قصّہ ایک رات کا/ارشد ابرار

” بولنے کیلئے اللہ نے سب کو زبان دی ہے ۔ مگر تمہیں پتا ہے مانوی کی آنکھیں کلام کرتی تھیں ۔

پورے گوٹھ میں ایسی آنکھیں کسی کی بھی نہیں ہوں گی۔جیسی مانوی کی تھیں ، گہری سبز بولتی آنکھیں ”

” آنکھیں کیسے بولتی ہیں اماں ۔۔۔؟ ” ماں کے بازو پر سوئی کالی آنکھوں والی بارہ سالہ بچی کی آنکھیں حیرت سے بھر گئیں۔
” بولتی ہیں ۔ جیسے تمہارا چہرہ سب کو کھینچتا ہے ویسے” معصوم چہرے پر ممتا بھرے بوسے کا لمس محسوس کرتے ہوئے بچی نے ماں کی آواز کانوں میں اُتاری،
” اچھا پھر ۔۔۔ پھر کیا ہوا تھا اماں  ؟ ”
” ہم تمہارے برابر تھیں تب۔ ایک دن ہم مانوی کے آنگن میں اپنی گڑیوں سے کھیلنے میں مگن تھیں کہ آنگن میں اُگے پیپل کے درخت پر ایک چڑیا منڈلانے لگی ۔ چوں ، چوں ، چوں ۔۔۔
وہ پھڑپھڑاۓ جاتی ، چوں چوں کرتی جاتی ۔ ”

” کیوں اماں ۔۔۔ کیا ہوا تھا چڑیا کو ؟

” یہی سوال مانوی کا بھی تھا ۔ تو اُس کی اماں نے بتایا کہ چڑیا کے بچوں کو سانپ نے نگل لیا ہے ۔ اسے درد ہے اپنے بچوں کا ۔ ”
” بچوں کا درد کیسا ہوتا ہے اماں ۔۔۔؟ ” آج کی رات بچی کی حیرانی سَوا تھی
” سب سے بڑا درد ہی بچوں کا ہوتا ہے ” بچی کو اپنی پیشانی پر ایک اور ممتا بھرے بوسے کی ٹھنڈک محسوس ہو ئی،
” پھر بس ۔۔۔؟ ”
” ہاں پھر بس ۔۔۔۔ کیونکہ اگلے دن وہ چڑیا اپنا گھونسلہ چھوڑ گئی اور واپس کبھی نہیں آئی ۔ ایک ایک کر کے کتنے سال گزر گئے ، ہم دونوں جوان ہو گئیں تب بھی چڑیا کبھی واپس نہیں آئی ”
” اور مانوی ۔۔۔ وہ ؟ ”
” اس کی تو آنکھیں کلام کرتی تھیں ۔ وہ بھی میرے ساتھ جوان ہوئی ۔ پر ہم دونوں کی بلوغت میں ایک تفریق تھی ، آنکھوں کی۔ میری آنکھیں گونگی تھیں مانوی کی سارا دن بولتی رہتی تھیں ۔ ”
” پر اماں آنکھوں کی تو زبان نہیں ہوتی نا ۔ آنکھیں کیسے بول سکتی ہیں ؟ ” اب کے بچی  جھنجھلا  گئی
” بولتی ہیں بیٹا ۔ تمہیں سمجھ آ جائے گی کبھی ۔ پر مجھے اب ڈر لگا رہتا ہے ”
” کیوں۔۔۔ ڈر کیسا اماں ۔۔۔؟ ”
” کیونکہ تمہارا چہرہ کھینچتا ہے ۔۔۔ اپنی طرف ” ۔ بچی نے اپنا چہرہ چھو کے دیکھا ۔ اسے تو کچھ بھی الگ نہیں لگا اپنے خدوخال میں
” رانی اور شادو جیسا ہی تو ہے۔ پتا نہیں اماں آج کیسی کہانی سنا رہی ہے “ من ہی من میں وہ سوچے گئی ۔۔

” اچھا پھر آگے سناؤ نا اماں ۔۔۔ کیا ہوا پھر ”
” پھر ایک دن ” سائیں ” کے بیٹے نے مانوی کی کلام کرتی آنکھوں کو سُن لیا ۔۔۔ ”
” وہ کیسے ۔۔۔؟ ” حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔۔

” ہم گھڑا بھر کے واپس آ رہی تھیں کہ ” سائیں ” کے بیٹے سے ٹکراؤ ہو گیا ۔ اُس کے منہ میں پانی آگیا اور مانوی کا پانی سے بھرا گھڑا وہیں گر کے ٹوٹ گیا ۔۔۔ اتنے سارے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھر گئے ”
” اور آپ ۔۔۔؟ ”
” میری بھی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔ پر میری آنکھیں تو گونگی تھیں نا اس لیے وہ مانوی کو پکڑنے کیلئے اس کے پیچھے پیچھے بھاگا۔ ”
” پھر ۔۔۔؟ ” مقناطیسی چہرے والی لڑکی کے اشتیاق میں قدرے اضافہ ہونے لگا ۔ کہانی اچھی لگنے لگی تو وہ ماں کے بازو سے سر اٹھا کے اٹھ بیٹھی اور اس کی آنکھیں آگے کی کہانی پوچھنے لگیں ۔ پر بچی کا چہرہ مقناطیسی تھا آنکھیں تو اس کی بھی گونگی تھیں بالکل اپنی ماں کی طرح ۔
پورے گوٹھ میں بولتی آنکھوں والی تو صرف مانوی ہی تھی۔۔

” پھر رات کو مانوی کے ابا کا بلاوا آگیا ۔ ” سائیں ” کے بلاوے پر حمید چچا بھاگا بھاگا پہنچا اور ڈیرے پر جا کے سانس لی ۔ وہاں سائیں کے بیٹے نے ایک رات “کھیلنے” کیلئے ” مانوی ” مانگ لی ۔ ”
” پر مانوی تو لڑکی تھی ۔ کھلونا تو نہیں ” معصومیت اپنےعروج پر آ پہنچی
“ہمارے گوٹھ میں غریب کی عزت کھلونے سے بڑھ کے بھی تو نہیں ہوتی ۔ جب بھی دل چاہے کھیل لو ۔۔۔ ”
“تو کیا چچا نے مانوی کو دے دیا ۔ ؟؟؟ ” بچی کے لفظوں نے بھی تحیرّ کی قبا اوڑھ لی
” نہیں۔۔ ۔ حمید چچا اس رات وہاں سے واپس ہی نہیں آئے وہ وہیں ساری رات سائیں  کے پاؤں پکڑے بیٹھے رہے ۔ دوسری صبح آئے تو اسی پیپل کے درخت سے مانوی گلے میں دوپٹہ کسے لٹکی ہوئی تھی ۔ میں اور نوراں چچی نیچے بیٹھے رو رہے تھے ۔ ”
” مانوی کیوں لٹکی ہوئی تھی ۔ ”
” کیونکہ اُس نے پھانسی کھا لی تھی ”
” پھانسی کیوں کھائی اماں ۔۔۔۔؟ ” بچی کی حیرت میں پھر اضافہ ہونے لگا
” جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو تمہیں پھر سمجھاؤں گی ۔ اب سو جاؤ تم رات بہت گہری ہو گئی ہے ” ماں نے بچی کو پھر اپنے بازو پر لٹا دیا ۔ اپنے دائیں ہاتھ سے اس کی گونگی آنکھیں بھی بند کر دیں اور خود بھی کروٹ بدل کے آنکھیں موند لیں ۔ مگر بند آنکھوں کے پیچھے سے بھی درخت سے جھولتی ہوئی، بولتی آنکھوں والی ایک جواں سال لڑکی کی لاش صاف دکھائی دینے لگی ۔

گہری تاریک اور خاموش رات بلی کی طرح بِنا چاپ کیے دبے پاؤں گزر رہی تھی کہ باہر کسی کُتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی ۔ تاریکی باقی تھی مگر خاموشی کو کتے کی آواز نے پاش پاش کر دیا

” اماں !حمید چچا اور نوراں چچی کہاں ہیں اب ” چھت کو گھورتی مقناطیسی چہرے والی لڑکی ابھی تک وہیں کہانی میں کہیں اٹکی ہوئی  تھی ۔ اماں نے بھی آنکھیں کھول کر دوبارہ بیٹی کی طرف کروٹ بدل لی
” وہ دونوں تو کچھ دن بعد ہی گوٹھ چھوڑ کے چلے گئے تھے ۔ پھر کبھی واپس ہی نہیں آئے جیسے وہاں آنگن میں لگے پیپل کے درخت پر کبھی چڑیا واپس نہیں آئی تھی ۔
میں روز اپنی دیوار کے پار سے جھانکا کرتی  تو مانوی کا گھر سنسان پڑا ملتا تھا اور پھر پیپل کا درخت بھی آہستہ آہستہ سوکھنے لگا ۔ ”
” اور مانوی کی لاش  ۔ اس کا کیا ہوا تھا اماں “؟
” اسے تو دفنا دیا گیا تھا اسی شام ۔۔۔ حمید چچا کی فریادوں اور نوراں چچی کی چیخوں کی طرح ”
” اور مانوی کی آنکھیں۔۔۔۔ ؟ ”
” وہ پھر چپ ہو گئی تھیں ، ہمیشہ کیلئے ۔۔۔ پھر کبھی کلام ہی نہیں کیا اُس کی آنکھوں نے ”
” پر آنکھیں تو کلام نہیں کرتی نا اماں ۔۔۔۔ مانوی کی آنکھیں کیسے بولتی تھیں ۔۔۔ مجھے بتاؤ ؟ ”
” وہ پورے گوٹھ سے الگ تھی نا ۔ گوٹھ کی لڑکیوں میں صرف اُس کی آنکھیں بولتی تھیں ۔ اپنی طرف بلاتی تھیں ۔ جیسے تم الگ ہو ۔ تمہارا چہرہ کھینچتا ہے سب کو ۔۔۔ ”
بچی کا ہاتھ ایک بار پھر اپنے چہرے تک آیا
“اچھا ۔۔۔ اماں ۔۔۔ حمید چچا اور نوراں چچی کہاں چلے گئے تھے ؟ ”
” جہاں کچھ دن بعد ہم جائیں گے ۔۔۔ “
” کہاں ۔۔۔؟ “
”یہاں سے ہجرت کرکے ۔۔۔ کہیں بھی ” ماں کے درد بھرے لہجے میں ہجرت کی تھکن ابھی سے اتر آئی۔۔
“لیکن ہم کہاں جائیں گے اماں۔۔۔۔۔۔ ؟ ” حیرت زدہ بچی کی گونگی آنکھوں کے گوشوں میں پڑاؤ ڈالتی نیند پُھر  سے کہیں دور اُڑ گئی ۔ وہ اپنے حیرت زدہ مقناطیسی چہرے کے ساتھ پھر اٹھ بیٹھی
” جہاں نوراں چچی اور حمید چچا گئے تھے ۔۔۔ اور جہاں وہ چڑیا ہجرت کر گئی تھی ۔۔۔ ”

Advertisements
julia rana solicitors

” پر کیوں اماں ۔۔۔ ہم کیوں ہجرت کریں گے ۔۔۔؟؟؟ ”
” کیونکہ بچوں کا درد بہت ” بڑا ” ہوتا ہے ۔ اور تمہارا چہرہ بہت کھینچتا ہے ۔ اب سو جاؤ کل تیاری بھی کرنی ہے ہجرت کیلئے ۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply