موہنی حمید عرف شمیم آپا/یوحنا جان

قدرت کا ہاتھ مہربان ہو تو کسی کو کسی بھی رنگ، آواز اور دُھن سے نواز کر دنیا والوں کے لیے مشعل راہ ثابت کر دیتا ہے۔ دوسری بات فن اور دُھن قدرت کی طرف سے کسی بھی عمر میں عطا کا معجزہ ہوتا ہے۔ آواز کا جادو ،دُھن کی تار ، سُر کا رنگ انسان کو ذہنی ہم آہنگی، جسمانی اور تخیل کی فراوانی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے وہ فطرت اور قدرت کا نظارہ ہر طرح سے حاصل کرے چاہے وہ عمر کے اوائل مرحلہ میں ہو یا آخر میں۔ جب بھی انسان نے کچھ ذہنی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کی تو سُر کا سہارا لیتا ہے۔ اس سُر کی بات ہو تو پاکستان کی نامور شخصیت موہنی حمید کا تذکرہ اول درجہ رکھتا ہے۔ جو ایک پُر اثر آواز اور اس آواز سے جادو کا رنگ دکھانے میں خوب ماہر پاکستان کی پہلی خاتون براڈ کاسٹر ہیں۔ مجھے پہلی بار ریڈیو پاکستان لاہور کے آفس کراچی سے آئے مسڑ ایاز مورس کے ہمراہ 17 جنوری 2023ء کو جانے کا اتفاق ہوا جو ان کی زندگی پر ایک ڈاکومنٹری بنا رہے ہیں ۔ وہاں پر ان کے ساتھ اس شخصیت کو پرکھنے کا موقع ملا۔ وہاں پر موجود جناب مصطفٰی کمال اسٹیشن ڈائریکٹر کی وسعادت سے اس شخصیت کے فن اور جوہر کی پرکھ ملی۔ جو مجھے ذاتی حیثیت میں نایاب اور باکمال لگی۔
ان کی سُریلی آواز اور اپنی اثر آفرینی سے سامعین کے دل میں ایک اعزاز کا درجہ رکھتی ہے۔ جوسُر کا حسین رنگ بکھیرتی چاروں طرف اپنا اثر دکھاتی ہے۔ پاکستانی پہلی براڈکاسٹر خاتون موہنی حمید 1922ء کو بٹالہ انڈیا کے ایک مسیحی گھرانہ میں ہوئیں۔
انھوں نے 1938ء میں آل انڈیا ریڈیو میں بطور ڈرامہ فنکار کے کام کا آغاز کیا۔ جب آل انڈیا ریڈیو نے بچوں کے حوالے سے پروگرام شروع کیا تو انھیں ” شمیم آپا ” کا نام دیا گیا۔ وہ تقریبا 39 سال تک اس پروگرام کو اپنی سُریلی آوازسے نسل در نسل بچوں کی آبیاری اور برصغیر پاک وہند کے گھرانوں کی اصلاح میں معاون رہیں۔ اسی لحاظ سے ان کا یہ نام برصغیر کے ہر گھرانے میں ایک گھریلو نام کے طورپر مستقل حیثیت اختیار کر گیا۔ قیام پاکستان کے وقت وہ پاکستان کے علاقہ” لاہور” منتقل ہو گئیں اور اس کے بعد پاکستان کی پہلی “براڈکاسٹر” عورت کا اعزاز اپنے نام کیا ہے ۔ فن کی قدر، آواز کی تڑپ اور وسیع النظر اس شخصیت نے ریڈیو پاکستان کے ذریعے بچوں کی ذہنی ہم آہنگی میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ اس کا ثبوت دیکھا جائے تو ان کو 1957ءمیں سال کی “بہترین آواز ” قرار دیا گیا۔ 1965ء میں موہنی حمید کو صدر پاکستان نے قوم کی جانب سے “تمغہ امتیاز ” عطا کیا۔ آواز کے جادو کا اثر اس حد تک بچوں اور ان گھرانوں میں چھا چکا تھا کہ رات سونے سے پہلےآواز سُننالازم ہو گیا جوہر دل میں بسیرا تھا ۔ ان کی آواز کا اثر اس حد تک چھایا ہوا تھا کہ اس وقت کے ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج، رفیع پیر ، عابد علی عابد ، شوکت تھانوی اور دیگر ڈرامہ نگار ان کی آواز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا فن پارہ کو تخلیق کرتے تھے ۔ رفیع پیر کے مشہور ڈرامے “اکھیاں” میں اندھی لڑکی کا کردار بھی موہنی حمید نے ادا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فن پارے کی تخلیق اور اس کی ادائیگی تک فنکار کی آواز اور تخلیق کار کی تخلیقی سوچ گہرےدامن سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ جو موہنی حمید کے کردار سے نمایاں نظر آتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا لباس تمھاری ظاہری خوبصورتی کو خوبصورت دکھاتا ہے مگر تمھارا اچھا کردار تمھاری زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ موہنی حمید اور فن پارے کی تخلیق کا سفر اس بات کی ضمانت ہے کہ آواز کا اثر جادوئی لباس لیے ڈرامہ نگاروں کے ذہنوں پر استوار تھا ۔ اس کا نتیجہ بچوں اور گھرانوں کی اس آبیاری کا تھا جو ٹی وی سے پہلے بڑے کیا اور بچے ،شام کو کھانے کے بعد اپنے بڑے بڑے ریڈیو سیٹوں کے گِرد بیٹھ کر شمیم آپاسے ہر رات ایک نئی کہانی اُردو میں شمیم آپا کی زبانی سُنتے تھے ۔ جو سُریلی دنیا کے ساتھ تعلیمی ،تربیتی ، اصلاحی اور تاثراتی عوامل کی ضامن ہوتی تھیں مگر ان سب پر ان کی آواز کا جادو نمایاں تھا ۔ جو اس دوران اُن کی آواز ایک سنسنی تاثر لیے خاموشی سمیٹے سامعین کو ایک تربیتی ورکشاپ کا منظر دیتی جو مسلسل بیٹھ کر سنتے جاتے تھے ۔ جب ان کی وفات ہوئی تو بی بی سی اُردو نے خبر شائع کی ” براڈ کاسٹر موہنی حمید چل بسیں ، ریڈیو پاکستان کی سابق براڈکاسٹر بچوں کی شمیم آپا بہت سے معروف ریڈیو ڈراموں کی ہیرو اور بچوں کے کئی مشہور گیتوں کی گلوکارہ موہنی حمید کا امریکہ میں انتقال ہوگیا ۔”
موہنی حمید ایک سادہ اور وسیع سوچ کی مالک تھیں ۔ اس سادگی کا عالم یہاں سے ہی دیکھ لیں کہ ان کے پاس اپنا ذاتی گھر نہ تھا اتنی بڑی فنکار اس خطے کو ثقافت سے آشنا کروانے والی، تہذیب اور زبان کی درستی کرنے والی، بچوں اور بڑوں میں پیار بانٹنے والی، ہمہ وقت اس نسل کی آبیاری میں مگن اتنا کچھ دینے کے باوجود لاہور میں اپنا گھر نہ بنا سکی اور کرائے کے مکان میں رہیں ۔ ایک طرف تو یہ ایمان کی مضبوطی، سادہ گوئی کا گوہر , خدا پر بھروسا اور عملی ثبوت جو کلامِ خدا کی تاثیر کا عکس بیان کرتا ہے۔ یہی بات میں اپنے الفاظ میں بیان کروں تو بجا ہوگا کہ دولت اور حسن کے لالچ میں کبھی اپنی سیرت خراب مت کریں کیونکہ دولت دنیا میں ہی ختم ہو جائے گی اور حُسن مٹی میں دفن ہو جائے گا لیکن اچھی سیرت آخر تک قائم رہے گی۔ موہنی حمید نے بھی اس سادہ طرز زندگی سے سیرت کا ثبوت دیا جو ایک دنیا والوں کے لیے سبق آمیز کے طور پر بھی ہے ۔
دسمبر 1937ء کو لاہور میں ریڈیو کا آنا ایک وہ لمحہ تھا جو اپنے ساتھ ایسے نام لے کر آیا جو جلد ہی گھریلو نام بن گئے وہ ان ہی کی وسعادت سے تھا ۔ پطرس بخاری جیسے لوگ جن کو مقامی طور پر “بڑے بخاری صاحب “کے نام سے جانا جاتا تھا وہ بھی ان کا اعتراف کرتے ملے۔ وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعہ سامعین تک فوری پیغام پہنچایا جاسکتا تھا وہ خواتین میں اپنی شاندار صلاحیتوں کے لیے نمایاں نام اُمید کا دامن لیے موہنی حمید کا ہی ہے ۔ ان کو “گولڈن وائس موہنی” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ سُروں کی دنیا میں تعلیم و تربیت اور سادگی کا نتیجہ تھا جو انھوں نے اپنی زندگی میں اٙپنا کر ظاہر کیا کیونکہ تعلیم جس کے اندر داخل ہو جاتی ہے وہ سادگی اختیار کر لیتا ہے اس سادگی کا ایوارڈ خود دیکھ لیں۔ 1963ء میں ریڈیو پاکستان نے ان کی سلور جوبلی منائی اور اس موقع پر بی بی سی اُردو نے اپنی اردو نشریات میں انھیں “گولڈن وائس آف ایشیا ” قرار دیا۔
1969ء میں اقوام متحدہ نے سال کو خواتین کے لیے سال قرار دیا اور کینیڈا میں ایشیا کی دیگر معزز خواتین کے ساتھ ان کی تصویر اور تحریر کی نمائش ہوئی۔ اس کے بعد 1977ء میں وہ ریٹائر ہوگئیں اور مسیحی مشنری کاموں میں مگن ہو رہی۔ انھوں نے جنوبی ایشیا میں مسیحی ابلاغ میں خدمات سر انجام دیں ۔ انھوں نے پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں ریڈیو نشریات کے لیے اُردو میں بائبل مقدس (نئے عہد نامہ ) کی مکمل ریکارڈنگ کی- اپنی بینائی ختم ہونے کے باوجود کام جاری رکھا ۔ موہنی حمید کی ساری محنت و کامیابی کے پس منظر میں جذبات نگاری ،علم اور عمل کا مشترک جوڑ موجود ہے جو ان کی سریلی آواز, سُر کے دھن اور لفظوں میں جان ڈال کر شضصیت اور فن ، فن اور پارے کو نکھار کر سُر کی دنیا والوں کے لیے اصلاح کا کام کرتی ہیں جو آج بھی زندہ و قائم ہے۔ جدید دور میں نئی نسل کو ان سے واقف ہونا اور کروانا ضروری ہے تاکہ کرداری سازی میں اہم پیش رفت حاصل ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply