مزاروں، درباروں، مساجد، مدارس اور مذہب وفرقے اور عقیدے کے نام پر قائم ہونے والے ٹرسٹوں اور فاؤنڈیشنز کو معاشی تناظر میں سمجھنے، ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اربوں پر محیط مذہب کے نام پر ہونے والی اس معاشی سرگرمی سے مولویوں متولیوں، ذاکروں، مبلغوں اور خیراتی اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں افرادمنسلک ہیں۔ محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام پنجاب میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پانچ سو کے قریب مزار اور چند سو مساجد ہیں۔ان مزاروں کی سرکاری( غیر سرکاری کا کوئی اندازہ نہیں ہے لیکن کچھ باخبر اس کو کروڑوں میں بتاتے ہیں)سالانہ آمدنی کروڑوں میں ہے۔ غیر سرکاری مزار اور دربار ہزاروں میں ہیں ان کی آمدن بھی بلاشبہ کروڑوں میں ہے۔ محکمہ اوقاف چونکہ مزاروں اور درباروں سے کماتا ہے لہذا یہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مزاروں میں مدفون اصلی اور فرضی شخصیات کے معجزے اور ان کی دینی خدمات کو بڑھا چڑھا کر عوام میں پیش کرے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ان مزاروں اور درباروں پرحاضری دیں اور نذرانوں کی شکل میں رقوم بھینٹ کریں۔غیر سرکاری مزاروں پر قابض افراد بھی زیر قبضہ مزاروں کی بدولت کروڑ پتی اور بعض صورتوں میں ارب پتی ہیں اور سرکار،دربار اور اقتدار میں بھی ان کو حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔لہذا وہ بھی ان مزاروں میں دفن ہونے والی شخصیات کے محاس گنواتے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ان مزاروں پر حاضری دینے کی طرف مائل کرتے ہیں۔
جہاں تک مساجد کا تعلق ہے کچھ تو وہ ہیں جو بڑی ہیں اور وہاں خطیب امام اور موذن کی تقرری سماجی اور سیاسی طور پر بہت بڑا اعزاز سمجھاجاتا ہے اور ایسے خطیب سرکاری تنخواہ اور مراعات کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی نذر نیاز اور صدقہ خیرات کی مد میں رقوم اور فوائد وصول کرتے رہتے ہیں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اپنی خطابت اور امامت کی آڑ میں متوازی بنکنگ سسٹم بھی چلاتے ہیں اور اسے سود سے پاک کہہ کر عامتہ الناس سے رقوم اینٹھتے رہتے ہیں۔ مساجد کی خطابت اور امامت اب وراثتی بن چکی ہے باپ کے بعد بیٹا۔ مثال کے طور پرلاہور کاجامعہ اشرافیہ ایک پبلک لیمیٹڈ کمپنی ہے جس میں کوئی عام مولوی مدرس تو بھرتی ہوسکتا ہے لیکن اس کا مہتمم نہیں بن سکتا یہ وراثتی عہدہ ہے یہ ایک مثال ہے باقی بڑے بڑے مدارس کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اب ہر گلی محلے اور بازار میں پہلے سے موجود مساجد اور مدارس کے باوجود نئی مساجد اور مدارس بن رہے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ یہ منفعت بخش بزنس بن چکا ہے۔ دس مرلے یا کنال کے پلاٹ پر مسجد بنانے کا اعلان کریں اور پھر چندے کی اپیل کردیں سب دلدر دور ہوجائیں گے ایک بڑی مارکیٹ، رہنے کے لئے بہترین رہائش گاہ، تمام یوٹیلٹی بلوں سے نجات۔ یہی حال مدارس کا ہے۔ تمام عمر کے لئے معاشی خوشحالی کی ضمانت مل جاتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں