آگہی کا عذاب ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔۔عبید اللہ چوہدری

ہم سب انسان پہلے ہیں عورت اور مرد بعد میں ہیں۔ انسانوں کی خواہشات بھی ہوتی ہیں، خواب بھی ہوتے ہیں، اپنی مرضی سے جینے کی خواہش بھی ہوتی ہے، فیصلہ کرنے کی آزادی بھی درکار ہے اور سب سے بڑھ کر احترام بھی۔ مرد اور عورت کا رشتہ صرف شادی یا اپنے شریک حیات پہ رکھ کے مت سوچیں تو بہتر ہو گا۔ آخر دنیا میں سب مرد اور عورتیں میاں بیوی تو نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ بھی سو جگہیں ہیں جہاں ہمیں ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہم عورت کو ایک انسان سمجھتے ہیں، جس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا احترام کیا جائے، اسے فیصلہ کرنے کی آزادی دی جائے، یہ تسلیم کیا جائے کہ خواب و خواہشات، جنسی جبلت، لباس، تعلیم ، عقل سب پہ آپ کی اجارہ داری نہیں ہے یہ تمام بنیادی حقوق عورت کو بھی حاصل ہیں۔۔۔ ہر کسی کو انسان سمجھنا اور اس کی پسند، عقیدے، رہن سہن اور لباس کا احترام کرنا ہی لبرلز عقیدے کی بنیاد ہے۔ اور یہ بنیاد اس بات پر قائم ہے کہ کسی کو کسی پر رنگ، نسل، زبان جنس، شہریت اور مالی حیثیت کی بنیاد پر فوقیت حاصل نہیں۔ اور یہ کہ جس میں جتنی زیادہ انسانیت ہے وہ اتنا ہی زیادہ بہتر انسان ہے۔ اب ایسے لوگ جو انسان دوست ہیں وہ کیسے ملک دشمن ہو سکتے ہیں؟

فرق یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو ہماری بات 10 سال بعد اور کسی کو 25 سال بعد سمجھ آتی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یہ بات سمجھنے میں ساری زندگی لگ جاتی ہے۔ لبرل کے  نزدیک مذہب ہر انسان کا ذاتی عقیدہ ہے اور وہ اپنے عقیدہ کے مطابق جوابدہ ہے۔ کسی دوسرے کو تبلیغ کا حق تو حاصل ہے مگر جبر بالکل قبول نہیں۔ عام زبان میں لبرل کے ہاتھوں ہر دوسرے انسان کا مال، جان ، عزت اور عقیدہ محفوظ ہوتا ہے۔ اور جو ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے ہر گز لبرل نہیں کہا جا سکتا۔ لبرل سوچ میں ثقافت اور روایات کو آنکھیں بند کر کے فالو کرنے کی بجائے ان پر غور کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ معیارات بھی بدلتے ہیں۔ مثال کے طور پر۔۔۔۔ پہلے استاد سے سوال کرنے کا رواج نہ  تھا اور سوال کو بدتمیزی سمجھا جاتا تھا۔ اس نکتے پر ہی غور کریں تو میری سمجھ میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ کسی کے ذہین میں سوال نہ  اٹھتا ہو۔ اور سوال کئے بغیر اور ان کے جواب لئے بغیر ہی آپ عالم ہو جائیں؟ فرق یہ ہے کہ استاد کی عزت اپنی جگہ پر مقدم مگر سوال کرنا کسی صورت بدتمیزی نہیں۔

اسی طرح کیا پڑھنا ہے؟ کس سے شادی کرنی ہے؟ یہ سوال بھی بدتمیزی نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری ساری روایات اصولی نہیں۔ کاروکاری کو ہی لے لیں۔ ونی کی رسم بھی ہے۔ جہیز کی رسم ۔۔۔ اور ہر صورت بڑوں کی عزت کرنا چاہے وہ بڑا آپ کی عزت سے ہی کیوں نا کھیل رہا ہو؟ لڑکیوں کو تعلم دلوانا بھی شروع شروع میں لبرل سوچ قرار دیا گیا اور اسے معاشرے سے بغاوت سے تشبیہ دی گئی۔ پھر کیا ہوا۔۔۔ آج طالب علم سوال کرتے ہیں۔ آج کاروکاری اور ونی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ جہیز لعنت قرار پا چکا ہے۔ اب کوئی ان پڑھ لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ آج اگر کوئی بڑا ظلم کرے تو بچے آواز اٹھانے لگے ہیں۔ عورتوں نے سہنا کم کر کے ظلم کے خلاف بولنا شروع کر دیا ہے۔ یہ سب روایت شکنی لبرل سوچ کا ہی نتیجہ ہے۔ لیکن کچھ روایات فانی ہیں جیسے والدین کی خدمت ، بوڑھوں کی مدد، کمزور کا ساتھ دینا۔۔۔ ان کی پاسداری ہونی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مختصر یہ کہ ہم جبر سے نہیں بلکہ بہتر انسانی احساس اجاگر کر کے ہی ایک بہتر معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ مگر اکثر کہتا ہوں کے ذہانت، عقل، اور آگہی کا عذاب ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ لوگ آسانی ڈھونڈتے ہیں اور تکلیف برداشت کرنے کی بجائے کبھی روایات، کبھی کلچر اور کبھی محدود مذہب کی تشریح میں پناہ تلاش کر لیتے ہیں۔ لبرل ہونا فخر کی بات اور انسان (اشرف المخلوقات) ہونے کی دلیل بھی۔ ورنہ پیروی تو بھیڑ بکریوں سے زیادہ کوئی اور جاندار کر ہی نہیں سکتا۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply