تنور۔۔عنبر عابر

اسے نجانے کیوں اپنے تنور سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔اب تو وہ اس کے اندر جھانکتا تو دہشت زدہ ہوکر ایک جھرجھری لے کر رہ جاتا۔حالانکہ تنور میں ڈھیر ساری لکڑیاں جل رہی ہوتیں لیکن وہ کسی گہرے اور تاریک کنویں کے مانند خاموش نظر آتا۔تب اس کا یہی فیصلہ ہوتا کہ اس کا تنور تحت الثریٰ سے مل گیا ہے۔وہ تنور میں روٹیاں لگاتا تو وہ پکنے کا نام نہ لیتیں۔باوجود دوسرے تنوروں کے مقابلے میں زیادہ لکڑی استعمال کرنے کے اس کا تنور ٹھنڈا ہوتا جا رہا تھا۔کیا یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی؟ اسے کچھ اندازہ نہیں تھا۔
وہ جلد ازجلد اس تنور سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا اور اس نے اپنے دوستوں کو کہہ دیا تھا کہ وہ اس کیلئے کوئی گاہک دیکھے جو اس کی دکان خرید لے۔

شہر کے حالات سنگین ہوتے جا رہے تھے اور کئی ماہ سے آسمان کی انجانی سرخی میں ہر روز اضافہ ہو رہا تھا۔کچھ لوگ ان عجیب و غریب علامات کو ہنسی میں اڑا دیتے لیکن جب شام کی تاریکیاں چھانے لگتیں تو ہنسنے والوں کو اپنے قہقہے دماغ میں خوف بھری گونج پیدا کرتے محسوس ہوتے۔کچھ بڑا ہونے والا تھا، کچھ ایسا جو حواس سے ماوراء ہو۔

ایک صبح جب وہ دکان میں آیا تو اس کے تنور سے تیز سرسراہٹ کی آواز آ رہی تھی۔اس نے جلدی سے تنور میں جھانکا اور یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں کہ تنور میں جا بجا دراڑیں اور ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے سوراخ بن گئے تھے۔وہ بھاگم بھاگ گیا اور اس حیرت انگیز واقعے سے سب کو خبر دار کیا۔اس نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔
“ہم ہزار سالوں سے زندہ ہیں میرا یقین کرو کچھ ہونے والا ہے”
لوگوں نے اسے تسلی دی اور فورا ہی چند آدمی ان سوراخوں کو بند کرنے پر کمر بستہ ہوگئے۔تھوڑی دیر بعد وہ تمام سوراخ دوبارہ بند کئے جا چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک شام جبکہ شہر کے لوگ قہقہوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور آسمان پر چھائے سرخ بادلوں سے تابڑ توڑ پانی برس رہا تھا، وہ پانی میں بھیگتا ہوا اپنے تنور کے پاس آیا۔آج وہ اس تنور کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا تھا کیونکہ آج اس نے آسمان میں ہوبہو وہی دراڑیں دیکھی تھیں جو اسے اپنے تنور میں نظر آئی تھیں۔وہ دکان میں آیا اور اپنے تنور میں جھانکنے لگا، تب یہ دیکھ کر اس کا رنگ زرد پڑ گیا کہ اس میں ایک بار پھر دراڑیں پیدا ہوگئی تھیں اور ان دراڑوں سے پانی رس رس کر آرہا تھا۔۔وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اور اندھیری رات میں برسنے والی تیز بارش کے اندر کہیں گم ہوگیا۔
اس رات تنور سے اس قدر پانی نکلا کہ موجیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔منہ زور، فلک بوس موجوں نے طنزیہ قہقہوں سمیت ساری دنیا کو نگل لیا تھا جبکہ ان کے بیچوں بیچ ایک عظیم الشان کشتی کے سوار اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کر رہے تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply