ذہانت (50) ۔ غلطی/وہاراامباکر

رحینہ ابراہم ایک آرکیٹکٹ تھیں، مقامی ہسپتال میں بھی کام کرتی تھیں اور ساتھ سٹینفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ شوہر اور چار بچوں کے ساتھ ان کی مصروف زندگی تھی۔ ان کا hysterectomy کا آپریشن ہوا تھا جس سے بڑی حد تک بحال ہو چکی تھیں لیکن ابھی طویل وقت تک کھڑا ہونے میں کچھ دشواری ہوتی تھی۔ جنوری 2005 میں انہوں نے سسٹم سائنسز کی عالمی کانفرنس میں اپنا پیپر پڑھنا تھا اور اس کے لئے انہوں نے ہوائی کے لئے جہاز کا ٹکٹ لے لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ صبح سویری سان فرانسسکو کے ائیرپورٹ پر پہنچیں۔ اپنی دستاویزات سٹاف کے حوالے کیں اور درخواست کی کہ انہیں وہیل چئیر دے دی جائے۔ لیکن ان کی درخواست پر عمل نہیں ہوا۔ ان کا نام سکرین پر فلیش ہو رہا تھا۔ وہ ان مشتبہ دہشت گردوں کی ڈیٹابیس میں تھیں جو فیڈرل نو فلائی لسٹ کی فہرست میں تھے۔ رحینہ ابراہیم کو ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔ پولیس کی گاڑی میں ڈال کر تھانے لے جایا گیا۔ ان کو ادویات دینے سے انکار کیا گیا۔ حجاب اتروا کر تلاشی لی گئی اور قید میں ڈال دیا گیا۔
دو گھنٹے بعد ایک ایجنٹ ان کے پاس آیا اور بتایا کہ ان کا نام فہرست سے ہٹا دیا گیا ہے۔ رحینہ کو ہوائی کانفرنس میں جانے کی اجازت مل گئی اور پھر وہ اس سے آگے اپنے وطن ملیشیا چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحینہ اس فہرست کا حصہ اس لئے بنی تھیں کہ ایف بی آئی کے ایجنٹ نے ان کے فارم پر ڈیٹا ڈالتے ہوئی غلطی کر دی تھی۔ ملیشیا میں بیرونِ ملک پڑھنے والوں کی ایک تنظیم جماعة اسلام کے نام سے ہے اور وہ اس کی ممبر تھیں۔ جبکہ ایک اور تنظیم جماعة اسلامیہ ہے (جس کی شہرت بالی میں ہونے والے بم دھماکے سے ہوئی تھی)۔ ایجنٹ نے ڈیٹا ڈالتے ہوئے یہ غلطی کی تھی۔ سادہ غلطی لیکن ڈرامائی نتائج۔
آٹومیٹک ذہین سسٹم کے اندر یہ غلطی چلی گئی تو پھر اس ڈیٹا نے خوفناک روپ دھار لیا۔ سان فرانسسکو میں ہونے والے اس واقعے پر کہانی ختم نہیں ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ ملیشیا میں گزارنے کے بعد جب انہوں نے امریکہ واپس آنے کی پرواز لی تو پھر ائیرپورٹ پر انہیں روک لیا گیا۔ اس بار غلطی کی تصصیح جلد نہیں ہوئی۔ ان کا ویزہ منسوخ کر دیا گیا۔
اگرچہ ان کا اپنا گھر سان فرانسسکو میں تھا۔ ان کے بچے امریکہ کے شہری تھے اور وہ ایک صفِ اول کی یونیورسٹی میں تھیں لیکن انہیں امریکہ داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
رحینہ کو اپنا نام اس فہرست میں نکلوانے کی جدوجہد میں دس سال لگے۔
ڈیٹا کی غلطی اور ایسی مشین جس کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رحینہ اس کا شکار ہو گئیں تھیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply