سی پیک گوادر کی ترقی کی ضمانت کیوں نہیں بن پارہا جبکہ یہی سی پیک پاکستان اور چین کی کمپنیوں، جرنیل، بیوروکریٹس ، سیاست دانوں کو کھرب پتی بنا چکا ہے اور اُن کے سرمائے کو چار گنا کرچکا ہے
اس کا سب سے بڑا اور بنیادی جواب تو یہ ہے نیولبرل مارکیٹ معیشت میں ترقی کا سب سے بڑا مفہوم ہی سرمایہ داروں کی ترقی اور شہری و دیہی غریبوں میں اضافہ ہے۔
بیوروکریسی کا سُرخ فیتہ چینی سرمایہ کار کمپنیوں، مسلح افواج، کوسٹ گارڈز، ایف سی، بلوچستان لیوی کو بجلی، گیس، پانی کی فراہمی میں ر کاوٹ کیوں نہیں بنتا؟ جبکہ گوادر کی عوام کو ان سہولتوں کی فراہمی میں ر کاوٹ بن جاتا ہے۔
گوادر کی ترقی کے لیے اب تک جتنے فنڈز جاری ہوئے اُن کے مطابق اگر گوادر میں کام نہیں ہوئے تو ان اخراجات کی آڈٹ رپورٹس پہ احتساب کا عمل کیوں نہیں ہوا؟
پاکستان فوج کا جنرل آفسر کمانڈر برائے سپیشل سکیورٹی ڈویژن ساؤتھ میجر جنرل عنائت حسین نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کے اجلاس میں برملا اعتراف کیا
” گوادر کی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے اگر فوری اقدام نہ اٹھائے گئے تو اگلا موسمِ گرما اُن کے لیے جہنم سے کم نہیں ہوگا –
سی پیک کی سرمایہ کاری واپس چلی جائے گی اس لیے سرخ فیتہ ختم کریں گیس اور بجلی کی فوری فراہمی ممکن بنائیں ۔اگلا موسم گرما گوادر کے لیے جہنم ہوگا ، مسائل پیدا کرے گا – “
کمیٹی رکن پی پی پی کی سینٹر پلوشہ خان نے کہا
“ساری ترقی محض کاغذوں میں ہورہی ہے – جبکہ زمین پہ اُس ترقی کا وجود نہیں ہے – فائلوں میں بہت بڑی مقدار میں فنڈز جاری کیے گئے ہیں لیکن زمین پہ چند عمارتیں ہیں اور گوادر کے عوام جن کے نام پہ اتنی بڑی رقم جرچ کی جارہی ہے غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں”
سینٹر شفیق ترین نے کہا،
” ٹیکنکل انیڈ وکیشنل انسٹیٹیوٹ کی نئی عمارت بنائی گئی ہے جس کا نہ تو کوئی نصاب ہے نہ ٹریننگ ماڈیولز ہیں اور نہ ہی استاد۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں