ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(4)-زید محسن حفید سلطان

ریل اب کھیتوں کے درمیان چل رہی تھی ، اور دھوپ تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی ، جب ہماری نظریں نظاروں سے تھک گئیں تو ہم نے بستہ کھولا اور کتاب پڑھنے کیلئے خود کو کمر بستہ کر لیا ، جگہ کم ہونے کی وجہ سے میں صرف ایک ہی کتاب رکھ سکا تھا ، لیکن اس سے زیادہ غم یہ ہے کہ وہ ایک کتاب بھی پوری نہ پڑھ سکا لیکن جتنا بھی پڑھا مزہ آ گیا ، کتاب تھی “العبرات” جس کے مصنف عربی ادب کے مشہور و معروف ادیب مصطفی لطفی منفلوطی ہیں ، انہوں نے مصر کے بدلتے ہوئے حالات کو بہت قریب سے دیکھا اور استخراب (المعروف استعمار) کے دور میں بڑھتی ہوئی بے چینیوں اور اضطرابات کو نہ صرف اپنی کتابوں کا موضوع بنایا بلکہ ساتھ میں اس کے ہولناک نتائج سے آگاہی بھی دی ، ان کا شمار مصر کے دائیں بازو کے ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قدیم عربی اور اسلامی ثقافت و تعلیمات سے اپنی تحریروں کو مزین کیا ، ان کی کتاب “العبرات” بھی مختصر قصوں پر مشتمل کتاب ہے جس میں کچھ حکایتیں منفلوطی نے خود تحریر کر رکھی ہیں اور کچھ کو فرانسیسی ادب سے عربی ادب میں ڈھال کر پیش کیا ہے ، عربی جاننے والوں کیلئے یہ ایک بہترین کتاب ہے ، جس میں آج ہونے والے ہمارے معاشرے کے تمام تر پروپیگنڈوں کا جواب اور حل بہت خوبصورت انداز میں موجود ہے ، اس میں موجود “الحجاب” دل کو چھو جانے والا قصہ ہے جو نہ صرف بہترین الفاظ اور عمدہ انداز سے مرقع ہے بلکہ اس میں بیان کئے گئے خدشات و نتائج بھی اپنے اندر ایک حسن رکھتے ہیں۔۔۔۔۔
کتاب پڑھتے پڑھتے نظریں کھڑکی سے باہر گئی تو کسووال آ چکا تھا ، یہاں پر گندم اور جو کی فصلوں کے بجائے سفیدے کے درختوں کے باغات کا طویل سلسلہ شروع ہوا ، سفیدے کے درخت یوں تو کاروباری طور بہت سود مند درخت ہیں جس کی لکڑی جہاں فرنیچر ، کھیلوں کے سامان اور ماچس کی تیاری میں کام آتی ہے وہیں تعمیرات کے موقع پر شٹرنگ وغیرہ کیلئے بھی اس کو مضبوط لکڑی گردانا جاتا ہے اور یوں اس کے ذریعہ ایک بڑا کاروبار بھی چلتا ہے ، لیکن ساتھ ہی یہ درخت اس لئے خطرناک ثابت ہوتا ہے کہ یہ بہت زیادہ پانی چوستا ہے اور سطح آب میں کمی کا باعث بنتا ہے ، بلکہ ماہرین کا ماننا تو یہ بھی ہے کہ یہ درخت جتنا اوپر ہوتا ہے اتنا ہی یہ گہرائی میں خود کو پھیلاتا رہتا ہے اور اپنے قریب بنے گھر وغیرہ کے انہدام کا باعث بھی بنتا ، ساتھ ہی موسم بہار میں اس پر روئی نما سفیدی ابھرتی ہے جو پھیپھڑوں کے امراض اور آنکھوں کے امراض کا باعث بھی بنتی ہے اس کے با وجود ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ تا حدِ نگاہ یہ درخت ہی نظر آتے تھے ، چونکہ ہمیں صحت سے زیادہ کاروبار عزیز ہے!
خیر جی ، ہم یہ صحت و کاروبار کے معاملات کو چھوڑتے ہیں ایک طرف اور بڑھتے ہیں رائےونڈ کی جانب ، جہاں ٹرین نے رکنا تو نہیں تھا لیکن ایک دم بریک لگ گیا ، بڑے خالو کو پہلے لاہور سے واپس آنا پڑتا اس لئے وہ رائےونڈ ہر ہی اتر گئے اور اب “ہم سات ، ایک ساتھ” رہ گئے ، پھر باتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا مزے مزے کی باتیں اور دلچسپ چٹکلے چلتے رہے ، اور اس وقت ہم سب میں سب سے زیادہ بولنے والے عبدالباسط نے ابراہیم کو ایک تاریخی جملہ یہ کہا کہ: “ابراہیم! تو کتنا بولتا ہے نا یار” اور پھر اسی بولنے پر سب بولنا شروع ہو گئے۔۔۔
اب ہماری نظریں دریائے جہلم یا دریائے راوی کا تعاقب کر رہی تھیں کہ “پنجاب” میں پنج آب نہ دیکھ سکیں تو ایک دو ہی دیکھ جائیں لیکن اب کی بار جو ریل نے بریک لگایا تو ایک دم ہی لاہور آ گیا اور ہھر ہم سب چند ہی گھڑیوں بعد پیدا ہونے کا وہ حق ادا کر رہے تھے جس کو اکثر لاہوری بڑی باکی سے یوں ذکر کرتے ہیں کہ “جنے لاہور نئی ویکھیا ، وہ جمیا ای نئی” (جس نے لاہور نہیں دیکھا ، گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) وہ بات الگ ہے کہ لاہور اسٹیشن پر اتر کر ہمارا نعرہ یہ نہیں تھا بلکہ جب کسی جہت سے یہ آواز آئی کہ: “لور لور اے” تو ہمارے عبدالباسط بھائی نے بڑی تیزی سے نعرے کا جواب دیا کہ: “کراچی اس کا شوہر ہے” ، خیر لاہور و کراچی کی یہ محبت بھری لڑائی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ پرانی لڑائی ہے جس کا فائدہ ایک یہ ہے کہ کوئی کسی کو بھی اچھا کہہ لے وہ بالآخر پاکستان کو ہی اچھا کہہ رہا ہوتا ہے ، اور وطن کے کسی ایک حصے سے محبت کا اظہار کر کے وہ حب الوطنی کا ہی اعلان کر رہا ہوتا ہے ، اور یہی بات سب سے پیاری ہے۔۔۔۔۔ویسے اس محبت بھری لڑائی سے ایک بڑی پیاری بات ذہن میں آئی کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو فقہاء کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے ، اور اس وجہ سے لوگ دین سے دور ہوئے ہیں کہ ہر کوئی اپنی فقہ کو اچھا اور صحیح ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے تو ان کیلئے عرض ہے کہ جس طرح کوئی لاہور کو اچھا ثابت کرنے کے چکر میں امریکن نہیں بن جاتا اسی طرح کوئی کسی خاص فقہ کو ثابت کرنے کے چکر میں غیر مسلم نہیں ہو جاتا ، کیونکہ جس طرح لاہور بہر کیف ہے پاکستان کا ہی حصہ اسی طرح کوئی خاص فقہ بھی اسلام ہی کا حصہ ہے ، اس کی بنیاد بھی اسلام کے دو بنیادی منبع و مخرج قرآن و حدیث پر ہی ہوتی ہے اور فقہ کا مقصد بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کو سمجھنا ہوتا ہے ، اب اگر کوئی قرآن و حدیث سے سے ہٹ کر کسی اور بنیاد پر فقہ قائم کرنا چاہتا ہے (جو کہ علماء و فقہاء نے نہیں کیا) تو اس کو تو ہم واقعی نقصان پہنچانے والا مانیں گے لیکن جس طرح کوئی بھی علم بغیر ماہرین کی رائے کے سمجھنا نا ممکن ہے اسی طرح علمِ دین بھی ماہرین کی آراء کے ساتھ جڑا ہے ، بس فرق یہ ہے کہ کوئی کتنا بھی ماہر ہو وہ دین کے اساس قرآن و حدیث سے باہر کی بات کو دین کا حصہ نہ بنائے ، تو پھر فقہ کی بنیاد پر جو محبت بھری مباحث ہوتی ہیں وہ بھی اسلام ہی سے محبت کا ایک انداز ہوتا ہے ، البتہ اس میں شدت وتعصب اختیار کرنا اور غلط ثابت ہو جانے پر غلطی نہ ماننا یہ بالکل غلط ہے ، جیسے اب کوئی لاہوری گدھے کے گوشت کی فروخت سے انکار کر دے!
اب جیسے گدھے کے گوشت کی وجہ سے ہم نے لاہور کو چائنہ کا شہر نہیں گردانا ویسے ہی چند ایک غلطیوں کی وجہ سے ہم بھلا کیسے کسی کو اسلام سے باہر کر سکتے ہیں ، بات ہے سمجھنے کی!
خیر جی لاہور میں کس کو ڈنڈے پڑے اور کس کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔اس تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں اگلے حصے میں۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply