“جیوندیاں مردیاں آساں /ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

( فاضل دوست صغیر تبسم کی پنجابی شاعری کا طائرانہ جائزہ)

تخلیق عرشِ بریں کا انمول تحفہ ہے۔اس کی قدر و قیمت کا اندازہ بھی انہی لوگوں کا ہوتا ہے جو اس فن سے وابستہ ہیں۔ایک قلم کار اپنے جذبات، احساسات، تصورات اور نظریات کو روز اوّل سے تاحال قلم بند کرتا آیا ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے ادب کے پوجاری دیا جلاتے رہیں گے۔ تاکہ آنے والی نسلیں اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اندر تحقیق و جستجو کا جذبہ پیدا کریں۔

اسی ڈگر پر چلتے ہوئے صغیر تبسم نے اپنی اقدار و روایات کا بھرم رکھتے ہوئے قلم کا توڑا خوب مشقت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
اگرچہ سوچ اور الفاظ کا گہرا رشتہ ہے۔انمٹ اور انمول ہے۔بھرم و اظہار میں لاجواب ہے۔پہچان اور فن کو دھندلا نہیں ہونے دیتا۔ادب کسی بھی صنف اور زبان میں تخلیق کیا جائے وہ صدیوں زندہ رہتا ہے۔الفاظ تو وہی ہوتے ہیں مگر جب ایک قلم کار انہیں خاص ترتیب، اسلوب ، طرز ، یا انداز سے اسے شعری و نثری زبان میں بیان کرنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کے اثرات حواس خمسہ پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں۔

ایک عام انسان جب علم و آدب سے آشنا ہوتا ہے تو اسے نئے نئے تصورات سے شعور و آگاہی ملتی ہے۔
تب اسے احساس ہوتا ہے کہ زندگی بے مقصد نہیں۔کیونکہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جب اسے قدرت کی طرف سے علم و دانش کے موتی مل جاتے ہیں تو اس کی روحانی اور جسمانی اقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ فطری طور پر ہر انسان کے اندر تجسس ہے۔وہ اسی کی بدولت تمناؤں کی لڑی میں موتی بن کر چمکتا ہے۔ہمارے قارئین فاضل دوست شاعر صغیر تبسم کے نام سی واقف ہیں۔ جہاں وہ پنجابی لب و لہجہ کا خوبصورت شاعر ہے وہاں وہ ادبی حلقہ بندی میں نادر بھی ہے۔بلاشبہ شاعری احساس ولطیف جذبات کا نام ہے جس کے اظہار کے لئے نظم، غزل، مثنوی ،قصیدہ ، رباعی اور ہائیکو کا استعمال اسے شاعرانہ صف میں کھڑا کرتا ہے۔

ایک فنی شاعر کی یہی خوبصورتی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر معاشرتی ناسوروں پر نشتر چلائے۔آج اکیسویں صدی کا انسان جس ماحول اور معاشرے میں زندگی گزار رہا ہے۔حالات و واقعات دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی پہچان اور قدریں بھول چکا ہے۔موصوف کی شاعری پڑھتے ہوئے گماں گزرتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ان پہلوؤں پر کھل کر بات کی ہے جن کی ضرورت آج معاشرے کو  شدت سے ہے  ۔میرے خیال کے مطابق ان کی شاعری میں سماجی ، تہذیبی ، تمدنی ، معاشرتی اور ثقافتی اقدار کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔

موصوف نے نڈر اور بے باک ہو کر ان تمام پہلوؤں پر بات کی ہے جن کی چکی میں آج کا انسان پس رہا ہے۔وہ کھوئی ہوئی محبت ،چاہت، رونق، عزت، وقار ، خوشی ، حلیمی، تازگی اور امید کو دوبارہ بارور دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ آج کا انسان جو خون اور گوشت کی جنگ لڑ رہا ہے وہ اپنی درندگی سے باز آئے۔اپنے لیے ایسا ماحول دریافت کرے جہاں محبت مجسم ہو کر یوں کہے۔ میں تمہاری نفرت کو محبت میں بدل دوں ، بدی کے خمیر کو دھو ڈالوں ، ضمیر کی آواز سننے پر مجبور کروں، تاریکی کی جگہ روشنی کروں، کھوئے ہوئے کو ڈھونڈ لاؤں، غمزدوں کو کیسے دلاسہ دے سکوں، عہد و پیمان کو زندگی بھر کے لئے بدل دوں، ایمان و عمل کو مضبوط بنا دوں، میں نیتوں سے فتور ختم کردوں، کردار کو پھول کی خوشبو جیسا بنا دوں۔

جملہ تمام حقائق کے ساتھ آج کا انسان ترقی کے جس حدود اربعہ میں داخل ہوچکا ہے وہاں اسے متضاد رویوں ، منفی سوچ، بہروپیہ پن، قتل و غارت ، جنسی بے رہ روی اور ایک دوسرے سے لاتعلقی جیسے چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ان کے اس شعر کی گہرائی ماپیں۔
نکی گل سمجھاؤں خاطر
کنیاں گنجھلاں پاندے نیں
میرے شہر دے وڈے شاعر تے کجھ مُلاں

صغیر تبسم کی شاعری ان تمام اخلاقی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جس کی آج بھی معاشرے میں ہر انسان کو ضرورت ہے۔وہ اپنی لاجواب شاعری میں انسان کی بے مروتی اور سوچ کو یوں بیان کرتے ہیں۔
سوچاں اندر کالیاں راتاں
ذہناں وچ آنہیرے
سورج لمبی تان کے ستا
کھتوں ہون سویرے

موصوف انسان کو یاد کرواتے ہیں کہ انسان کو کس قسم کی سوچ رکھنی چاہیے۔مثبت اور منفی سوچ میں کیا فرق ہے۔نفرت و فرق کا مادہ دن بہ دن کیوں بے قابو ہو رہا ہے۔معاشرتی رونق کا بازار اتنا سنسان کیوں ہو رہا ہے؟ہماری بیٹیاں دن کے اجالے میں جنسی تشدد کا شکار کیوں ہو رہی ہیں؟ ہمارے قول و فعل میں تضاد و تعارض کی فضا کیوں جنم لے رہی ہے؟۔ہم کیوں بے ضمیر ہوتے جا رہے ہیں؟ ہم مزدور سے کیوں ناانصافی کر رہے ہیں؟ ہم آدم سے آدم خور کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ انسان تو محض مٹی سے بنا ہے۔اس کی ساری شان و شوکت ایک نہ ایک دن تو مٹی میں مل جاتی ہے۔لہذا ہر انسان کو اپنا آخری ویلا ضرور یاد رکھنا چاہیے۔یاد تو ان لوگوں کی بھی دلوں میں زندہ رہتی ہے جنہوں نے دکھ دیا ہو یا سکھ دیا ہو۔ مگر جو یاد تڑپائے وہ قابل رشک ہوتی ہے۔
ان کا آخری ویلا کی بابت خوبصورت شعر پڑھیے۔
ایویں دل کا دیوا
بجھدا جاندا اے
جیونیں نے شام دا سورج
ڈبدا جاندا اے

وقت ایک خوبصورت قدر ہے۔کوئی وقت کے ہاتھوں ہار جاتا ہے اور کوئی جیت جاتا ہے۔ویسے اگر ہم دل جمی سے اس بات پر سوچ بچار کریں کہ ہماری میراث آدمیت ، انسانیت اور بشریت پر قائم ہے۔

کل کس نے دیکھی  ہے؟ زندگی کا بھروسا تو پانی کی مانند ہے جو گرنے کے بعد اکٹھا نہیں ہوتا۔اسی طرح یہ کھو جانے کے بعد واپس نہیں آتی۔دنیا قائم و دائم ہے۔مگر انسان مسافر اور پردیسی ہے۔کاش ! ہم اپنی مسافرت کے دن اس کی مرضی کے مطابق گزار سکیں۔
میں حرف بہ حرف فاضل دوست کی شاعری پڑھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔
* انسان اپنی ساری زندگی گنوا بیٹھتا ہے پر وہ اپنی منزل سے غافل ہے۔
* موسموں کی تغییر پذیری کے باوجود بھی کوئی دل کے موسم کا حال نہیں جان سکتا۔
* ہوا کہاں سے آتی ہے اور کہاں چلی جاتی ہے کوئی سمت دریافت نہیں کر سکتا؟
* سب فرزند آدم ہیں سب میں ایک طرح کا خون ہے اس کے باوجود بھی قتل و غارت کی بھوک اور پیاس ختم نہیں ہوتی۔
* صبح و شام کیسے تبدیل ہوتے ہیں ہم اپنی زندگی کے دن نہیں گن سکتے۔
* خوشیاں مل جل کر رہنے سے اچھی لگتی ہیں مگر اس بات کا علم نہیں ہم ایک دوسرے سے کیوں بیزار ہیں۔
* فتنوں کے جال کاٹنے کے لئے محبت سب سے خوبصورت نشتر ہے۔
* ہم دوسروں کے دکھ سن کر افسوس تو کرتے ہیں مگر ہاتھ بٹانے میں کس قدر نکمے ہیں۔
* سورج تو بلا امتیاز رنگ و نسل، مذہب سب کو روشنی دیتا ہے ہم کیوں بٹے ہوئے ہیں۔

میں فاضل دوست کو ان کی شعری اشاعت پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور میرا دل یہ کہنے پر مجبور ہے “جیوندیاں مردیاں آساں” ایک زبردست آس امید اور محبت کا نام ہے۔آج ان صفات میں ڈھلنے کی ضرورت ہے۔
آج جہاں تاریکی ہے وہاں روشنی کی ضرورت ہے۔
جہاں غم کا بادل ہے وہاں محبت کی آب و ہوا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں فکروں کا ہجوم ہے وہاں خوشیوں کے مسام چاہیے۔ اس دعا سے اجازت چاہوں گا خدا انہیں شعر و سخن کی دولت سے مزید مالامال کریں۔ان کے قلم کی روانی دلوں کی زمین زرخیز کرے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی اور سکون لا سکیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply