” بولنے کیلئے اللہ نے سب کو زبان دی ہے ۔ مگر تمہیں پتا ہے مانوی کی آنکھیں کلام کرتی تھیں ۔
پورے گوٹھ میں ایسی آنکھیں کسی کی بھی نہیں ہوں گی۔جیسی مانوی کی تھیں ، گہری سبز بولتی آنکھیں ”
” آنکھیں کیسے بولتی ہیں اماں ۔۔۔؟ ” ماں کے بازو پر سوئی کالی آنکھوں والی بارہ سالہ بچی کی آنکھیں حیرت سے بھر گئیں۔
” بولتی ہیں ۔ جیسے تمہارا چہرہ سب کو کھینچتا ہے ویسے” معصوم چہرے پر ممتا بھرے بوسے کا لمس محسوس کرتے ہوئے بچی نے ماں کی آواز کانوں میں اُتاری،
” اچھا پھر ۔۔۔ پھر کیا ہوا تھا اماں ؟ ”
” ہم تمہارے برابر تھیں تب۔ ایک دن ہم مانوی کے آنگن میں اپنی گڑیوں سے کھیلنے میں مگن تھیں کہ آنگن میں اُگے پیپل کے درخت پر ایک چڑیا منڈلانے لگی ۔ چوں ، چوں ، چوں ۔۔۔
وہ پھڑپھڑاۓ جاتی ، چوں چوں کرتی جاتی ۔ ”
” کیوں اماں ۔۔۔ کیا ہوا تھا چڑیا کو ؟
” یہی سوال مانوی کا بھی تھا ۔ تو اُس کی اماں نے بتایا کہ چڑیا کے بچوں کو سانپ نے نگل لیا ہے ۔ اسے درد ہے اپنے بچوں کا ۔ ”
” بچوں کا درد کیسا ہوتا ہے اماں ۔۔۔؟ ” آج کی رات بچی کی حیرانی سَوا تھی
” سب سے بڑا درد ہی بچوں کا ہوتا ہے ” بچی کو اپنی پیشانی پر ایک اور ممتا بھرے بوسے کی ٹھنڈک محسوس ہو ئی،
” پھر بس ۔۔۔؟ ”
” ہاں پھر بس ۔۔۔۔ کیونکہ اگلے دن وہ چڑیا اپنا گھونسلہ چھوڑ گئی اور واپس کبھی نہیں آئی ۔ ایک ایک کر کے کتنے سال گزر گئے ، ہم دونوں جوان ہو گئیں تب بھی چڑیا کبھی واپس نہیں آئی ”
” اور مانوی ۔۔۔ وہ ؟ ”
” اس کی تو آنکھیں کلام کرتی تھیں ۔ وہ بھی میرے ساتھ جوان ہوئی ۔ پر ہم دونوں کی بلوغت میں ایک تفریق تھی ، آنکھوں کی۔ میری آنکھیں گونگی تھیں مانوی کی سارا دن بولتی رہتی تھیں ۔ ”
” پر اماں آنکھوں کی تو زبان نہیں ہوتی نا ۔ آنکھیں کیسے بول سکتی ہیں ؟ ” اب کے بچی جھنجھلا گئی
” بولتی ہیں بیٹا ۔ تمہیں سمجھ آ جائے گی کبھی ۔ پر مجھے اب ڈر لگا رہتا ہے ”
” کیوں۔۔۔ ڈر کیسا اماں ۔۔۔؟ ”
” کیونکہ تمہارا چہرہ کھینچتا ہے ۔۔۔ اپنی طرف ” ۔ بچی نے اپنا چہرہ چھو کے دیکھا ۔ اسے تو کچھ بھی الگ نہیں لگا اپنے خدوخال میں
” رانی اور شادو جیسا ہی تو ہے۔ پتا نہیں اماں آج کیسی کہانی سنا رہی ہے “ من ہی من میں وہ سوچے گئی ۔۔
” اچھا پھر آگے سناؤ نا اماں ۔۔۔ کیا ہوا پھر ”
” پھر ایک دن ” سائیں ” کے بیٹے نے مانوی کی کلام کرتی آنکھوں کو سُن لیا ۔۔۔ ”
” وہ کیسے ۔۔۔؟ ” حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔۔
” ہم گھڑا بھر کے واپس آ رہی تھیں کہ ” سائیں ” کے بیٹے سے ٹکراؤ ہو گیا ۔ اُس کے منہ میں پانی آگیا اور مانوی کا پانی سے بھرا گھڑا وہیں گر کے ٹوٹ گیا ۔۔۔ اتنے سارے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھر گئے ”
” اور آپ ۔۔۔؟ ”
” میری بھی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔ پر میری آنکھیں تو گونگی تھیں نا اس لیے وہ مانوی کو پکڑنے کیلئے اس کے پیچھے پیچھے بھاگا۔ ”
” پھر ۔۔۔؟ ” مقناطیسی چہرے والی لڑکی کے اشتیاق میں قدرے اضافہ ہونے لگا ۔ کہانی اچھی لگنے لگی تو وہ ماں کے بازو سے سر اٹھا کے اٹھ بیٹھی اور اس کی آنکھیں آگے کی کہانی پوچھنے لگیں ۔ پر بچی کا چہرہ مقناطیسی تھا آنکھیں تو اس کی بھی گونگی تھیں بالکل اپنی ماں کی طرح ۔
پورے گوٹھ میں بولتی آنکھوں والی تو صرف مانوی ہی تھی۔۔
” پھر رات کو مانوی کے ابا کا بلاوا آگیا ۔ ” سائیں ” کے بلاوے پر حمید چچا بھاگا بھاگا پہنچا اور ڈیرے پر جا کے سانس لی ۔ وہاں سائیں کے بیٹے نے ایک رات “کھیلنے” کیلئے ” مانوی ” مانگ لی ۔ ”
” پر مانوی تو لڑکی تھی ۔ کھلونا تو نہیں ” معصومیت اپنےعروج پر آ پہنچی
“ہمارے گوٹھ میں غریب کی عزت کھلونے سے بڑھ کے بھی تو نہیں ہوتی ۔ جب بھی دل چاہے کھیل لو ۔۔۔ ”
“تو کیا چچا نے مانوی کو دے دیا ۔ ؟؟؟ ” بچی کے لفظوں نے بھی تحیرّ کی قبا اوڑھ لی
” نہیں۔۔ ۔ حمید چچا اس رات وہاں سے واپس ہی نہیں آئے وہ وہیں ساری رات سائیں کے پاؤں پکڑے بیٹھے رہے ۔ دوسری صبح آئے تو اسی پیپل کے درخت سے مانوی گلے میں دوپٹہ کسے لٹکی ہوئی تھی ۔ میں اور نوراں چچی نیچے بیٹھے رو رہے تھے ۔ ”
” مانوی کیوں لٹکی ہوئی تھی ۔ ”
” کیونکہ اُس نے پھانسی کھا لی تھی ”
” پھانسی کیوں کھائی اماں ۔۔۔۔؟ ” بچی کی حیرت میں پھر اضافہ ہونے لگا
” جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو تمہیں پھر سمجھاؤں گی ۔ اب سو جاؤ تم رات بہت گہری ہو گئی ہے ” ماں نے بچی کو پھر اپنے بازو پر لٹا دیا ۔ اپنے دائیں ہاتھ سے اس کی گونگی آنکھیں بھی بند کر دیں اور خود بھی کروٹ بدل کے آنکھیں موند لیں ۔ مگر بند آنکھوں کے پیچھے سے بھی درخت سے جھولتی ہوئی، بولتی آنکھوں والی ایک جواں سال لڑکی کی لاش صاف دکھائی دینے لگی ۔
گہری تاریک اور خاموش رات بلی کی طرح بِنا چاپ کیے دبے پاؤں گزر رہی تھی کہ باہر کسی کُتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی ۔ تاریکی باقی تھی مگر خاموشی کو کتے کی آواز نے پاش پاش کر دیا
” اماں !حمید چچا اور نوراں چچی کہاں ہیں اب ” چھت کو گھورتی مقناطیسی چہرے والی لڑکی ابھی تک وہیں کہانی میں کہیں اٹکی ہوئی تھی ۔ اماں نے بھی آنکھیں کھول کر دوبارہ بیٹی کی طرف کروٹ بدل لی
” وہ دونوں تو کچھ دن بعد ہی گوٹھ چھوڑ کے چلے گئے تھے ۔ پھر کبھی واپس ہی نہیں آئے جیسے وہاں آنگن میں لگے پیپل کے درخت پر کبھی چڑیا واپس نہیں آئی تھی ۔
میں روز اپنی دیوار کے پار سے جھانکا کرتی تو مانوی کا گھر سنسان پڑا ملتا تھا اور پھر پیپل کا درخت بھی آہستہ آہستہ سوکھنے لگا ۔ ”
” اور مانوی کی لاش ۔ اس کا کیا ہوا تھا اماں “؟
” اسے تو دفنا دیا گیا تھا اسی شام ۔۔۔ حمید چچا کی فریادوں اور نوراں چچی کی چیخوں کی طرح ”
” اور مانوی کی آنکھیں۔۔۔۔ ؟ ”
” وہ پھر چپ ہو گئی تھیں ، ہمیشہ کیلئے ۔۔۔ پھر کبھی کلام ہی نہیں کیا اُس کی آنکھوں نے ”
” پر آنکھیں تو کلام نہیں کرتی نا اماں ۔۔۔۔ مانوی کی آنکھیں کیسے بولتی تھیں ۔۔۔ مجھے بتاؤ ؟ ”
” وہ پورے گوٹھ سے الگ تھی نا ۔ گوٹھ کی لڑکیوں میں صرف اُس کی آنکھیں بولتی تھیں ۔ اپنی طرف بلاتی تھیں ۔ جیسے تم الگ ہو ۔ تمہارا چہرہ کھینچتا ہے سب کو ۔۔۔ ”
بچی کا ہاتھ ایک بار پھر اپنے چہرے تک آیا
“اچھا ۔۔۔ اماں ۔۔۔ حمید چچا اور نوراں چچی کہاں چلے گئے تھے ؟ ”
” جہاں کچھ دن بعد ہم جائیں گے ۔۔۔ “
” کہاں ۔۔۔؟ “
”یہاں سے ہجرت کرکے ۔۔۔ کہیں بھی ” ماں کے درد بھرے لہجے میں ہجرت کی تھکن ابھی سے اتر آئی۔۔
“لیکن ہم کہاں جائیں گے اماں۔۔۔۔۔۔ ؟ ” حیرت زدہ بچی کی گونگی آنکھوں کے گوشوں میں پڑاؤ ڈالتی نیند پُھر سے کہیں دور اُڑ گئی ۔ وہ اپنے حیرت زدہ مقناطیسی چہرے کے ساتھ پھر اٹھ بیٹھی
” جہاں نوراں چچی اور حمید چچا گئے تھے ۔۔۔ اور جہاں وہ چڑیا ہجرت کر گئی تھی ۔۔۔ ”
” پر کیوں اماں ۔۔۔ ہم کیوں ہجرت کریں گے ۔۔۔؟؟؟ ”
” کیونکہ بچوں کا درد بہت ” بڑا ” ہوتا ہے ۔ اور تمہارا چہرہ بہت کھینچتا ہے ۔ اب سو جاؤ کل تیاری بھی کرنی ہے ہجرت کیلئے ۔”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں