• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان کے صحافی کن نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔۔۔شبیررخشانی

بلوچستان کے صحافی کن نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔۔۔شبیررخشانی

ایک کمرے میں لگی پانچ اسکرینوں پہ پاکستان کے  چند معروف نیوزچینل کی خبریں چل رہی ہیں۔ ڈیسک کا بندہ خبروں سے باخبر رہنے کے لیے ہمہ وقت اسکرین پہ نظریں جمائے خبروں کے حصول میں لگا رہتا ہے۔۔ ’’ یہ خبر سب سے پہلے ہمارے  چینل نے نشر کی‘‘۔۔ اس جملے کے پیچھے ایک مکمل سناریو موجود ہوتا ہے۔ وہ سنیاریو کیا بتاتا ہے کہ آخر خبر کو سب سے پہلے حاصل کرنے کی حاجت کیوں کر پیش آتی ہے۔۔ تازہ ترین خبر کو اپنے  چینل کی  خبر بنانے کے لیے نہ جانے کتنے صحافیوں نے جانیں دیں۔ خبر تو ملی خبر کے ساتھ صحافی یا کیمرہ مین بھی خبر بن گئے۔ بلوچستان میں وکلا کی شہادت ہو یا سانحہ علمدار۔۔۔ پہلی خبر کی تلاش میں دوسری  خبر صحافی ہی بنے۔
بلوچستان گزشتہ دو دہائی سے جنگی محاذ  بنا رہا۔ جنگی صورتحال میں جہاں خون ہی خون بہتا رہا وہیں بے شمار صحافی، رپورٹر، کیمرہ مین اس کی ضد میں آگئے۔ بلوچستان میں اب حالات قدرے معمول پہ آگئے ہیں۔لیکن صحافتی سرگرمیاں معمول پہ نہیں آئی ہیں۔ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی اب بھی خوف کا شکار ہیں۔ زیادہ تر خبریں رپورٹ ہی نہیں ہوتی ہیں۔حالات و واقعات نے جہاں بلوچستان کے صحافیوں کی جانیں لیں وہیں بے شمار صحافی شعبہ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ صحافت کا شعبہ محدود ہو کر رہ گیا۔
دو دہائیوں پر  مشتمل جنگی حالات نے کوئٹہ بشمول بلوچستان کے صحافیوں کو نفسیاتی طور پر بھی اثرانداز کیا۔ آج کا رپورٹر یا کیمرہ مین جاب سیکورٹی کا شکار ہے۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور گھریلو مشکلات ، دوستوں کے بچھڑنے کا غم انہیں   کھائے جاتا ہے۔ وہ ایک کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ بن چکے ہیں۔ جہاں مالکان کی خواہشات ان کے صحافتی ارمانوں پہ پانی پھیر دیتی ہیں ۔ چوبیس گھنٹے خبروں کی تلاش یا خبروں سے جڑے رہنا ان کے موبائلز  کو خاموشی کا بھی درس نہیں دیتی۔ جو تخلیق کار ہیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو چوبیس گھنٹے کی خبری تلاش زنگ آلود کر چکی ہے۔ وہ ایک نفسیاتی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ نفسیاتی جنگ کا علاج ڈاکٹرز سے نہیں اپنے آپ سے لڑ کر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک صحافی جنگی حالات میں کن نفسیاتی مسائل سے لڑ رہا ہے۔ ہم نے اسی موضوع پر کوئٹہ کے چند صحافیوں سے گفتگو کی۔
محمد کاظم گزشتہ تین دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کا شمار بلوچستان کے سینیر صحافیوں میں کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے حالات و واقعات پہ گہری نظر رکھتے ہیں وہ اس وقت نہ صرف ایک چینل کے لیے بطور بیوروچیف فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ وہ بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو سروس کے لیے بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ بلوچستان میں ہونے والی صحافت سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری صحافت ’’اس نے کہا، انہوں نے کہا‘‘ پہ انحصار کرتی ہے۔میرا ان سے سوال تھا کہ ایک بین الاقوامی ادارے کے لیے بلوچستان سے خبریں رپورٹ کرتے ہوئے انہیں خبر کو کس طرح بیلنس کرنا پڑتا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ۔ ان کے ادارے کا مؤقف ہے کہ خبر سچ کی بنیاد پر رپورٹ کی جائے جبکہ ریاست کا نقطہ نظر ہوتا ہے کہ خبر اس کے مفاد میں ہو۔ دونوں کو بیلنس رکھ کر کہیں نہ کہیں خبر نکال ہی لیتے ہیں بسا اوقات خبریں چھوٹ بھی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک صحافی نہ صرف خود ایک نفسیاتی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے بلکہ اس کا خاندان بھی اس میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔
آصف بلوچ نیو ٹی وی کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں انہوں نے صٖحافتی شروعات بطور ٹرینی کیمرہ مین کے طور پر کیا۔ تین سال تک بغیر معاوضے کے کام کرتے رہے۔’’ گھر والے کہتے تھے کہ یہ کیسا کام کر رہے ہیں جس کا معاوضہ ہی نہیں مل رہا۔ بسا اوقات دھماکے یا فائرنگ کی کوریج کرتے ہوئے جان جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ دوران کوریج ان کے کئی کیمرہ مین دوست دھماکوں کی زد میں آئے۔ جس نے نفسیاتی طور پر مجھے کافی متاثر کیا۔ رات کو ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ ڈر جاتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کل میری باری تو نہیں‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی ماہر نفسیات کے پاس جائیں اور اپنا مسئلہ بیان کریں۔ دوسری جانب خیال آتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اسے پاگل کہیں۔ وہ خیال ہی ذہن سے نکال دیتے تھے۔
عبدالحمید سمسور وائس آف امریکا کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کئی گورنمنٹ اداروں کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔صحافتی شوق نے انہیں سرکاری ملازمت سے رخصت ہونے پہ مجبور کیا۔ بلوچستان کی جنگی حالات کی رپورٹنگ کرتے کرتے اب وہ اپنے سابقہ فیصلوں پہ پچھتاتے ہیں کہ انہوں نے گورنمنٹ جاب چھوڑ کر شعبہِ صحافت کا انتخاب کرکے غلط کیا۔ مگر اب ان کے لیے واپسی کا راستہ نہیں۔ ’’ایک بار ایک تنظیم کی طرف سے ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں ایک شخص کو قتل کر رہے تھے۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد میں نفسیاتی مریض بن گیا۔ دس روز تک اس کیفیت سے نکل ہی نہیں سکا‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافت کا شعبہ گو کہ پرکشش ضرور ہے مگر یہ ایک پرخطر راستہ ہے۔ اس راستے پر چلنے والا صحافی نفسیاتی طور پر ایک مضبوط انسان ہی ہوسکتا ہے۔
سعدیہ جہانگیر گزشتہ دس سال سے مختلف ٹی وی چینلز کے لیے بطور رپورٹر کام کرتی رہیں وہ اس وقت دنیا ٹی وی میں بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر کام کر رہی ہیں۔ رپورٹنگ چھوڑ کر ڈیسک کی طرف آنا، آخر وجوہات کیا تھیں۔۔ یہی سوال میں نے ان سے کیا۔ ’’ میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ مجھے نہ صرف فیلڈ کو وقت دینا پڑتا تھا بلکہ ساتھ میں گھر اور بچوں کو بھی۔ رپورٹنگ چوبیس گھنٹے والا کام ہوتا ہے اس سے یہ ہوتا تھا کہ میں اپنی فیملی کو وقت نہیں دے پاتی تھی۔ یا اچانک کوئی حادثہ ہوا تو میرا  ذہن ایک جانب بچوں کی طرف ڈائیورٹ ہوتا  تھا اور دوسری جانب مجھے جائے وقوعہ پہ پہنچنا ہوتا تھا۔ تو یہ چیزیں تھیں جنہوں نے مجھے ڈیسک کی طرف آنے پہ مجبور کیا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ ان کے  دس سالہ کیریر میں انہیں کن نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔۔ تو ان کا کہنا تھا۔ ’’ مردانہ معاشرے میں ایک خاتون کے لیے رپورٹنگ کرنا اور ایک ایسے خطے میں جہاں خاتون رپورٹر کم ہوں وہاں مشکلات زیادہ ہوتی ہیں۔ دوئم یہ کہ جاب سیکورٹی نہیں ہے آپ کے سر پر ایک تلوار لٹک رہی ہوتی ہے کہ ادارہ آپ کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ دس سالہ صحافتی کیریر میں میں نے اپنے بہت سارے ساتھی کیمرہ مین اور رپورٹر کھو دیے۔ یہ وہ لوگ تھے جو میرے لیے فیملی کی طرح تھے ہم فیملی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مسئلے  شیئر کرتے تھے۔ ان کی شہادت نے ذہنی مریض بنا دیا۔ پھر میں نے اس  ذہنی کشمکش کو ختم کرنے کا ذریعہ انہی فیملی کے دکھ درد میں ہونے میں ڈھونڈ لیا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا جو خواب عمران بھائی اپنے بچوں کے لیے دیکھا کرتے تھے کیوں نہ وہ خواب اس کے گزر جانے کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچا دیں اور ان کی فیملی کی سپورٹ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بلوچستان کی جنگی صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے نہ عوام کے لیے اور نہ ہی صحافی برادری کے لیے سائیکالوجیکل کونسلنگ کا اہتمام کیا ہے اور نہ سائیکالوجسٹ کا۔ ایسے میں صحافی اپنے نفسیاتی مسائل کا  حل کیسے ڈھونڈ لیں۔
کوئٹہ کی سطح پر ایک ایسا ہی ادارہ انڈویجویل لینڈ بھی ہے جو صحافیوں کے  نفسیاتی مسائل پہ توجہ دے رہی ہے۔ یہ ادارہ اس وقت صحافیوں کی مفت سائیکالوجیکل کونسلنگ کرتی ہے ۔ سعدیہ اشفاق اس سینٹر میں بطور سائیکالوجسٹ خدمت انجام دے رہی ہیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ اب تک کی کونسلنگ سے انہوں نے کیا نتیجہ نکالا ہے کہ یہاں کے صحافی کن کن مسائل سے دوچار ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا۔ ’’ اول تو یہاں کے صحافی مالی مشکلات کا شکار ہیں ادارے یا تو انہیں وقت پہ تنخواہیں نہیں دیتی ہیں یا تو کم دیتی ہیں جن کے اثرات ان کے گھروں پہ پڑتے ہیں۔ گھر والے انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ یہ راستہ ترک کردیں۔ دوئم سکیورٹی کے ایشوز ہیں۔ وہ حالات و واقعات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی ان کے سامنے بم بلاسٹ کی نظر ہوتے ہیں۔ جن کا اثر ان کے  ذہنوں پہ ہوتا ہے۔ یہ دو بنیادی چیزیں ہیں جو ان کی نفسیات پہ اثر انداز ہوتے ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات و واقعات نے تقریباً تمام صحافیوں کو  ذہنی حوالے سے اثر انداز کیا ہے مگر بہت کم صحافی ہیں جو سائیکالوجیکل کونسلنگ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply