• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اٹھارویں صدی کے پیرس کے کیفے اور 2024 کا سوشل میڈیا/میاں ضیاء الحق

اٹھارویں صدی کے پیرس کے کیفے اور 2024 کا سوشل میڈیا/میاں ضیاء الحق

فرانس کا شہر پیرس، جس کو فرینچ لوگ “پاری (Par ee) کہتے ہیں۔ میرا پسندیدہ ترین شہر ہے جہاں میں بار بار جانا چاہتا ہوں۔ یہ تاریخ، جدت، عوامی بہبود اور برابری کا ایک بڑا نمونہ ہے۔ یہاں دو دفعہ جا چکا ہوں اور اس بارے کافی متجسس تھا کہ یہ جادوئی شہر ہے کیا؟

یورپی طوفانی دورہ جات کا مقصد کم وقت میں زیادہ گھومنا زیادہ علاقے دیکھنا اور ان کا بغور مطالعہ کرنا، پھر اس پر تحقیق و مطالعہ کرنا کہ ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے۔ اس لئے میں ٹیکسی سے اجتناب کرتا ہوں اور ٹرام ،ٹرین, بس یا پیدل چلنا پسند کرتا ہوں۔

سب سے پہلی چیز جو نوٹ کی وہ یہ تھی کہ یورپ کے یہ تمام ممالک اس وقت حقیقی عوامی فلاحی مملکت ہیں جہاں پیدا ہونے والا ہر شخص بنیادی سہولیات جیسے تعلیم ،صحت اور رہائش کا حقدار ہے۔ جو نہیں کما سکتا اس کی سپورٹ ہوتی ہے تاکہ چوری چکاری کی طرف نہ  جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ڈنکی لگا کر بھی ان کے ہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ ممالک پہلے دن سے ایسے نہیں ہیں۔ اس کے پیچھے ان کی نسلوں کی قربانیاں، خون آلود انقلاب اور پھر اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے بہترین قوانین موجود ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال فرانس ہے۔ جو سولہویں صدی تک امیر ترین ملک تھا اور بادشاہت کے تحت چلتا تھا۔

یہ بادشاہ اپنے لئے سنگ مرمر کے محلّات بنواتے تھے جبکہ ملک کا دوسرا بڑا طبقہ مذہبی تھا جن کو پوپ کہا جاتا ،یہ لوگ بلا شرکت غیرے حکومتی معاملات میں فیصلہ کن رول ادا کرتے اور ایک اہم مقام کے حامل تھے۔ عوام ان کے تابع تھی اور یہ انہی کے پیسے پر پلتے تھے۔تیسرا طبقہ امراء کا تھا جو کئی کئی ایکڑ کے گھروں میں رہتا تھا۔ نوکر چاکر اور تمام ملکی وسائل پر قابض تھا۔

حکومت ان دونوں طبقات کے زیر اثر تھی کہ ایک سے پیسہ ملتا اور دوسرے سے طاقت۔

اس سیٹ اپ میں عوام کی فلاح غائب تھی اور لوگ ایک وقت کی روٹی کی خاطر گھنٹوں کام کرتے، پھر اس میں سے ٹیکس بھی دیتے جس سے جنگیں لڑی جاتیں، محلات بنائے جائے اور محافل منعقد کی جاتیں۔

نمک ایک عیاشی سمجھا جاتا جس پر ٹیکس لگایا گیا۔ عام آدمی کو نمک استعمال کرنے سے قاصر کردیا گیا۔

عورتیں اپنے بچوں اور خود کو پالنے کی غرض سے خود کو بیچتیں پھر جا کر دن گزرتا۔

فرینچ بادشاہ لوئس 16 کی بیوی آسٹریا کی شہزادی تھی جس کی ہر رات محافل میں گزرتی اور اسی کا مشہور مقولہ ہے کہ اگر عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔

اس صورتحال میں جب عوام مرنے کے قریب ہوگئی تو مشہور فرانسیسی دانشور روسو نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کو آگاہی دینی شروع کی کہ یہ استحصال ہے کہ وہ ملک جو امیر ترین تھا صرف چند طبقات کی عیاشی کی وجہ سے اس نوبت کو آگیا ہے کہ عوام مر رہی ہے۔ا۔س کا بنیادی فلسفہ برابری کا تھا کہ ایک طبقہ سہولیات سے مالا مال ہے تو دوسرا مفلس کیوں؟

امریکہ میں انقلاب اور جمہوری نظام کے قیام کا سب سے بڑا اثر فرانس پر پڑا، جب وہاں سے واپس آئے فرانسیسی لوگ اپنے ملک کے لئے بھی یہی برابری کا نظام دیکھنے لگے اور لوگوں کو آگاہ کرنے لگے کہ آپ کے حقوق کیا ہیں۔

یہ ایک بہت بڑا کام تھا لیکن ان کی نسلوں کا مستقبل اس سے وابستہ تھا تو اس پر کام شروع ہوگیا۔ 1789 میں ایک ملک گیر تحریک شروع ہوئی جو چند سو لوگوں کے مارچ سے شروع ہوکر لاکھوں کا ہجوم بن گئی اور پیرس پہنچ کر ان تمام امراء کو جان سے مارنے لگی جو امیر دکھائی دیتے تھے کہ جب عوام مر رہی ہے تو تم یہ عالی شان لباس کیوں پہنتے ہو۔

ان امراء کو چوک میں گلوٹین پر لاکر ہلاک کرنے کا عمل شروع ہوا اور پیمانہ یہ رکھا گیا کہ جس کے پاس دو کپڑے کے جوڑے ہیں، جس کے گھر رات کو روشنی تھی، جو تین وقت کا کھانا کھاتا اور وہ بھی جو ہر روز شیو کرتا۔
یہ سب موت کے حقدار قرار پائے۔
کچھ ہی دیر میں فرانس کے صنعت کار، وزیر سفیر ، زمیندار اور تاجر موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے اور آخر میں بادشاہ سلامت بھی چوک میں پھٹے چاڑھ دیا گیا اور ملکہ کو چھ بائی چھ کے ایک کمرے میں قید کیا گیا۔

روسو کی تحریریں فرانس کے انقلاب کی بنیاد تھیں اور ان تحریروں کو پڑھنے کی واحد جگہ پیرس کے کیفے تھے۔
میرے حالیہ پیرس وزٹ کا مقصد وہ کیفے دیکھنا بھی تھا جہاں پر بیٹھ کر عوام  پلان تیار  کرتی تھی۔

میں نے پیرس میں اپنے میزبان کے ساتھ ایک پورا دن گزارا اور اس بارے تفصیلی گفتگو بھی کی جس کا حاصل یہی تھا کہ یہ روسو کی تحاریر اور یہ پیرس کے کیفے اس انقلاب کی بنیاد اور وجہ تھے۔

فرانس میں اب بھی یہ بات موجود ہے کہ آپ اَن لمیٹڈ وقت کے لئے کسی بھی کیفے پر بیٹھ سکتے ہیں۔ کوئی آپ کو جانے کے لئے نہیں کہے گا۔

اب آتے ہیں اس دور سے 235 سال آگے یعنی 2024 میں اور مقابلہ کریں اپنا اس وقت کی فرینچ عوام سے اور دیکھیں کہ آپ کا روسو کون ہے جو کوئی دانشور بھی ہوسکتا ہے کوئی ٹی وی چینل کوئی فنکار یا کوئی عام سادہ بندہ بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پیرس کے کیفیز کا کردار بلاشبہ اب سوشل میڈیا ادا کر رہا ہے۔
حقائق جاننے ہوں تو آپ کا نیوٹرل ہونا شرط اوّل ہے ورنہ کسی کا بتایا یا بچپن کا سیکھا سبق  آپ کو حقائق سے دور رکھے گا۔ ہمیں یورپی تاریخ کو مذہب کے ساتھ مکس کرکے پڑھایا جاتا ہے تاکہ ہم ان کو اسی نظر سے دیکھیں اور نفرت کریں۔ ان کی فلاحی مملکتوں کے لئے کی گئی کوششوں بارے کچھ نہیں بتایا جاتا تاکہ کہیں ہم بھی یہی چیزیں اپنے لئے نہ  مانگ لیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply