کوبکو پھیل گئی خوشبو

کوبکو پھیل گئی خوشبو
احمد رضوان
ہمارے ایک کزن ہیں اللہ ان کو عمر خضر عطا کرے ، ابھی پچاس کی دھائی میں داخل ہوئے ہیں اور دل کا روگ لگا بیٹھے ہیں ،وہ والا نہیں جس میں ہر کنوارا،عاشق بیچارہ ،بنا مبتلا رہتا ہے ،اصلی والا ۔یونہی ایک دن روٹین کا چیک اپ کروانے فیملی ڈاکٹر کے پاس گئے توڈاکٹر نے احتیاطاََ ای سی جی کا مشورہ دیا ،ای سی جی کروائی تو دل کی دھڑکنیں اور حرکات کچھ مشکوک قسم کی تھیں بے ترتیب اور ابنارمل ۔ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس ریفر کر دئیے گئے جس نے مکمل ٹیسٹ کروا کر اوپن ہارٹ سرجری تجویز کی کہ کچھ شریانیں بلاک ہیں اور انجیوپلاسٹی کی جگہ بائی پاس بہتر رہے گا۔سب دوست احباب اور رشتہ داروں نے ان کا حوصلہ بڑھانے اور دل جوئی کے لئے دلی دعائیں دیں ساتھ ساتھ مجرب اور آزمودہ دواؤں کی آزمائش کی بھی بھرمار کردی کہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا اورفارمولا ہے آزمایا ہوا"۔وہ بیچارے بھی بیمار پرسی کے لئے آنے والوں کی سب باتیں شرما حضوری میں ٹک ٹک دیدم ,دم نہ کشیدم بہت انہماک و استغراق اور متوحش اور مشوش شکل بنا کر سنتے اور ساتھ ساتھ تفہیمی اور تائیدی سر ہلا کر ہنکارا بھرتے جاتے "جی آپ درست فرما رہے ہیں ،آپ کی بات سے اتفاق ہے ،جی میں اس نسخہ سے ضرور استفادہ حاصل کروں گا"۔
ہم بھی ان کے کافی قریب دلی لگاؤ اور رہائش کیوجہ سے ہیں تو لازمی بات ہے تشویش تو ہمیں بھی ہوئی اور ان کی اس حالت میں توجہ بٹانے کی کوشش کی۔ یو ٹیوب اور فیس بک سے ایسی حوصلہ افزا ویڈیوز اور پوسٹس ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کو واٹس ایپ کرنا شروع کر دیں جن میں اس دل کی لگی کو اب دل لگی ہی سمجھا جاتا ہےاور اس کو دل پر لے کر دل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کا پرچار کیا جاتا ہے۔ ایک نسخہ جو ہمیں ہر جگہ کم و بیش ایک جیسے اجزاء اور ترکیب استعمال کا ملا وہ کچن میں چندمستعمل چیزوں پرمشتمل تھا اور اس کے ھوالشافی ہونے کا تقریباََسب نے ذکر خیرکیا تھا کہ کس طرح اس کو مسلسل کچھ عرصہ استعمال کرکےدل کی بند شریانیں کھل گئیں اور بائی پاس یا اینجیوپلاسٹی کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔
ہم نے سوچا علاج بالغذا کی طرح ہی کی چیز ہے کیوں نہ انہیں نسخہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ خود اس کو تیار کرکے ان کی خدمت میں پیش کیا جائے ،نسخہ میں لہسن،ادرک اور لیموں کا رس نکال کر سیب کا سرکہ اور شہد (اصلی والا) شامل کرکےاسے تیار کرنا تھا اوریہ تمام اشیاء ہی تیز خوشبوآور ہوتی ہیں ۔تمام اسباب جمع کرکے ان کو چھیلنے ،صاف کرنے کی ذمہ داری خاتون خانہ نے خانگی مصروفیات اور ان اشیاء کے تعاملات و معاملات کو پہلے سے جانتے ہوئے سارا بار ہمارے شانوں پر ڈال کر خود شانے اچکا دیے۔
کینیڈا میں سردیوں میں گھر یا اپارٹمنٹ سنٹرلی ہیٹڈہونے کے باعث تازہ ہوا دروازہ کھلنے ،بند ہونے یا کولڈائیر ریٹرن کے ذریعے میسر آتی ہے ورنہ فرنس آپ کو ہوا گرم کرکے مہیا کرتی ہے اور اگر کوکنگ ہورہی ہو تو کھانا پکانے کے دوران طاقتور ایگزاسٹ/ رینج ہڈ دیسیوں کے گھروں میں سے ساری خوشبوئیں پورے محلے میں برابر تقسیم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے ۔ایسی ترکاریوں اور سلاد کے چھیلنے،کاٹنے اور پکانے کا نتیجہ یوں نکلتا ہے کہ گھر کے پورے ماحول میں ان کی خوشبوئیں رچ بس جاتی ہیں کہ جس تکیے پر آپ تکیہ کیے بیٹھے تھے وہی سڑانڈ دینے لگے اور صوفہ پر براجمان ہوں تو آپ اپنا تعارف ہوا پکانے کی ہے اور آپ کو یاد آتا ہے "ہاں رنگ لائی ہے اپنی مولی کا پراٹھا خوری ہر دن" ۔اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جن محلوں میں دیسی آکر آباد ہونا شروع ہوجاتے ہیں وہاں سے گورے کیوں رخصت ہوجاتے ہیں، افسوس مولویوں کومولی کے پراٹھوں کی نہ سوجھی ورنہ گورے بہت جلد بوریا بستر لپیٹ کر برصغیر سے نکل جاتے ۔اسی لئے شائد وہ اپنی کالونیاں ہی علیحدہ نہیں بناتے تھے بلکہ اپنی آخری آرام گاہ بھی گورا قبرستان کی شکل میں علیحدہ رکھتے تھے ،وللہ اعلم۔
یہ مصالحہ جاتی خوشبویات آپ کو ہر کمیونٹی کے متعلق مکمل معلومات فراہم کر دیتی ہیں ،اگر ہندو ہوں تو گھر میں گھستے ہی اگر بتیوں کی مہکار آپ کے سر میں درد کردیتی ہے، سرداروں کے گھر سے مکس اگربتیوں اور ہینگ کی ، گورے کے گھر سے بیکن اور ہیم کی ، یورپی خاص طور پر اطالوی /پرتگالی کے گھر سے چیز اور ساسیج کی ۔ویسٹ انڈین کالوں کے گھر سے خون میں رچےسڑانڈمارتے سٹیک کی اور شمالی ہندوستان والے تاملوں کے گھر سے ناریل ,سانبھر اڈلی اور ڈوسہ کی ۔میرے گورے کولیگز لنچ بریک میں کھانا گرم کرتے ہوئے ان اٹھتی ہوئی مختلف خوشبویات کا کاک ٹیل لے لے کر اب تقریباََ اپنا لنچ بعد میں کرنے کو ترجیح دینے لگ گئے ہیں ۔
ہر گھر میں ایروسول معطر یات اور خوشبودار موم بتیوں کا استعمال کیا جاتا ہے کھانا پکانے، واش روم جانے اور آنےوالی بدبو کے خاتمہ کے لئے ایگزاسٹ فین کے ساتھ ساتھ مگر ایک تو ان تمام تاخیری حربہ جات سے بدبو پوری طرح دور نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات دونوں کا مشرن ایک ایسا جان لیوا کمبی نیشن بنا دیتا ہے جو آپ کے حواس نے پہلے تجربہ نہیں کیا ہوتا اور صورتحال مزید دگرگوں ہوجاتی ہے۔اور تھوڑے عرصہ بعد آپ کا حال بھی اس نئی نویلی بہو جیسا ہو جاتا ہے جسے شروع شروع میں قریبی بوچڑ خانہ سے بہت بدبو آتی تھی پھر اس نے سارا گھر اچھی طرح صاف کیا تو تھوڑے دنوں بعد جب عادی ہو گئی تو بدبو آنا بند ہوگئی۔
قصہ کوتاہ ، اصل بات کی جانب لوٹتے ہیں ،اس مشکل کام کا جب ہمارے ہاتھوں ہی انجام ہونا طے پایا تو مرتا کیا نہ کرتا سب چیزیں اٹھا کر گیراج کی طرف چل پڑا ،نئے گھروں میں گیراج انسولیٹڈ ہوتے ہیں سنٹرلی ہیٹڈ نہیں پرانے گھروں میں یہ سہولت بھی نہیں ہوتی جس سے اتنا فرق پڑتا ہے کہ اگر باہر منفی 10 ڈگری سینٹی گریڈ ہے تو گیراج میں صفر کے اریب قریب اور کچھ گرم کپڑے پہن کر آپ اس طرح کے کام سرانجام دے سکتے ہیں ۔انڈین سرداروں نے جو عموماََ ٹرکنگ انڈسٹری سے وابستہ ہیں اور لانگ روٹ پر ہفتہ ہفتہ کے لیے جاتے ہیں ٹورونٹو سے کیلیفورنیا تک جن کے بارے لطیفہ مشہور ہے کہ جب ہفتہ بعد واپس آتے ہیں تو بچے انہیں دیکھ کر ماں سے پوچھتے ہیں وہ سنڈے کے سنڈےآنے والا بھائی پھر آیا ہوا ہے کیا؟جب وہ سفر پر نکلتے ہیں تو ایک ہی دفعہ میں پورے ہفتے کے لئے سالن اور روٹیاں پکوا کر ساتھ لے جاتے ہیں جنھیں ماں یا ساس گیراج میں گیس کے سلنڈر والے چولہے پر پکاکر دیتی ہیں۔
گیراج میں جاکر تقریباََ ایک کلو ادرک اور لہسن کو چھیلنا صرف چشم تصور سے دیکھا جاسکتا ہے محسوس تب تک نہیں کیا جاسکتا جب تک آپ اس عمل سے گذرے نہ ہوں ، شائد اسی لیے لہسن کی گٹھیاں انگریزوں کے باورچی خانہ میں دافع بلیات و بدارواح لٹکائی جاتی ہیں کہ جہاں یہ موجود ہوں وہاں کسی زندہ تو کیا مردہ کا گذرنا بھی محال ہے۔چھیلنے کے بعد اگلا مرحلہ ان کا رس نکالنے کا تھا ،وہ جوسر بلینڈر جو ہمارے مزےدار فروٹ جوسز نکالنے کے واسطے چلتاتھا اب بہ امر مجبوری لہسن،ادرک اور لیموں کا رس نکالنے پر مامور تھا ۔رس نکال کر تمام اجزاء کو دھیمی دھیمی آنچ پر پکنے کے لئے رکھا تو سارے گھر میں ایسے سمیل (Smell)پھیل گئی کہ میری چھ سالہ بیٹی اوپر بیڈ روم سے چٹکی میں ناک دبائے بھاگتی ہوئی آئی کہ یہ بیڈ سمیل کہاں سے آرہی ہے ؟بڑی مشکل سے اسے سمجھا بجھا کر روانہ کیا کو ایک دوائی بن رہی ہے اور دوائیاں تو کڑوی ہی ہوتی ہیں اس لئے ایسی سمیل آرہی ہے ، اپنی کھانسی کی دوائی کا یاد کرکے معصوم کڑوا سا منہ بنا کر چپ چاپ واپس چلی گئی۔
شہد مکس کرنے کے بعد اس کو ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھنے تک گھر کی تقریباَ، ہر قابل ذکر چیز اس کی بو سے آشنا ہوچکی تھی۔ اگلی صبح تین چمچ ایک گلاس میں ڈال کر نہار منہ تجرباتی طور پر ناک دبا کر منہ میں ڈالے تو حلق سے معدہ تک ایک مشک مارتی لکیر سی پھر گئی اور لگا ابھی قے آجائے گی مگر معدہ خالی تھا ،خیریت ہی رہی مگرصاحبو جس طرح سر درد کے علاج کے لئے صندل کا گھسنا اور لگانا ایک درد سر سے کم نہیں اسی طرح دل کی شریانوں کی بحالی کے لئے اس دوا کو کھانا اور اس کی بو کو سہنا بھی کسی بائی پاس آپریشن سے کم نہیں ، سو سو سرخ سلام ان صاحبان دردِ دل کو جو اسے بوجوہ پینے اور برداشت کرنے پر مجبور ہیں، واقعی جیسے پیٹو اپنی قبر دانتوں سے کھودتا ہے ویسے ہی مریضِ دل اپنی شریانیں اس مرکب سے کھولتے ہوئے خرابئ ِ دل کو سو بار کوستا ہوگا ۔اپنے بڑے بھائی کی خدمت میں یہ قدحہ کل پیش کیا جائے گا ،دعائے خیر کی استدعا ہے۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply