تسلی بخش الیکشن/احمر نعمان

حکیم درویش باوا ہر قسم کے مسائل کا تسلی بخش حل نکالتا ہے۔ شادی کرانی ہو یا طلاق، محبوب کو قدموں میں لانا ہو یا محبوب کے پہلو میں جانا، باہر سے محبوب امپورٹ کرنا ہو یا یہاں سے حبیب ایکسپورٹ کرنا، مزید براں ختنے کروانے کے علاوہ خونی و بادی بواسیر کا علاج بھی تسلی بخش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارا ایک درویش محکمہ ہے جو رہائشی کے علاوہ کمرشل و زرعی زمین کی خرید فروخت سے لے کر کھادیں، فرٹیلائزربنانے سے لے کر دلیہ  بنانے اور ٹیلی کمیونیکیشن سے لے کر سیمنٹ کے نام پر ماحول تباہ کرنا، کچھ بھی تسلی بخش کرا لیجیے۔ خرید و فروخت کا لفظ محاورتاً استعمال کیا ہے ورنہ یہاں محض فروخت ہی فروخت ہے،مفت میں لے کر فروخت کرنا، یعنی نفع ہی نفع۔ مزید براں بعض لوگوں کے محکمہ سر مونڈ دیتا ہے اور بعضوں کے بغلوں کے بال بلا معاوضہ صاف کر دیتا ہے۔

درویش محکمہ کو دو ہی چیزیں عزیز ہیں، ایک عزیز ہم وطن اور دوسری ان کی سیاست۔۔ کسی کن ٹٹے کو تصور میں لائیں جو روز کٹ کھا کر گھر جاتا ہو مگر اگلے دن پھر وہی کام کرنے پہنچ جائے، اور کوئی بزرگ نہ ہو جو سمجھا سکے کہ بھائی یہ تمہاری استطاعت اور سمجھ سے بلند و بالا ہے۔

خیر فی الحال بات الیکشن کی تھی، گزشتہ الیکشن میں نتائج سے قبل ہی و تعز من تشا والا ٹویٹ آ گیا، اس پر اس وقت کے بہت سے ناسمجھ تالیاں بجانے لگے اور دیگر بغلیں بجانے لگے۔ اب کی بار محکمہ پچھلی غلطی سدھارنے کے لیے دوسری غلطی کرنے نکل پڑا جو کہ اس کی ایک غیر متزلزل تاریخ ہے۔ جیسا عرض کی کہ پوچھنے والا تو کوئی ہے نہیں، نہ کوئی جواب دہی کا تصور ہے۔

اس بار اپنے بنائے صنم توڑنے کا اہم مشن درپیش تھا، اور تو کوئی کام آتا نہیں بس ہوائی مشن خود ہی ایجاد کرتے رہتے ہیں۔اس لیے خلائی مخلوق کہلاتے ہیں۔ اگلے وقتوں میں ویہلی رنوں کو کہا جاتا تھا کہ اور نہیں تو پاجامے ہی ادھیڑ کر سیتی رہا کرو۔ ایسے تمام اہم مشن محکمہ خود ہی ایجاد کرتا رہتا ہے اور فینسی قسم کے نام بھی دیتا رہتا ہے، کبھی تزویاتی گہرائی کے نام پر ایک کھڈا کھود کر قوم کو اس میں دھکیلنا مقصود ہوتا ہے، کبھی خودساختہ ففتھ جنریشن وار جو خود ہی شروع کی ہوتی ہے، مگر الزام دوسروں کے سر، پھر خود ہی فرض کرلیتے ہیں کہ ان مشکل ناموں سے محکمہ کا جواز قائم رہے گا۔

تازہ اطلاعات کے مطابق محکمہ، حسب روایت اس کام میں ہمیشہ کی طرح ناکام رہا۔ ڈھٹائی کی حد تو ہو نہیں سکتی، اتنے رگڑے کھانے کے بعد البتہ مجھے “تسلی بخش” لفظ کی تسلی بخش سمجھ آ گئی کہ وڈے صاحب، چھوٹے صاحبان کوتسلی ، بخش دیتے ہیں جس سے دونوں کا مورال بلند ہو جاتا ہے۔ حالیہ الیکشن بھی اسی قسم کا تسلی بخش تھا جس میں تسلیاں بخشی جا رہی ہیں، محکمہ کے سول نمائندگان قوم کو تسلیاں دے رہے ہیں اور قوم غور وفکر کر رہی ہے کہ اتنے ووٹ آٹھ فروری کو نہیں پڑے جتنے نو فروری کو پڑے۔
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں سب مزے میں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply