میر تقی میرؔ ، خواجہ سرا یا ہم جنس پرست؟- عثمان انجم زوجان

قریباً تین سو سال پہلے تاریخ نے جس میر تقی میرؔ کو اکبر آباد، آگرہ، برصغیر پاک وہند میں خدائے سخن کے لقب سے ملقب فرمایا، وہ صنفِ زوجان سے متعف تھے !

خدائے سخن میر تقی میرؔ کی ذات مردانہ و زنانہ دونوں خصوصیات سے بھرپور تھی، اور میر تقی میرؔ کی انہی دونوں خصوصیات کی بناء پہ اکثر تذکرہ نگاروں نے آپ کو ہم جنس پرست قرار دیا ! جیسے اوریا مقبول جان !

میر تقی میرؔ کا تعلق سادات گھرانے سے تھا، میر سادات کا لقب ہے ، اسی وجہ سے میر تقی میرؔ کے آباؤ و اجداد آپنے ناموں سے پہلے میر استعمال کیا کرتے تھے !

خدائے سخن میر تقی میرؔ کتنے بڑے شاعر ہو گزرے ہیں، ان کے معتقد کون کون سے شعراء رہے، ان سب کا تذکرہ ابھی موخر کیا جاتا ہے، البتہ میر تقی میرؔ کا ایک شعر پیش خدمت ہے !

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اسی کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا

خدائے سخن میر تقی میرؔ زوجان تھے، اس بات کا تاریخی طور پر کوئی واضح ثبوث تو نہیں ملتا، البتہ ان کے اپنے 80 فیصد اشعار ایسے ہیں ، جو کہ کچھ نقاد ان کے مانتے نہیں، جن کو پڑھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے، کہ میر تقی میرؔ لونڈوں کے دلدادہ اور ان کے عشق میں فریفتہ رہے !

یاداش بخیر! فیوض غوث یزدانی میں شیخ علی بن ہیتی راوی ہے، آپ کہتے میں چاند کی انتیس تاریخ کو میر میراں پیر پیراں عبد القادر جیلانی قدس سرہ الربانی کے پاس گیا تو ان کے ہجرے سے ایک خوبرو لونڈا نکلا، میں نے عرض کیا کہ حضور والا! وہ خوبرو لونڈا کون تھا، کہنے لگے !
وہ کوئی لونڈا نہ نہیں بلکہ عید کا چاند تھا اور آج مجھ سے پوچھنے آیا تھا کہ انتیس کو نکلوں یا تیس کو !

ذکر میرؔ میں درج ہے کہ ان کے والد میر محمد علی متقی، جو حجاز کے رہنے والے تھے، ان سے اکثر کہا کرتے تھے,
اے میرؔ عشق کیا کر کہ دنیا کے اس کارخانے میں عشق ہی کا تصرف چلا کرتا ہے !

میر تقی میرؔ بے سروسامانی کے کیف میں اسی عشق کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے، اسی حالت کیف میں انھیں جنون کے دورے پڑنے لگے اور وہ بے دماغی، بے قراری، بے کسی اور بے طاقتی کا شکار ہوئے، جیسا کہ دیوان میرؔ لکھا ہے !

بے دماغی، بے قراری، بے کسی، بے طاقتی
کیا جئیں وہ روگ جن کے جی کو یہ اکثر رہیں

محبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
تھا میر بے دماغ کو بھی کیا ملا دماغ

چونکہ میر کی طبیعت پر ان کے والد کے گہرے اثرات تھے اور انھیں عشق کرنے کی تلقین کرتے تھے، اس لیے وہ اوائل عمر سے ہی عشق سے آشنا ہوۓ، چنانچہ منشی احمد حسین سحر نے لکھا ہے !

شعر ! مشهور است که بشهر خویش با پری تمشا لے کہ از عزیزانش بود، در پرد تعشق طبع و میل خاطر داشته !

ترجمہ ! یہ بات مشہور ہے کہ ان کواپنے شہر میں ایک پری پیکر سے جو ان کی رشتہ دار تھی، در پر دہ عشق اور دلی رغبت تھی !

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

چشم دل کھول اس بھی عالم پر

یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

نقطۂ خال سے ترا ابرو

بیت اک انتخاب کی سی ہے

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز

اسی خانہ خراب کی سی ہے

آتش غم میں دل بھنا شاید

دیر سے بو کباب کی سی ہے

دیکھیے ابر کی طرح اب کے

میری چشم پر آب کی سی ہے

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

لیکن ہر موڑ پر میر تقی میرؔ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا, اس سے پہلے کہ میر تقی میرؔ اس سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے، اس پری پیکر کی شادی کہیں اور ہوگئی !
پھر میر تقی میرؔ مرتے دم تک کنورے رہے اور لڑکوں سے عشق کرتے رہے !

ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان ہوا

اس کے برعکس دوسرے تذکرہ نگاروں نے میر تقی میرؔ کی مجموعی دو شادیوں، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی کا ذکر کیا، پہلی شادی سے ان کے دو بچے تھے، ایک بیٹی شمیم بیگم لکھنوی اور ایک بیٹا میر فیض علی فیض، جبکہ دوسری شادی سے ان کا ایک بیٹا میر حسن عسکری زاراؔ تھا، میر تقی میرؔ کے دونوں بیٹے میر فیض علی فیض اور میر حسن عسکری زاراؔ اپنے زمانے کے بڑے تو نہیں پر نمایاں شاعر اور بیٹی شمیم کو بھی شاعرہ لکھا گیا ہے، جو صاحبِ دیوان تھیں !

ریختہ میں درج ہے کہ میرؔ کی ایک صاحبزادی کا ذکر بعض تذکروں میں ملتا ہے کہ وہ بھی شاعرہ تھیں اور ’بیگم‘ تخلص تھا، ان کے بارے میں یہ روایت بھی مشہور چلی آتی ہے کہ شادی کے معاً بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا جس سے میرؔ کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے یہ شعر کہا !

اب آیا دھیان اے آرام جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

مگر یہ شعر نہ میرؔ کے کلیات مطبوعہ میں ملتا ہے نہ کسی قلمی نسخے میں۔کسی ہم عصر تذکرہ نگار نے بھی اسے میرؔ کی طرف منسوب نہیں کیا، ظاہر ہے یہ واقعہ اختراعی ہے اور یہ شعر امیر اللغات جلد اول میں نادرؔ سے منسوب ہوا ہے اورسب سے پہلے تذکرہ شمیم سخن نے اسے میر کا زائیدہ لکھا ہے، اس کی روایت کمزور ہے۔میر کی اس لڑکی کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتا ہے، بیگم تخلص تھا قیاس کہتا ہے کہ بیگم میر کلو عرش کی بہن تھیں، میر نے دوسری شادی لکھنؤ میں (ہی )کی تھی !
کیونکہ ہمیں میر کی اس بیٹی کا پورا نام معلوم نہیں ہے اور وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئی تھیں اس لیے ہم نے ان کے نام کے ساتھ ’لکھنوی‘ کا لاحقہ لگا دیا ہے، یہ شعر اپنے مزاج کی بنیاد پر بھی خالصتاً لکھنوی معلوم ہورہا ہے۔میر تقی میرؔ کا مطالعہ کرنے پر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ میر ایسا شعر نہیں کہہ سکتے تھے۔یہ شعر میر کی شاعری کے مزاج کے مطابق ہرگز نہیں ہے !

صحیح الاسناد بات یہ ہے کہ میر تقی میرؔ نوے سالہ زندگی میں کنوارے رہے اور لونڈوں سے عشق کرتے رہے، ناصر کاظمی میرؔ ہمارے عہد میں لکھتے ہیں !
” میر نوے سال کی طویل زندگی میں عالم، نقاد، عشق پیشہ، بادشاہوں کے ہم نشیں، درویش، ایک بڑے شاعر، غرض ایک بھر پور شخصیت تھے، انھوں نے کیا کچھ نہیں دیکھا ”

میر تقی میرؔ نے چھ دیوانوں میں 13,590 اشعار تحریر کیے جن میں 86 فیصد شعروں میں معشوق کی جنس مرد ہے، جس کے لیے میرؔ نے لونڈا لفظ کا انتخاب کیا !

سنسکرت میں لونڈا ایسا حرف ہے، جو ایسے لڑکوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جن کی ابھی داڑھی مونچھ نہ نکلی ہو، اردو کے شعری ادب میں لونڈوں کا جتنا استعمال میر تقی میرؔ نے کیا ہے اتنا کسی اور شاعر کے ہاں نہیں ملتا ،ا۔ بلکہ میرؔ نے تو شعروں میں لونڈوں کا استعمال ویسے ہی کیا جیسے سعادت حسن منٹو نے نثر میں عورت کا !

عربی شاعری میں معشوق کی جنس لڑکی ہوتی ہے  لیکن فارسی شاعری یعنی رومی، حافظ، اور جامی اور اردو شاعری میں میر تقی میرؔ کی شاعری میں معشوق ایک چودہ سالہ لونڈا ہوتا ہے، جس کی کمر پتلی، جس کا دہانہ بہت پتلہ ہوتا ہے اور جس کے کولہے بہت بڑے ہوتے ہیں !

میر تقی میرؔ کے یہ اشعار ایسے نمونے ہیں کہ انھیں نقل کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، لڑکے یا لونڈے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں، چہرے پر ہلکے ہلکے روئیں آنے کو خط آنا کہتے ہیں، اس کو بھی میر تقی میرؔ نے سو طرح کے مضمون سے باندھا ہے !

وہ جو عالم اس کے اوپر تھا وہ خط نے کھو دیا
مبتلا ہے اِس بلا میں میرؔ اک عالم ہنوز

میر تقی میرؔ کا مشہور زمانہ شعر سب نے سنا ہو گا !

کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں
اس نسخہ کی کوئی نہ رہی ہم کو دوا یاد

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوۓ جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

میر تقی میرؔ صاحب کے معشوقوں میں صرف عطار کا لونڈا ہی نہیں بلکہ سید کا لونڈا، مطرب کا لونڈا ، زرگر کا لونڈا ، سپاہی کا لونڈا ، معمار کا لونڈا ، طبیب کا لونڈا ، اٹھانہ خان کا لونڈا ، برہمنوں کا لونڈا ، مفتی کا لونڈا ، دھوبی کا لونڈا ، معمار کا لونڈا، صراف کا لونڈا ، اتوکش کا لونڈا ، گلفروش کا لونڈا ، کشتی گیر کا لونڈا ، طفلانِ بازار کا لونڈا، طفلانِ تہہ بازار کا لونڈا، آتش باز کا لونڈا، سپاہی کا لونڈا ، برہمن کا لونڈا، مغل کا لونڈا ، ترک کا لونڈا غرض کوئی نظرِ عشق سے محروم نہ رہا !

سجدہ کریں ہیں سن کر اوباش سارے اس کو
سید پسر وہ پیارا ہے گا امام یاں کا

کیوں نہ اے سید پسر دل کھینچے یہ ہوۓ دراز
اصل زلفوں کی تری گیسوے پیغمبر سے ہے

ہم تو مطرب پسر کے ماتے ہیں
گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں

کیا جانے قدر غنچۂ دل باغباں پسر
ہوتے گلاب ایسے کسو میرزا کے پاس

ترش رو بہت ہے وہ زرگر پسر
پڑے ہیں کھٹائی میں مدت سے ہم

ہم اس مرتبہ پھر بھی لشکر گۓ
تعجب ایسی گزرے کہ مر مر گۓ

نظر ایک سپاہی پسر سے لڑی
قریب اس کے تلوار کر کر گۓ

معمار کا وہ لڑکا پتھر ہے اس کی خاطر
کیوں خاک میں ملا تو اے میرِ دل شکستہ

یک نسخۂ عجیب ہے لڑکا طبیب کا
کچھ غم نہیں ہے اس کو جو بیمار ہو کوئی

لڑکا عطار کا ہے کیا معجون
ہم کو ترکیب اس کی بھائی ہے

لڑکے برہمنوں کے صندل بھری جبینیں
ہندوستاں میں دیکھے سو ان سے دل لگاۓ

برہمن زادگانِ ہند کیا پرکار سادے ہیں
مسلمانوں کی یارانے ہی میں تکفیر کرتے ہیں

سخت کافر ہیں برہمن زادگان
مسلموں کی ان کے ہاں تکفیر ہے

مت چوکو اس جنسِ گراں کو دل کو وہیں لے جاؤ تم
ہندوستاں کے ہندو بچوں کی بہت بڑی سرکار ہے آج

ترک بچہ سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
رفتہ رفتہ ہندوستاں سے شعر مرا ایران گیا

طوالت سے بچنے کے لیے میں اس موضوع کو یہیں  پر ختم کر رہا ہوں، چند اشعار جو پیش کیے گئے ہیں ان کے علاوہ کافی تعداد میں اشعار ملتے ہیں۔
آخر میں میر تقی میرؔ کے اس شعر پر اجازت چاہوں گا !

کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میرؔ
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ

اس مضمون کی تیاری میں جن جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے !

Advertisements
julia rana solicitors london

جنسیاتی مطالعے از علی جلالپوری ، گمنام شاعر از علی نورد ، فیوض غوث یزدانی از عبد القادر جیلانی قدس سرہ الربانی ، میر ہمارے عہد میں از ناصر کاظمی ، ذکر میرؔ آز میر تقی میرؔ ، کلیاتِ میر از شمس الرحمن فاروقی، اردو
شاعری کا معشوق از اوریا مقبول جان، سیم سیکس لو ان انڈیا از روتھ ونیتا، رابی پیر زادہ سچ کہتی ہیں از جمل ملک ، دیوان عرش از حبیب خان ، میر حیات اور شاعری از پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ، میر کا تصور غم از بشریٰ اسوہ گرلز کالج ، بشکریہ جسارت میگزین مارچ 2012 ، میر تقی میرؔ اور شیزو فرینیا از حمیر ہاشمی ،آب حیات از مولانا محمد حسین آزاد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply