خود کشی/ڈاکٹر راؤ کامران علی

جیا خان نامی نوجوان اداکارہ نے امیتابھ بچن کے ساتھ ایک فلم کرکے متنازع  شہرت حاصل کی! اسکا اداکار آدتیہ پنچولی کے بیٹے سورج کے ساتھ معاشقہ چلا جس میں ناکامی کے بعد اس نے خود کشی کرلی۔ اسکی ڈائری کے نوٹ کے مطابق اسکی خودکشی کا ذمہ دار سورج پنچولی تھا۔ وہ تو مر گئی لیکن اس نوجوان کو زندہ درگور کرگئی اور آج دس سال کے بعد وہ بَری ہُوا تو اسکا سوال تھا کہ میرے دس سال کون لوٹائے گا۔؟

سوشل میڈیا کے ساتھ جو بھی اچھائی یا برائی  ہے اس میں ایک چیز جو سامنے آئی ہے وہ ہے کسی کی خودکشی کا کسی کو ذمہ دار قرار دینا۔

میڈیکل کالجز میں ہم نے کتنے کیس دیکھے کہ امی ابا کی خواہش کے پیش نظر ڈاکٹر بننے والے پروفیشنل امتحانات کی اسٹریس برداشت نہ کر پانے کے باعث خود کشی کر بیٹھے تو بقول “تھری ایڈیٹس “کے وائرس کے، کیا انکے ذمہ دار پرنسپل یا ڈین ہوں گے؟

خود کشی کا دوسرا کوئی ذمہ دار جب ہوسکتا ہے جب وہ خود کشی کرنے والے کو جان بوجھ کر خود کشی پر اُکسائے یا اسے بلیک میل کرے کہ اسکے پاس کوئی اور چارہ نہ ہو۔

ڈیٹ یا افئیر میں خودکشی شروع ہوگئی تو آدھا انڈیا، پاکستان قبر میں ہوگا اور آدھا جیل میں!

90 فیصد افیئرز میں کوئی ایک پلڑا بھاری ہوتا ہے،یا مرد امیر اور کامیاب ہوتا ہے تو وہ مڈل کلاس لڑکی کے ساتھ افیئر کے ساتھ ساتھ برابری کا رشتہ ڈھونڈتا رہتا ہے، یا پھر لڑکی حسین ہوتی ہے اور اونچا ہاتھ مارنے کے چکر میں بوائے فرینڈ سے بیلنس ڈلوا ڈلوا کر من کا امیر میت ملنے پر اس کو ٹھوکر مار دیتی ہے۔

اب یہ سب سننے میں جتنا بھی سفاک لگے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسی کو ڈیٹنگ کہتے ہیں اور اس میں چھوڑنے کی آپشن ہوتی ہے۔ ایسے ہی جیسے نئی کار خریدنے جائیں تو ٹیسٹ ڈرائیو کا مطلب یہ نہیں کہ کار نہ خریدی تو سیلز مین خودکشی کرلے۔ ڈیٹنگ اگر شادی میں تبدیل ہوتو پھر بھی کوئی حق ہوتا ہے ایک دوسرے پر لیکن وہ بھی طلاق سے ختم کیا جاسکتا ہے نہ  کہ خودکشی سے۔

دل بہت خوبصورت چیز ہے،جذبات اور احساسات سے زندگی حسین ہے، لیکن زندگی کا انجن دماغ ہے۔ ہر فیصلہ دماغ سے ہونا چاہیے اور value based ہونا چاہیے نہ کہ feelings based.

Advertisements
julia rana solicitors

خود کشی کبھی بھی value based فیصلے کے باعث نہیں ہوتی ہے۔ ڈیٹنگ ابھی پاکستان میں اتنی نئی ہے کہ محض ایک دہائی پہلے اسے “لڑکی یا لڑکا پھنسانا” کہا جاتا تھا یعنی برملا طور پر اعتراف کہ کسی کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔بعد میں یہ لڑکی کی طرف سے محبت میں بھی تبدیل ہوجاتی تھی لیکن کم ظرف لڑکے کے لئے یہ ہمیشہ پھنسانا ہی رہی اور عزت نفس تو ہمارے لڑکوں کی اتنی کم ہے کہ انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ کوئی پہلی بار زندگی میں ان سے پیار کرے۔ انھیں آئینہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر کوئی مجھ سے پھنس گئی تو پتا نہیں پہلے کتنے چکر ہوں گے۔
ایسی گھٹیا سوچ کو نہ تو دل دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسکے لئے جان! تو عقل کو دل کی ڈھال بنا کر رکھیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply