• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مولوی محمد امین زبیری مارہروی : اردو کے اہم نقاد، محقق،سوانح نگار اور تبصرہ نگار۔۔۔۔ احمد سہیل

مولوی محمد امین زبیری مارہروی : اردو کے اہم نقاد، محقق،سوانح نگار اور تبصرہ نگار۔۔۔۔ احمد سہیل

میں ایک عرصے سے محمد امین زبیری کو پڑھتا آرہا ہوں ان پر مختلف ادبا اور دانشوروں کے مضامین اور ان پر انتقادات بھی پڑھی۔ ان کی  تحریروں کو پڑھ کرمیرا ذہن تشکیک کا شکار بھی رہا۔ اور ان کی تحریرین خاصی متنازعہ بھی رہیں ۔ مگر امین  زبیری کی تحریروں میں سچائی کے  عنصر نے راقم السطو کو متاثر بھی کیا، اور میں ان کے علمی انتقادی فطانت کی کھوج میں ہمیشہ رہا۔ میں یہاں محمد امین زبیری کی تنقیدی  اور تحقیرِ ذہن پر کچھ باتیں کروں گا۔ ان پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے ۔ اور ان پر لکھنے کے لیے بہت کچھ  ہے اور گنجائش بھی ہے ۔ میں چاہتا ہوں دوست اس موضوع پر بات کریں اور اس موضوع کو توسیع دیں۔

مولوی امین زبیری { آمد : 1872، قصبہ درد، ضلع نینی تال یوپی موجودہ اتر آنچل۔۔۔۔ رخصت :1958، کراچی پاکستان، پاپوش نگر کے قبرستان میں پیوند زمین ہیں}
{ ان کے نام کے ساتھ منشی بھی لکھا جاتا تھا۔ }
انھوں نے اپنی اردو ، فارسی عربی کی ابتدئی تعلیم اپنے والد صاحب مولوی امانت حسین شفا سے حاصل کی۔ پھر رام پور کےاینگلو ورنا کیولر اسکول میں داخل ہوئے ۔ جب وہ 18 سال کے تھے تو ان کے والد فوت ہوگئے۔ اور گھر کے معاشی حالات خراب ہوگئے۔ تو انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڈ کر گوالیار اور یوپی کے مختلف اضلاح پرتاب گڑھ، اور بارہ بنکوی وغیرہ میں محکمہ بند وبست اراضی میں محرری کی ملازمت اختیار کی۔کچھ وقت  بعد 1893 میں  ممبئی کے ایک اخبار ” مسلم ہیرلڈ” میں بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کیا۔ بھر نواب محسن الملک کی سفارش پر بد دالدین  طیب جی کے اخبار ” مراۃ الاخبار” میں نائب مدیر مقرر ہوئے ۔ پھر نواب بھوپال والی ریاست بھوپال سلطان جہاں بیگم کے ادبی معاون کے طور پر24 سال کام کیا۔ انھوں  نے نواب بھوپال کے خاندان کی 1717 سے 1917 تک کی بیگمات کا تذکرہ لکھا ہے۔
مولوی امین زبیری نے 26 سے زائد تذکرے، سوانح، تاریخ اور تنقید پر کتابیں لکھین ۔ جن پران کا تحقیقی مزاج اور ذہن حاوی ہے۔ ان کی چند اہم کتابیں یہ ہیں:
1۔ تذکرہ محسن {1950} ۔۔۔۔ 2۔ پرنس آغا خان {1950}۔۔۔۔ 3۔ ضیا حیات {1952} ۔۔۔۔۔4۔ حیات محسن {1934}۔۔۔۔۔5۔ تذکرہ سید محمود { 1952} ۔۔۔ 6۔ تذکرہ مولانا حالی {1925} ۔۔۔۔۔ 7۔ خطوط وبلی مع مقدمہ مولوی عبد الحق {1925} ۔۔۔۔۔ 8۔ ذکر شبلی {1953} ۔۔۔۔۔ 9۔ شبلی کی رنگیں راتین {1952} ۔۔۔۔۔10خدوخال اقبال {1986} ۔۔۔۔۔
امین زبیری کی شبلی نعمانی پر لکھی ہوئی دو/2 کتابوں پر بہت شہرت ملی۔ ان کی ایک کتاب ” ذکر شبلی” جو لاہور سے 1953 میں شا ئع ہوئی۔ مولانا شبلی کو ریاست بھوپال میں عزت اور منزلت امین زبیری کی وجہ سے ملی۔ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد اور خاص کر ان کی  سوانح حیات ان کی دوستی میں کھٹاس پیدا ہوئی۔ جو ” ذکر شبلی” اور اس کے بعد کی تحریروں میں ایک فکری ردعمل کے طور پر سامنے آیا۔ ۔ ” ذکر شبلی” کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کی “حیات شبلی” پر نقد اور تنقیص ہے۔ اس سلسلے میں امین زبیری کا یہ موقف ہے ۔۔۔۔” مگر قیام علی گڑھ میری علامہ سیدسلیمان ندوی سے وقتا فوقتا ًملاقات ہوئی۔ اس میں ان کی بعض باتوں سے محسوس ہوا کہ وہ علی گڑھ اور سرسید سےسخت تعصّب بلکہ نفرت رکھتے تھے۔ اور مسلم لیگ کی حقارت اور مسلم سیاست سے بے زاری ان کے دل کی برائیوں  اور جسم کا ریشہ ریشہ میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس وجہ سے خیال ہوا کہ  اگر حیات شبلی میں بھی رجحانات و میلانات رہے تو وہ لائف نہ ہوگی۔ کوئی اور چیز ہو گی۔ اس لیے راقم نےدرخواست کی کہ طباعت سے قبل علی گڑھ کا حصہ مجھے بھی دکھایا جائے۔ لیکن باوجود یکہ کم وبیش ایک مہینہ مولوی عبد السلام نواب صدر یار جنگ کو مسودہ دکھانے کے لیےعلی گڑھ میں مقیم رہے۔ مگرمجھے اعتراض رہا ، بھر جب کتاب شائع ہوئی تو نظر آیا کہ  شبلی کی تمام مبینہ سوانح نگاری لوح دل سے محو کردئیے گئے” { ذکر شبلی، دیباچہ}
خطوطِ شبلی کو نظر انداز کرنا اور علی گڑھ اور سرسید کی مخالفت بنیادی سبب قرار پاتے ہیں شبلی کی مخالفت کے۔ اس سلسلے میں زبیری صاحب کا ایک اَوربیان بھی قابلِ ذکر ہے۔ ۱۹۳۶ء-۱۹۳۷ء میں کانگریس کی طرف سے مسلم عوام سےرابطہ کرنے اور مسلم لیگ کی قوت توڑنے کی مہم شروع ہوئی تو ابوالکلام آزادنے بھرپور کردار ادا کیا۔ زبیری صاحب کے خیال میں اگرچہ وہ ناکام رہے،تاہم۱۹۴۰ء میں انھیں کانگریس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ دارالمصنّفین اور انکے رفقا سے قریبی تعلق کی بِنا پر یہ اعزاز اس ادارے کے لیے باعثِ فخر تھا۔زبیری صاحب لکھتے ہیں:
اسی زمانے میں حیاتِ شبلی مرتب ہو رہی تھی، اس میں اتحادِ اسلامی اورکانگریس کی ہمراہی کو شبلی کا فیض صحبت تو دِکھایا، مگر مسلم انڈیا کےاعتماد قطعی زائل ہونے اور ان [ابوالکلام آزاد] کو شوبوائے سمجھے جانے کااشارۃً بھی ذکر نہیں کیا۔
محمد امین شبلی مخالفت مولوی عبد الحق کے زیر اثر رہی ہیں۔
1950 میں وحید قریشی نے ایک کتاب ” شبلی کاحیات معاشقہ” لکھی اس کتاب میں انھوں نے امین زبیری کے ایک مضمون سے مدد لے کر شبلی کی عشقیہ محرکات اور مزاج کا بہتریں تجزیہ کیا ہے۔ امین زبیری علی گڑھ تحریک اور سرسید کے خلاف سنا نہیں چاہتے تھے ۔ جو اس کی مخالفت کرتا تھا ۔ اسے وہ آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ جب سلیمان ندوی { شاگرد شبلی نعمانی} نے جب سرسید پر شبلی کو فوقیت دی تو وہ ان کے شدید مخالف ہوگئے۔ اس مخالفت کے سبب انھون نے سلیمان ندوی کی کتاب” حیات شبلی” پر اتنا مربوط تبصرہ کیا اور وہ ایک کتابی صورت اختیارکرگیا۔ اور شبلی جعمانی کے خطوط بنام عطیہ فیضی شائع کرکے ان کے حسن و جمال اور گرم جذبات کو بےنقاب کیا۔ بت شکنی اس کی سرشت مین گندھی ہوئی تھی۔ نواب وقار الملک کی سیرت ” وقار حیات ” پر جب مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی نے اختلافات پیش کئے تو ان کی علمیت سے متاثر ہوئے بغیر امین  زبیری نے بڑے جارہانہ اور ایک سخت تنقیدی کتابچہ لکھ کر ان کو خاموش کردیا تھا۔ لہذا وحید قریشی اپنی کتاب ” شبلی کی حیات معاشقہ” میں لکھا ہے۔ “عطیہ بیگم سے ادھیڑ عمر کی شبلی کو جس جذباتی تموج سے آشنا کرتا ہے اور اشعار کی صورت میں کس طرح سے ارتفاع پایا ۔ {صفحہ 33}
ذکرِ شبلی سے امین زبیری کا اطمینان نہ ہوا تو اسی برس (۱۹۴۶ء) خطوطِ شبلی کو بنیاد بنا کر شبلی کی زندگی کا ایک رنگین ورق مرتب کر ڈالی۔ یہ محض اکتالیس صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ تھا، جسے بعد میں اضافہ و ترمیم کے ساتھ۱۹۵۲ء میں شبلی کی رنگین زندگی کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس وقت یہی ایڈیشن پیش نظر ہے، جسے جمیل نقوی نے مرتب کیا۔ مرتب نے درست لکھا ہے کہ شبلی کی رنگین زندگی کچھ ایسی رنگین نہ تھی، جسے پیش کرتے ہوئے تکلف محسوس ہو‘ اوریہ کہ ’اُن [عطیہ] کے ساتھ مولانا شبلی کو جو لگاؤ تھا، اس کی وجہ سواے اسکے اَور کچھ نہیں کہ مولانا اپنے سابقہ خشک زاہدانہ ماحول سے نکل کر دفعتاً  ایک زیادہ خوش گوار اور حیات افروز ماحول سے دوچار ہوئے، جس نے ان کےخوابیدہ جمالیاتی احساسات کو بیدار کر دیا‘۔ خود زبیری صاحب مؤلف حیاتِ شبلی کے اس بیان کے پیچھے پناہ لیتے ہوئے  ہیں کہ ’عشق و محبت کا جذبہ فطرتِِ نسانی کا خمیر ہے‘ ۔۔۔ فرماتے ہیں کہ ’ہمارا فلسفہ اخلاق تو عشق نفسانی کوبھی ایک فضیلت قرار دیتا ہے‘، چنانچہ ان کے خیال میں ’اگر مولانا شبلی کےعشق و محبت کے افسانوں کو بیان کیا جائے تو ان کی علمی و قومی عظمت میں کوئی فرق نہیں آ سکتا‘ اور ’یہ مختصر تبصرہ نہ توشبلی کی تفضیح و تضحیک ہےاور نہ بدطینتی پر مبنی ہے، بلکہ تکملہ حیاتِ شبلی ہے‘۔ شبلی نعمانی کے لیے ’علامۂ دَوراں‘ اور ’مولاناے مرحوم‘ کے القاب امینزبیری کے دل میں مکتوب نگار کے لیے احترام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں؛ اسیطرح مکتوب الیہم علامہ کے خطوط کو ’ہر چیز سے عزیز‘ رکھتی ہیں اور علامہ کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کے لب و لہجہ اور الفاظ سے احترام ، عظمت اور محبتنمایاں ہوتی ہے؛ گویا اس مجموعے کی اشاعت تک مرتب یا مکتوب الیہم کے ہاںعلامہ شبلی کے بارے میں کسی منفی جذبے یا خیال کا شائبہ نہیں ملتا۔

خطوطِ شبلی کی بنیاد پر اسماعیل یوسف کالج میگزین بمبئی (۱۹۳۴ء) میں نجیب اشرف ندوی کا مضمون ’شبلی اور بمبئی‘، تماہی ہندوستانی الٰہ آباد (اکتوبر۱۹۳۶ء) میں قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی کا مضمون ’مولانا شبلی بحیثیت شاعر‘ اور کتاب (اپریل ۱۹۴۵ء) میں وحید قریشی کا مضمون ’شبلی کی حیاتِمعاشقہ‘ شائع ہوا؛ جب کہ نومبر ۱۹۴۳ء میں آل انڈیا ریڈیو دہلی سے ’شبلی کی شخصیت خطوں کے آئینے میں‘ کے نام سے سلطان حیدر جوش کی ایک گفتگو نشر ہوئی؛البتہ شبلی کی شخصیت کے بارے میں مرتبِ خطوطِ شبلی کا پہلا منقی ردّ عملحیاتِ شبلی کی اشاعت کے بعد ذکرِ شبلی کے نام سے۱۹۴۶ء میں منظر عام پر آیا۔نجیب اشرف ندوی، قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی اور سلطان حیدر جوش وغیرہ کی تحریریں اور تقریریں گمنامی کی نذر ہوگئیں، لیکن وحید قریشی کے مقالے کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ امین زبیری کےتحریریں انکشافات بھی ہیں تو دوسری طرف اپنے قاری کو ادبی اور فکری تاریخ کر نظر ثانی کرنے پر بھی اکساتے ہیں کہ یہ آصل بات وہ نہیں ہے جو ہم کو بتائی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

* ماخذات *
1۔ڈاکٹر محمد منیر۔ وفیات،2008، اکادمی ادبیات پاکستان
2۔محمد امین زبیری ، ” ذکر شبلی” 1953، مکتبہ جدید لاہور
3۔ محمد امین زبیری، شبلی کی رنگیں راتین، 1952، فاروق عمر پبلیشر، لاہور۔
4۔۔ محمد امیں زبیری، ” شبلی کا جرم محبت اور سلیمان ندوی”اکتوبر 1945 نگار۔ اکتوبر
5۔ماہنامہ تہذیب ، اپریل 2001، کراچی
6۔ ڈاکٹر ابوزر متین ،مولوی محمد امین مارہری — پرستار، ماہنامہ تہذیب اخلاق،جلد 23، شماری 4۔ اپریل 2013 علی گڑھ، یوپی بھارت۔
7۔ ڈاکٹر وحید قریشی” شبلی کا حیات معاشعقہ “1950۔ مکتبہ جدید لاہور۔
خصوصی شکریہ:بدایوں یوپی کے معید کامران علی احسن نےاس مضمون کی تیاری میں مواد ارسال کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply