موجودہ حکومت کی کارکردگی اور موجودہ حالات…سید علی نقوی

ایک دوست سے موجودہ حکومت کی کارکردگی اور موجودہ حالات پر گفتگو ہو رہی تھی ہم جو بھی بات پوچھتے تو موصوف ہر بات کا ملبہ گزشتہ کرپٹ حکمرانوں پر ڈال دیتے تھے، سوچا کہ آج اس کلیے کے تحت ہم اپنی کچھ معروضات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کلیہ ہم یہی بنا لیتے ہیں جو پی ٹی آئی نے سیٹ کیا ہے کہ ہر حکومت کی کارکردگی کو جاچنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انکو گزشتہ حکومت سے ورثے میں کیا ملا؟
بات شروع کرتے ہیں پاکستان کی پہلی عوامی منتخب حکومت سے یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان ایک شدید بحرانی کفیت سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا سب سے بڑا بحران یہ تھا کہ جو خطہ کل تک مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اب بنگلہ دیش ہو چکا تھا انڈیا اور پاکستان جنگ کر کے ہٹے تھے اور پاکستان کے نوے ہزار فوجی انڈیا کی قید میں تھے ملک میں کوئی واضح معاشی پالیسی موجود نہ تھی، خارجہ پالیسی کے میدان میں پاکستان تقریباً اکیلا کھڑا تھا، بنگلہ دیش کو لے کر پاکستان کے موقف کو دنیا نہیں مان رہی تھی، حالات یہ تھے کہ ہمارے پاس اپنا آئین بھی نہیں تھا، ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتی ہے (یہ وہ واحد الیکشنز ہیں کہ جن کے بارے میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور لیڈران کا اجماع ہے کہ آج تک کے پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں یہ وہ واحد انتخابات تھے کہ جن کی شفافیت پر کسی کو شک نہیں یہاں تک کہ عمران خان بھی ان الیکشنز کی مثالیں دیا کرتے تھے)

تو کیا اب یہ کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ بھٹو حکومت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ انہیں وراثت میں فیلڈ مارشل ایوب (کہ جن کے بارے میں قوم آج بھی یہ کہتی ہے کہ وہ ایک شاندار حکمران تھے) اور یحییٰ خان سے ملے تھے؟ کیا اس بنیاد پر آج ہم ایوب اور یحییٰ خان پر یہ تنقید کر سکتے ہیں کہ یہ دونوں لوگ جو کہ فوجی تھے فوجی کہ جس کا کام جنگ کرنا اور اپنی زمین کی حفاظت کرنا ہے نے اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کیا؟ کیا ایک لاکھ کے قریب پاکستانی فوج کے سپاہیوں کا گرفتار ہوجانا، مشرقی پاکستان کا الگ ہوجانا ایسے جرائم نہیں ہیں کہ جن پر ان فوجی حکمرانوں سے باز پرس ہونی چاہیے تھی؟؟ لیکن ہوا یہ کہ آج بھی بھٹو پر ملک توڑنے کا الزام لگایا جاتا لیکن آج کیا کوئی پی ٹی آئی کا دوست یہ سوچنے کی زحمت بھی کرنا چاہتا ہے کہ ذرا یہ بھی معلوم کرے کہ بھٹو کو جب ملک ملا تو اسکی حالت کیا تھی؟

بھٹو اقتدار سنبھالتے ہیں ملک کی سمت کا تعین کیا جاتا ہے پاکستان کیپیٹلسٹ کیمپ سے منہ موڑ کر سوشلسٹ کیمپ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، نوے ہزار فوجی انڈین قید سے بغیر ایک گولی چلائے، بغیر کوئی جنگ کیے آزاد کرائے جاتے ہیں، ملک کا پہلا آئین بنایا جاتا ہے، عالمی تنہائی سے پاکستان کو باہر نکالا جاتا ہے، ملائشیا، چین، سعودی عرب کے علاوہ گلف ریاستوں، روس اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے شروع ہوتے ہیں.. سٹیل مل سمیت ملک میں انڈسٹری لگنی شروع ہوتی ہے کہ ملک پھر اپنے وسیع تر مفاد میں مضبوط ہاتھوں میں چلا جاتا ہے اور مرد مومن اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں… آج بھی ایسے لوگ آپکو بہ کثرت مل جائیں گے جو ضیا الحق کی حکومت کے دوران عوام کو حاصل سہولیات کو یاد کرتے ہیں ہم یہ اگر مان لیں تو کیا اسُ خوشحالی کا کریڈٹ ہم ضیا الحق سے پہلے کی بھٹو حکومت کو دے سکتے ہیں؟؟کیا کوئی پی ٹی آئی کا دوست اس بات سے اتفاق کر سکتا ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ ضیا الحق کے دور میں جو آسانیاں عوام کو میسر تھیں وہ ان پالیسیوں کا نتیجہ تھا جو بھٹو حکومت نے بنائیں؟؟ شاید نہیں یہ بات کم از کم پی ٹی آئی کے دوستوں کے لیے ماننا مشکل ہے اور جہاں اسکی بہت ساری اور وجوہات ہیں وہیں ایک وجہ وہ بغض بھٹو ہے جو پی ٹی آئی کے ضمیر میں جنرل حمید گل نے پی ٹی آئی بناتے وقت گوندھا تھا..

آگے بڑھتے ہیں 1988 میں ضیا ہلاک ہوتے ہیں اور 1999 میں پرویز مشرف ملک کو ایک بار پھر مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ان گیارہ سالوں میں چار منتخب حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں دو بینظیر کی اور دو میاں نواز شریف کی (یہاں ایک بات 1988 سے لیکر 1999 تک گیارہ سال میں چار منتخب حکومتیں جبکہ 1977 سے لیکر 1988 تک ایک حکومت وہ بھی غیر آئینی غیر قانونی) یہ وہ دو دو حکومتیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ ان دو پارٹیوں نے اس ملک پر حکومتیں کر کر کے اس ملک کو برباد کردیا ہے.. 4 دسمبر 1988 کو بینظیر ایک مخلوط حکومت کہ جو ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر بنی تھی اس حکومت کی پرائم منسٹر کا حلف لیتی ہیں اور 7 اگست 1990 کو اسحاق خان انکی حکومت گرا دیتے ہیں یعنی بیس ماہ یہ حکومت رہتی ہے اس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوتی ہے جو 9 نومبر 1990 کو قائم ہوتی ہے اور 18 اپریل 1993 کو اسحاق خان کے ہاتھوں ہی ختم کر دی جاتی ہے یعنی اڑھائی سال اس بعد پھر حکومت آتی ہے بینظیر بھٹو کی جو اکتوبر 1993 میں قائم ہوتی ہے اور نومبر 1996 میں اپنی ہی پارٹی کے صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں چلی جاتی ہے یعنی تین سال ایک مہینہ، میاں نواز شریف کی دوسری حکومت جو 17 فروری 1997 کو شروع ہوکر 12 اکتوبر 1999 کو ختم ہو جاتی ہے ان گیارہ سالوں میں ملک ترقی کرتا ہے موٹر ویز بننا شروع ہوتی ہیں بجلی کے منصوبے لگتے ہیں خواتین کے حقوق پر بہت کام کیا جاتا ہے نئے ایئرپورٹس کی تعمیر شروع ہوتی ہے لیکن آج شاید کوئی بھی نہیں ہے کہ جو ان حکومتوں کے بارے میں اچھی چھوڑیے مناسب رائے بھی رکھتا ہو اور یہ تو ناممکن ہے کہ آپ یہ کہہ سکیں کہ ان ادوار میں جو جو مسائل ان حکومتوں کو درپیش رہے انکی ذمہ داری ضیا الحق کے غلط فیصلوں پر عائد ہوتی ہے..

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آئیے اس عالمگیر حکومت کی بات کرتے کہ جس کو یاد کر کے ہمارے ملک کی اکثریت آہیں بھرتی ہے جنابِ پرویز مشرف کی حکومت جو قائم ہوئی 12 اکتوبر 1999 کو اور ختم ہوئی 8 اگست 2008 کو ہمارے ملک کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومت گزشتہ تیس پینتیس سالوں کی سب سے اچھی حکومت تھی کہ جس میں لوگوں کو بہت آسانی مہیا ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ جو جو بھی دودھ اور شہد کی نہریں پرویز مشرف کے دور میں بہہ رہی تھیں وہ جنابِ پرویز مشرف نے خود کھودی تھیں ان میں پھچلے کسی بھی تسلسل کا کوئی عمل دخل نہیں تھا یہ آٹھ سال وہ ہیں کہ جن میں ملک بدترین انرجی کراسس کا شکار ہوا، اس ملک میں بدترین دہشت گردی شروع ہوئی، ہم جنابِ پرویز مشرف کی سربراہی میں ایک بار پھر امریکہ کی جنگ میں کودے، پہلی بار اس ملک ہر ڈرون حملے شروع ہوئے، امریکی اہلکاروں جس میں بلیک واٹر سے لیکر نہ جانے کون کون اس ملک میں بغیر ویزے کے آنے جانے لگے، پاکستان نے اپنی سرزمین پر ایک بار پھر امریکہ کو اڈے دیے اور اس ملک سے افغانستان پر بمباری کی جاتی رہی لیکن اس سب سے کیا ہوتا ہے موبائل فون تو ہر بندے کے ہاتھ میں آگیا نا، سینکڑوں نیوز چینلز کو کھلے نا، حضرت کی رخصت کے دن کی کہانی یہ ہے کہ 18 اگست کو ملک میں دو ڈرون حملے ہوئے تھے جس میں 9 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں، شہروں میں لوڈ شیڈنگ کا شیڈول 9 سے 10 جبکہ دیہاتوں میں 12 سے 15 گھنٹوں پر مشتمل تھا.. بلیک واٹر اسلام آباد کے ہوٹلوں میں مقیم تھی، ریمنڈ ڈیوس جیسے دسیوں امریکی جاسوس ہر شہر میں دندنا رہے تھے اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں تھا، سینکڑوں این جی اوز پتہ نہیں کس کس ایجنڈے پر کام کر رہی تھیں اور اربوں ڈالر پاکستان میں کئی ملکوں کے مقاصد کی تکمیل کے لیے دھڑا دھڑ آ رہے تھے، منی لانڈرنگ کہ جو آج اس ملک میں ایک ناسور گنوایا جاتا ہے کا عالم یہ تھا کہ 2008 میں بننے والی پیپلزپارٹی کی کرپٹ حکومت کو سب سے پہلے خانانی اینڈ کالیا جیسے مافیاز کو نبٹنا پڑا… 2007 میں بینظیر شہید ہوئیں اور 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ایک ایسی پارٹی کہ جس کی لیڈر سڑک پر مار دی گئی تھی، ملک کا حال میں اوپر والی سطروں میں لکھ چکا لیکن کیا آج کوئی مانے گا کہ جو کچھ زرداری کی حکومت کو بھگتنا پڑا وہ انکو وراثت میں اس پرویز مشرف سے ملا کہ جو اس ملک کے عوام کا سوئیٹ ہارٹ ہے؟؟ کیا آج خان صاحب اسی کلیے کو کہ جو وہ اپنے لیے ٹھیک مانتے ہیں زرداری کی اس حکومت کے لیے بھی ٹھیک تصور کرتے ہیں جو 2008 میں بنی تھی؟ یہاں التجا صرف یہ ہے کہ یا تو پچھلی حکومتوں پر الزام ڈالنا بند کیجیے یا یہ سب بھی مان لیجیے کہ جو میں نے اوپر عرض کرنے کی کوشش کی ہے اگر سچ پوچھیں تو اس ملک پر کم ہی کسی سیاسی جماعت کی حکومت قائم ہوئی ہے اور اگر ملی بھی تو ہاتھ پیر باندھ کر اس کا اندازہ اب خان صاحب کو بخوبی ہوگیا ہوگا اس ملک پر پہلے دن سے اداروں کی حکومت رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ کرپٹ اداروں کی کیونکہ یہ بات تو خان صاحب خود کہا کرتے ہیں کہ اس ملک کا ہر ادارہ کرپٹ اور غیر مستحکم ہے….

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply