حلقوں سے داد پا چکا ہے۔ مرحب نے’’تمہارے رستے میں روشنی ہو‘‘کے نام سے بحوالہ کشمیرمعتبر شعرا کے کلام کا ایک انتخاب بھی مرتب کیا اور شائع کروایا۔ ماہنامہ ’’تخلیق‘‘لاہور کا یادگار ’سندھی ادبی و ثقافتی نمبر ‘بھی ترتیب دیا۔’’Female Education in Sindh‘‘مرحب قاسمی کا تحقیقی مقالہ ہے۔جو کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ’’قطار میں ایک شخص اور‘‘(سفرنامہ)،’’نِک سک‘‘(خاکے)، ’’آسمان تلے‘‘(ناول) زیرِ طباعت ہیں ۔ علاوہ ازیں ’’لخت لخت‘‘(مجموعہ منظومات)بھی کتابی شکل میں منظر عام پر آنے والا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(تلخیص)
۱۔ سوکھے پتے اور پانی(شاعری) ۲۔ کرچیوں میں عکس(ناول)
۳۔ لیرلیردامن(تراجم سندھی افسانے) ۴ ۔ سندھوکنارے (تحقیق) ۵۔ پابجولاں( افسانے)
۶۔ چیدہ شنیدہ( مضامین،خاکے) ۷۔سندھی ادبی و ثقافتی نمبر(ماہ نامہ تخلیق لاہور)
۸۔ Female Education in Sindh (تحقیق) ۹۔ تمہارے رستے میں روشنی ہو (انتخاب منظومات بحوالہ کشمیر) ۱۰۔ قطار میں ایک شخص اور( سفرنامہ زیر طبع) ۱۱۔ نک سک (خاکے،مضامین)
۱۲۔ آسمان تلے( ناول زیر طبع) ۱۳۔ لخت لخت(شاعری زیر طبع)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply