محبت کا الجھا ریشم ( ناول )۔۔۔۔۔۔رضوانہ سید علی/قسط5

گزشتہ قسط:

” افوہ ! بہت دیر ہوگئی ہے ۔ بارات تو آ چکی ہو گی ۔ اب وہاں جانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ۔ ” میں حیران تھی کہ پھر ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ چوبرجی پہنچ کر کوثر نے رکشہ رکوایا ، پیسے ادا کیے اور اتر کر سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی ۔ کچھ ہی دیر میں ایک موٹر سائیکل ہمارے قریب رکی ۔ اس پہ بلا بوٹ ہاؤس کا مالک بلا بھائجان بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔ کوثر نے آگے بڑھ کر اس سے کچھ کھسر پھسر کی پھر مجھے کہنے لگی ۔ ” نمو ! شادی پہ جانے کا تو وقت ہی نہیں رہا ۔ میں تو واپسی کے لیے رکشہ لینے کا سوچ رہی تھی کہ یہ بلا بھائجان آ گیا ۔ کہتا ہے مجھ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔ ابھی چل کر اسکی بات سن لوں پھر گھر واپس چلیں گے ۔ ”
بلے بھائی جان نے ہم دونوں کو لادا اور موٹر سائیکل ملتان روڈ پہ بھاگنے لگی ۔

نئی قسط!

سمن آباد موڑ سے آگے کھیت ہی کھیت تھے ۔ کچھ دور جا کر موٹر سائیکل نے سڑک چھوڑ دی اور ایک کچی پگڈ نڈی پہ اتر گئی ۔ کافی آگے جا کر کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک اکیلا مکان دکھائی دیا ۔ موٹر سائیکل اس کے سامنے جا رکی ۔ اوپر سے ایک آدمی جھانکتا دکھائی دیا ۔ اسی نے آکر دروازہ کھولا اور ہمیں اوپر لے گیا ۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی ایک کمرہ تھا جس میں کونے میں ایک پلنگ لگا تھا ۔ دو کرسیاں اور ایک میز ، کھونٹیوں پہ مردانہ کپڑے اور ادھر ادھر بکھری چند چیزیں ، بس یہی اس کمرے کی کل کائنات تھی ۔ وہ شخص مسلسل ہنسی مذاق کیے جا رہا تھا ۔ ایسا لگتا تھا تینوں پرانے واقف ہیں ۔ اچانک پوچھنے لگا ۔
” یہ لڑکی کون ہے ؟ ”
” یہ نصرت باجی کی بیٹی ہے ۔ تم انہیں ایک دو بار میری دکان پہ دیکھ چکے ہو ۔ ” بلے بھائیجان نے کہا
” ٹھیک ہے ۔ دیکھا ہوگا میں نے ۔ پر یہ تمہارے ساتھ کیوں ؟ ” اس نے پوچھا
” نصرت باجی کو میں نے بہن بنایا ہوا ہے ۔میں اسے ساتھ نہ لاتی تو امی نے مجھے گھر سے نکلنے نہیں دینا تھا ۔ وہ اب مجھے اکیلا کہیں آنے جانے نہیں دیتیں ۔ ” کوثر جلدی سے بولی ۔
” اوہ ! یہ بات ؟ ” وہ کھل کر ہنسا ۔
” تمہاری امی اکیلے آنے جانے نہیں دیتیں اور اسکی امی نے اسے اکیلا تمہارے ساتھ روانہ کر دیا ؟ بہت خوب ! لگتا ہے بڑی ہو کر یہ بھی آسمان سے تارے اتارے گی ۔ ”
میں نے کوثر کی طرف دیکھا ۔ وہ ڈھٹائی سے ہنس رہی تھی ۔ یا تو اس کا دماغ اتنا موٹا تھا یا اسے محاورات کی شُد بُد نہ تھی ۔ پر ہمارے گھر میں تو محاورات ہر ایک کی نوک ِزباں پر تھے ۔ امی تو ایسے ایسے محاورے بولتی تھیں کہ بعد میں مطالعہ وسیع ہونے پر بھی وہ محاورے کبھی میری نظر سے نہ گزرے ۔ میں آسمان سے تارے اتارنے یا توڑنے کا مطلب خوب سمجھتی تھی اور خوب کتابیں پڑھنے کی وجہ سے جانتی تھی کہ کسی جملے میں بھی کا اضافہ کیا معنی رکھتا ہے ۔
بلا بھائیجان پلنگ پہ نیم دراز ہو گیا ۔ میں اور کوثر کرسیوں پہ بیٹھ گئی ۔ اس شخص نے بلا وجہ ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اشارے سے موٹرسائیکل کی چابی مانگی جو بلے نے اسکی طرف اچھال دی ۔ کچھ دیر بعد نیچے سے موٹر سائیکل اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی اور پھر آہستہ آہستہ دور ہوتی ، ہوتی بالکل معد وم ہو گئی ۔ اچانک کمرے میں ایسا گہرا سناٹا ہوا کہ دیوار پہ لگی گھڑی کی ٹک ٹک اور خود میرے دل کی دھک دھک مجھے صاف سنائی دینے لگی ۔ سامنے کھڑکی سے نیلا آسمان اور دور تک پھیلے ہرے بھرے کھیت دکھائی دے رہے تھے ۔ آسمان پہ چیلیں پنکھ پھیلائے ایسی بے نیازی سے تیر رہی تھیں جیسے باد بانی کشتیاں باد بان گرائے ہوا کے رخ چلی جا رہی ہوں ۔ اچانک کچھ کوئے کہیں قریب چلائے اور چڑیوں نے چوں چوں کی تو سناٹے کا طلسم ٹوٹ گیا ۔
کوثر ایک عجب ناز و ادا سے اٹھی ۔ برقعہ اتار کر اس نے کرسی کی پشت پہ ڈال دیا اور میز پہ پڑے جگ سے شربت گلاسوں میں انڈیلا ۔ شربت پینے کے بعد پھر وہی خاموشی کا راج ۔۔۔۔ میں کبھی کھڑکی کی طرف دیکھتی کبھی دیواروں پہ لگے کیلنڈروں یا گھڑی کی جانب ساتھ ہی مجھے لگتا کہ بلا اور کوثر آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے کر رہے ہیں ۔ آخر کوثر نے زبان کھولی ۔ ” نمو ! ذرا میری بات سنو ۔ ” اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔ میں اس کے پیچھے چلی گئی ۔ میرا ہاتھ تھام کر وہ سیڑھیوں سے اترنے لگی ۔ ساتھ ساتھ مجھے سمجھا رہی تھی کہ دیکھو بلے بھائیجان نے مجھ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔ تم خوامخواہ بور ہو جاؤ گی ۔ نیچے والے گھر میں کوئی بھی نہیں ۔ تم کچھ دیر وہاں بیٹھ جاؤ ۔ بس پھر ہم گھر چلے جائیں گے ۔ ٹھیک ہے نا ؟ میری پیاری سی گڑیا ! یہ کہتے کہتے اس نے نیچے اتر کر بیرونی دروازے کی چٹخنی لگائی ۔ مجھے نیچے والے پورشن میں چھوڑا اور خود سیڑھیاں چڑھ کر یہ جا ۔ وہ جا ۔
میں نیچے کا جائزہ لینے لگی ۔ یہ دو کمروں کا مکان تھا ۔ دونوں کمروں کے دروازوں پہ تالے لگے تھے ۔ برآمدے کے ایک کونے میں چھوٹا سا باورچی خانہ تھا ۔ درمیان میں ایک چارہائی بچھی تھی دو تین کرسیاں بھی تھیں ۔ ایک کونے میں پیروں سے چلنے والی سلائی مشین رکھی تھی ۔۔چھوٹے  سے کچے صحن میں مرغیوں کا ڈربہ بنا تھا اور مرغیوں کے کڑکڑانے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ ہینڈ پمپ کے قریب ایک گلاس ٹھونک کر اس میں ٹوتھ برش اور پیسٹ رکھی تھی ۔ باورچی خانے میں جھانکا تو وہ خوب صاف ستھرا تھا ۔ دھلے ہوئے برتن لوہے کے چھنے میں پڑے تھے ۔ ایک کونے میں دھلی منجھی دیگچیاں چمک رہی تھیں ۔ انگیٹھی پہ شیشے کے گلاس اور کپ سجے تھے ۔ مٹی کے تیل کا چولہا بھی صاف ستھرا تھا ۔ پھر میں نے سلائی مشین کی طرف توجہ کی اور زور زور سے اسے چلایا ۔ تھک گئی تو چارپائی پہ جا لیٹی ۔ ادھر ادھر کروٹیں بدلیں پھر اکتا کر صحن کی طرف متوجہ ہوئی ۔ہینڈ پمپ پہ چڑھنے کی کوشش کی تاکہ باہر جھانک سکوں کامیابی نہ ہوئی تو ٹوتھ پیسٹ کی شامت لے آئی بار بار انگلی پہ جما کر دانتوں پہ ملتی اور ہینڈ پمپ چلا کر کلیاں کرتی ۔ جب ٹیوب میں پیسٹ کا نام و نشان نہ رہا تو پھر ہینڈ پمپ چلا چلا کر پانی کی موٹی دھار نکلتی دیکھتی رہی ۔ قریب ہی ایک چھوٹی سی کیاری میں موتیا لگا تھا اسکے تمام پتے توڑ کر اسے گنجا کر دیا ۔ شاید یہ جھلاہٹ کی انتہا تھی ۔ مجھے ہر دم کوئی مصروفیت درکار تھی اور سب سے بڑی مصروفیت تھی مطالعہ ۔ اگر وہاں کوئی کتاب ، رسالہ یا اخبار ہی ہوتا تو پھر معاملہ کچھ اور ہوتا ۔

ایک مرتبہ پھر میں چارپائی پہ جا بیٹھی اور پاؤں ہلا ہلا کر سوچنے لگی کہ اب کیا کروں ؟ اچانک میرے نتھنوں سے ایک اشتہا آمیز خوشبو ٹکرائی اور میرے پیٹ میں بگولہ سا اٹھا ۔ میں بھوکی بھی تھی ۔ اسی وقت کوثر چراغ کے جن ( ویسے پری کہنا زیادہ مناسب ہے ، چڑیل بھی کہا جا سکتا ہے ) کی طرح نمودار ہوئی ۔ اسکے ہاتھ میں ایک پلیٹ تھی ۔ جس میں نان کے ساتھ پکوڑے اور تلی مچھلی کا چھوٹا سا ٹکڑا رکھا تھا ۔ مجھے یاد آیا کہ چکنائی کے دھبوں والا تھیلا بلے بھائیجان کی موٹر سائیکل کے ہینڈ ل سے لٹک رہا تھا ۔ کوثر نے پلیٹ میرے ہاتھ میں تھمائی اور میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔ “تم کھانا کھا لو ۔ بس پھر سیدھے گھر چلیں گے ۔ “مجھے کھانا اور دم دلاسا دے کر وہ پھر سیڑھیوں پہ غروب ہو گئی ۔ میں نے کھانا کھایا ۔ باورچی خانے سے گلاس لے کر ہینڈ پمپ سے پانی پیا ۔ کچھ دیر چارپائی پہ بیٹھی رہی اور پھر جانے کیا سوچ کر ایک مرتبہ پھر ہینڈ پمپ کی طرف آئی اور اسکی ہتھی پہ پاؤں جمانے  کی کوشش کرنے لگی ۔ میں دراصل دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا مکان کے پیچھے بھی کھیت ہیں ۔ پر کامیاب نہ ہو سکی ۔ آخر میں نے مرغیوں کے ڈربے کا دروازہ کھول دیا ۔ پر پھڑ پھڑاتی ، کٹ کٹ کٹاک کرتی مرغیوں نے کچے صحن میں مٹی کا طوفان اٹھا دیا ۔ مرغ دیوار پہ چڑھ کر بانگیں دینے لگے ۔ کچھ مرغیاں چارپائی پہ جا چڑھیں، کچھ نے سلائی مشین کو ہدف بنایا اور کچھ باورچی خانے میں جا گھسیں ۔ ( ہائے اب خیال آتا ہے کہ اس روز واپسی پہ گھر والوں پہ کیا گزری ہو گی ۔ )میں گھبرا کر سیڑھیاں چڑھ گئی ۔ اوپر دروازوہ بند تھا ۔ میں نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی پر نہ کُھلا ، ایک دو ہاتھ بھی مارے آخر پھر نیچے آ گئی ۔ باہر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی پر کنڈی تک ہاتھ نہ پہنچا ۔ سوچا کرسی لا کر اس پہ چڑھ کر کنڈی کھولنی چاہیے ۔ افسوس یہ خیال پہلے نہ آ سکا جب ہینڈ پمپ پہ چڑھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اچانک اوپر کھٹر پٹر ہوئی ۔ ” ہم آرہے ہیں نمو ! بس آرہے ہیں ۔ لو آگئے ۔ ” کوثر کی گھبرائی گھبرائی آواز سنائی دی اور پھر وہ نیچے اتر آئے ۔ پگڈ نڈ ی ہم نے پیدل عبور کی اور سڑک پہ آتے ہی رکشہ مل گیا ۔ چوبرجی پہ بلا بھائیجان اتر گیا ۔۔۔اب کوثر پھر خود کلامی کرتے ہوئے میری برین واشنگ کرنے لگی ۔ ” شادی پہ جانے کا وقت ہی نہیں رہا تھا ۔ ہم تو واپس جاتے پر اتفاق سے بلا بھائیجان مل گئے ۔ انہیں مجھ سے ضروری کام تھا ۔ اس لیے  جانا پڑا ۔ وہ بیچارے بہت مصیبت میں ہیں ۔ مجھ سے صلاح مشورہ کرنا چاہتے تھے ۔ پر اماں کو یہی بتانا ہے کہ ہم شادی پہ گئے تھے ۔ میں تمہیں پہلے اپنے گھر لے کر جاؤں گی تا کہ انہیں میری بات پہ یقین آ جائے ۔ رکشہ کوثر کے گھر کے عین سامنے رکا ۔ دروازے پہ ایک بڑی بی کھڑی بے چین نظریں ادھر ادھر دوڑا رہی تھی ۔ ” ہن آئیں ایں  ؟۔۔ ایہہ ویلا اے آن دا ؟ ” ( اب آئی ہے ؟ یہ بھلا کوئی وقت ہے آنے کا ؟ ) ان کی غصیلی آواز کانوں سے ٹکرائی ۔ ” اوہ میرئیے مائے ! مینوں ساہ تے لین دوو ۔ ہنے دسنی آں ساری گل ” ( او میری ماں ! مجھ سانس تو لینے دے پھر ساری بات بتاتی ہوں ) کوثر نے رکشے والے کو پیسے ادا کرتے ہوئے کہا اور اندر گھس گئی ۔ ” تو نصرت کی بیٹی ہے ؟ ” بڑی بی نے مجھ سے پوچھا اور میرے سر ہلانے پہ مجھے اندر لے گئی ۔ باورچی خانہ سامنے ہی تھا ۔ ایک چولہے پہ کھانا پک رہا تھا دوسرے پہ توا رکھا تھا ۔ کوثر کی امی نے مجھے ایک پیڑھی پہ بٹھایا ۔ دوسری پہ خود بیٹھ گئی ۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی ۔ ماتھے پہ سو بل پڑے تھے ۔ کچھ دیر میں کوثر نیچے اتر  آئی ۔ چہرہ دُھلا ہوا ۔ گھر کے کپڑوں میں بہت تر وتازہ لگ رہی تھی ۔ وہ پیڑھی گھسیٹ کر میرے قریب بیٹھ گئی ۔ ” کیا پکایا ہے اماں ! بڑی بھوک لگ رہی ہے ۔ ” ” کیوں شادی کے گھر سے بھوکی آئی ہے کیا ؟ ” اماں نے تنک کر پوچھا ساتھ ہی توے پہ روٹی ڈال دی ۔ ” اور کیا امی جی ۔ اتنی پکی سہیلی کی شادی میں نوالہ حلق سے اترتا ہے ؟ سب اتنا رو رہے تھے ۔ سلیمہ تو جیسے بیہوش ہوئی جا رہی تھی ۔ اسکی اماں پہ الگ غشی کے دورے پڑ رہے تھے ۔ ویسے جنج بہت دیر سے آئی تھی ۔ رخصتی پہ تو اسکے بھائی اور ابا بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ کیوں نمو ؟ “۔۔۔۔۔ میری آنکھیں کھلی  کی کھلی رہ گئیں ۔ میں نے تو ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا تھا ۔ اماں نے روٹی توے سے اتاری ۔ دیسی گھی چپڑا ۔ دیگچی سے سالن نکالا ۔ کسی سبزی کی بھجیا تھی ۔ اب کیا سماں باندھا کوثر نے ۔ گرم گرم دیسی گھی چپڑی روٹیاں اڑائے جا رہی ہے ۔ سالن کی پلیٹوں پہ پلیٹیں خالی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ کسی شادی کا آنکھوں دیکھا حال نشر کرتی چلی جا رہی ہے ۔ دلہن کیسی لگ رہی تھی ، بارات کتنی شاندار تھی ۔ کتنا جہیز تھا ۔ بری میں کیا کچھ آیا ۔ دلہن پہ کتنا روپ تھا ۔ اسکے کپڑے اور سج دھج کیسی تھی ساتھ ہی ساتھ کیوں نمو ؟ ۔۔کی گردان جاری تھی ۔ مجھے تو خود لگنے لگا کہ آج کا دن میں ایک عجب آسیبی ویرانے میں نہیں تھی بلکہ ایک شاندار شادی میں شریک تھی ۔ آخر اسکی امی نے اکتا کر بات بدلی اور میرے سامنے گرم روٹی رکھتے ہوئے بولی ۔ ” دھیے ! تو کتنی پیاری ہے ۔ بھولی اور چپ چاپ سی ۔ ہائے پتہ نہیں سوتیلی ماں تجھے کیسا کھانا دیتی ہو گی ۔ تیرا جب جی چاہے تو میرے پاس آ جایا کر ۔ میری اچھی بیٹی ! ” میری تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کس سوتیلی ماں کا ذکر ہو رہا ہے ۔ میں پھر چپ رہی ۔۔

آخر ہمت کر کے کوثر سے کہا ۔ ” کوثر باجی ! مجھے گھر جانا ہے ۔ ” ” ہاں بھیج اسے ۔ اندھیرا سر پہ کھڑا ہے ۔ ” اس کی اماں نے میری تائید کی ۔ کوثر مجھے لے کر دروازے تک آئی اور میری مٹھی میں ایک نوٹ دبا کر بولی ۔ تم بھی اپنی امی کو یہی سب بتانا اور یاد رکھو بلے بھائیجان کا تو بالکل ذکر نہ کرنا ۔ ورنہ وہ تمہیں دوبارہ کبھی میرے ساتھ نہیں آنے دیں گی ۔ بس آج سے تم میری چھوٹی بہن ہو ۔ میری امی نے بھی تمہیں اپنی بیٹی بنا لیا ہے ۔ بس اب تمہارے مزے ہی مزے ہیں ۔ ” باجی ! یہ پیسے واپس لے لیں ۔ میری امی ڈانٹیں گی ۔ ”
” ہے نا پاگل ۔ بھلا امی کو بتانے کی کیا ضرورت ؟ ارے کل سکول میں خوب موج کرنا ۔ جاؤ شاباش ۔ بھاگ جاؤ ۔ ” اور میں نے واقعی یوں دوڑ لگا دی جیسے پنجرے سے چھٹا پنچھی ۔

گھر پہنچی تو امی چولہے کے قریب پریشان بیٹھی تھیں ۔ میں نے مٹھی کھول کر نوٹ ان کے سامنے رکھا اور دن بھر سے بند میری زبان قینچی کی طرح رواں ہو گئی اور میں بلا کم و کاست ساری رو داد دہرا دی ۔ بلے کے دوست نے جو گل فشانیاں کی تھی اور کوثر کی اماں نے جو ترس کھایا تھا ۔ اس پہ امی کی آنکھوں میں کچھ بجلیاں سی لہرائیں وگرنہ ان کے چہرے پہ ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا ۔ آخر انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور دیر تک خاموش بیٹھی رہیں ۔ دن بھر کی کلفت جاتی رہی اور میں ہلکی پھلکی ہو گئی ۔

اگلے روز میں سکول سے واپس آئی تو محفل میں کوثر کا مسئلہ زیر غور تھا ۔ زیادہ تر توپوں کا رخ امی کی طرف ہی تھا کہ نصرت پانچ بچوں کی ماں ہو کر تجھے کچھ سمجھ نہیں ۔ کل کی لونڈیا تجھے بیوقوف بنا گئی ۔ ارے اگر اتنی ہی کوثر کی محبت چھلک رہی تھی تو خود ساتھ چل پڑتی ہائے ہماری نمو ۔ شکر کر بچی بخیر و عافیت آ گئی ۔ نصرت جاتی تو پھر تو کوثر واقعی سہیلی کی شادی میں ہی جاتی ۔ ارے جانے شادی تھی بھی کہ نہیں ۔ کون جانے سہیلی تھی کہ نہیں ۔ رفتہ رفتہ معاملے کی سنگینی کم ہوئی اور شگوفے بازیوں کے ساتھ ساتھ قہقہے اڑنے لگے اور فیصلہ یہ ہوا کہ کوثر کو بلا کر اس کی مزاج پرسی کی جائے اور بلے کی بھی طبعیت  صاف کی جائے ۔

ایک دو روز میں کوثر دانت نکالتی آ گئی ۔ شاید  اسے اپنے لال نوٹ پہ پورا بھروسہ تھا پر یہاں کا رنگ دیکھ کر اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا اور حلق خشک ہو گیا ۔ مجرموں کی طرح سر جھکائے بیٹھی رہی ۔ امی نے اسکا سو کا نوٹ اسکے منہ پہ مارا اور اسے کہا کہ سب سے پہلے یہ بتا کہ تیری ماں نے سوتیلی امی کسے کہا اور کیوں ؟ وہ ڈرتے ڈرتے بولی ۔ ” میں نے انہیں یہ بتایا تھا کہ بس گود کی بیٹی تمہاری ہے ۔ باقی بچے تمہارے شوہر کی پہلی بیوی کے ہیں ۔ اگر میں یہ کہہ دیتی کہ سارے بچے تمہارے ہیں تو وہ مجھے کبھی تمہارے سے دوستی نہ کرنے دیتی کہ بڑی عمر کی عورت سے تمہارا کیا کام ؟ ”

” لو باتیں سنو ذرا اسکی ۔ بڑی عمر کی عورت سے دوستی نہیں ہو سکتی ، اکیلی تم کہیں جا نہیں سکتیں اور اسکے لچھن ذرا دیکھو ، دیدہ دلیری ملاحظہ  فرماؤ ۔ کیا دھول جھونک رہی ہے ماں کی آنکھوں میں ۔ نہ تو بلا بھائیجان بلا بھائیجان کہتے کہتے تھکتی نہیں اور اندر سے یہ کرتوت ؟ تونے تو مجھے بتایا تھا کہ تیری بچپن میں ہی منگنی ہو گئی تھی ۔ دو تین سال پہلے نکاح بھی ہو چکا ہے تاکہ تیرا انگلینڈ میں رہنے والا میاں کاغذات بنوا لے اور تجھے رخصت کروا کر ساتھ لے جائے ۔ اور اب تو اپنی اماں کی ناک کے عین نیچے یہ کرتوتیں گھول رہی ہے اور وہ اتنی سخت گیر اور نگران ہونے کے باوجود بے خبر بیٹھی ہے ؟ ” اماں کی طویل تقریر  کے دوران وہ دم سادھے بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر امی کے پیر پکڑ لیے اور رو رو کر معافیاں مانگنے لگی ۔ ” باجی ! میری اماں کو کچھ نہ بتانا وہ میری ٹانگیں توڑ دے گی ۔ جان سے مار دے گی ۔ باجی تجھے تیرے بچوں کا وا سطہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا خدا کرکے یہ معاملہ ختم ہوا اور پھر امی نے بلے کی دکان کا راستہ لیا اور اسے جا پکڑا ۔ جونہی اسے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا ۔ وہ ہاٹھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا ۔ امی نے کھری کھری اسے سنائیں اور اسکے دوست کو بھی اور کہا کہ اگر وہ میرے سامنے ہوتا تو مار مار کے اس کا سر گنجا کر دیتی ۔ کوثر نے مجھے بیوقوف بنایا اور وہ بغیر کچھ جانے بوجھے میری بیٹی کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے لگا ۔” بلے نے دکان ملازم لڑکوں کے حوالے کی اور امی کو پچھلی سیڑھیوں سے اوپر اپنے گھر لے گیا ۔ کھلے صحن میں اسکے چار پانچ بچے کھیل رہے تھے ۔ خوب گورے گورے گل گتھنے سے ۔ اسکی بیوی کو دیکھ کر تو امی مبہوت رہ گئیں ۔ وہ کشمیری حسن کا شہکار تھی ۔ سرخ سیب جیسے گال ، لمبے سنہرے بال اور چہرے پہ بلا کی معصومیت ۔ بلے نے اسے چائے بنانے کو کہا تو امی سے سلام دعا لے کر وہ چائے بنانے چلی گئی ۔ ” بلے ! خدا تجھے غارت کرے اتنی حسین بیوی کو چھوڑ کر اس پچھل پیری پہ تو فدا ہے ؟ تیری عقل گھاس چرنے گئی ہے ؟؟ تجھے کوئی سمجھانے والا نہیں ؟؟؟

” باجی ! میں بچپن سے ابا کے ساتھ دکان پہ بیٹھ رہا ہوں ۔ اٹھارہ سال کا تھا جب پھوپھی کی بیٹی سے میری شادی ہو گئی تھی ۔ میں نے کبھی کسی عورت یا لڑکی سے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کی پر کوثر نے جانے کیا منتر پھونکا ہے کہ میں دیوانہ ہو گیا ہوں ۔ چار سال سے یہ چکر چل رہا ہے ۔ نہ جینے دیتی ہے نہ مرنے ۔ چھوڑتی بھی نہیں اور پلہ بھی نہیں پکڑاتی ۔ یہ میری بیوی سب جانتی ہے پر نیک بخت نے آج تک زبان نہیں کھولی ۔ میں خود ہی شرمندہ ہو ہو کر سوچتا ہوں کہ اب کوثر سے نہیں ملوں گا پر اسکا پیغام ملے یا وہ خود سامنے آئے تو سدھ بدھ کھو بیٹھتا ہوں ۔ ” ا می افسوس کرتی واپس آئیں اور اپنی طرف سے یہ باب بند کر دیا یعنی پھر ان دونوں سے کوئی رابطہ نہ رکھا ۔ کافی عرصہ گزر گیا ۔ کوثر اور بلا خواب و خیال ہو گئے ۔ ایک دن اچانک کوثر کی اماں ہمارے گھر آ گئی ۔ میں نے فوراً پہچان لیا اورسلام کیا ۔ اس نے جواب دیتے ہوئے امی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ۔ ” یہ تیری امی ہے ؟ ”

” جی ” میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ فوراً ان کی طرف مڑی ۔ ” نصرت ! غور سے سن ۔ میں سب جانتی ہوں ۔ تو بلے کی بہن بنی ہوئی ہے اور اپنے گھر میں اسکی میری بیٹی سے ملاقاتیں کرواتی ہے ۔ میں تجھے تباہ کر دوں گی ۔ تو مجھے جانتی نہیں کہ میں کون ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”

امی تو غصے سے آگ بگولہ ہو گئیں ۔ ” تو مجھے نہیں جانتی اور نہ ہی میرے خاندان کو ۔ میں نے تیری بیٹی کا پردہ رکھا اور تو مجھی پہ چڑھ دوڑی ۔ پر بڑی دیر سے ہوش میں آئی ہے تو ۔ لگتا ہے تیری بیٹی نے کوئی چاند چڑھا ہی دیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اسی وقت امی کی کچھ سہیلیاں آ گئیں اور بڑھیا موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے بکتی جھکتی چلی گئی ۔ سب پریشان تھیں کہ باسی کڑھی میں ابال کیسا ؟ پر شام ہوتے ہوتے عقدہ کھل گیا کہ معاملہ سنگین ہے کیونکہ اندھیرا گہرا ہوتے ہی بلے نے بہت آہستگی سے ہمارے دروزے پہ دستک دی اور امی سے کہا کہ باجی بات لمبی ہے ۔ تم کل میرے گھر آ جاؤ ۔ امی اسکے گھر گئیں ۔ اسکی بیوی کے سر پہ ہاتھ پھیرا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے جنہیں وہ چھپاتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی ۔ بلے نے بتا یا کہ کوثر نے مجھے کبھی نہیں بتایا تھا کہ اس کا نکاح ہو چکا ہے ۔ وہ مجھے پاگل بنائے چلی جا رہی تھی ۔ میں ہوش وخرد سے بیگانہ اسکے اشاروں پہ ناچ رہا تھا کہ ایک روز اسکی ماں نے ہمیں پکڑ لیا ۔ اسی نے بتایا کہ یہ نکاح یافتہ ہے اور اب رخصتی بھی ہونے والی ہے ۔ اس نے مجھے بہت ڈرایا دھمکایا ، لالچ دیے کہ میں کوثر کے خط اور تصویریں لوٹا دوں ۔ میں اسکے کسی دباؤ میں نہیں آیا تو اس نے پھر کوثر کو آگے کر دیا ۔ کوثر رو رو کر دہائیاں دینے لگی کہ میری ماں ظالم ہے وہ دولت کے عوض مجھے بیچ دے گی ۔ اس نے مجھ پہ کڑے پہرے بٹھا دئیے ہیں ۔ تم خط اور تصویریں لوٹا دو ۔ میں اسکے سامنے جلا دوں گی تو وہ مجھ پہ بھروسہ کرنے لگے گی ۔ پھر میں چپکے سے ایک روز نکل آؤں گی ۔ ہم شادی کر کے یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے ۔ میرا کوئی نکاح وکاح نہیں ہوا ۔ وہ جھوٹ بولتی ہے ۔” وہ یہ سب نہ بھی کہتی تب بھی مجھے اسکے سامنے انکار کی مجال کہاں ہے ۔ اسکے بعد دونوں ماں بیٹیاں غائب ہو گئیں اور میں مجنوں بنا اسکی گلی کے چکر لگاتا رہا ۔ آخر معلوم ہوا کہ گاؤں جا کر کوثر کی رخصتی بھی ہو گئی اور وہ انگلینڈ بھی سدھار گئی ۔ پرسوں ہی یہ بڑھیا واپس لوٹی ہے ۔ کل یہ گھر سے نکلی تو میں نے اس کا پیچھا کیا ۔ آپ کے گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو میرا دماغ پھر گیا ۔ میں اسے وہیں پکڑ لیتا ۔ پر آپ کی عزت کو خاموش رہا ۔ اسی لیے  اندھیرے میں آپکے دروزے پہ دستک دی کہ کوئی دیکھ نہ لے ۔ باجی ! وہ کیوں آئی تھی ؟”

” وہ مجھے دھمکا رہی تھی اور تم لوگوں کی کرتوتوں کا ذمہ دار مجھے ٹھہرا رہی تھی ۔ ”
” میں اسے چھوڑوں گا نہ اسکی بیٹی کو ۔ محبت میں تو اس نے مجھے لوٹ لیا پر دھوکے بازی برداشت نہیں کروں گا ۔ میں نے دکان بیچ دی ہے ۔ بیوی بچوں کو پیچھے بھجوا رہا ہوں ۔ میں جلد لندن جاؤں گا اور کوثر جہاں کہیں ہو گی اسے دھونڈ نکالوں گا ۔ ” امی نے اسے کچھ سمجھانے کی کوشش کی مگر اسکی آنکھوں کی وحشت نے انہیں کچھ نہ کہنے دیا ۔ وہ چائے زہر مار کر کے خاموشی سے لوٹ آئیں ۔

آنے والے دنوں میں علاقے میں نہ بلا رہا نہ کوثر کی ماں یوں اس کہانی کا انجام اندھیروں میں رو پوش رہا ۔ لیکن میں اپنے ارد گرد ایسی لاتعداد کہانیوںکو جیتا جاگتا ، سانس لیتا دیکھ رہی تھی ، محسوس کر رہی تھی ۔

نوٹ : محبت کے ریشیم کے اس الجھے ڈھیر میں کیا کچھ چھپا ہے اور اس سے برآمد کیا ہو گا ؟ یہ جاننے کے لئے آپ کو میرا ناول کتابی شکل میں پڑھنا ہو گا ۔ میری تحریر کی پذیرائی کرنے والوں کو میرا محبت بھرا سلام ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply