بابل کی رانیاں/چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

کچھ عرصہ قبل دوست نے فیس بک پر ایک وڈیو شیئر کی جس میں بیٹی رخصتی کے وقت نکاح رجسٹر پر دستخط کر رہی ہے اور اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں. کس طرح بیٹیاں بچپن سے جوانی تک ماں باپ کے گھر ناز و نعم میں پل کر جونہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں شرعی طریقہ سے رخصت ہو کر چپ چاپ دوسرے گھر چلی جاتی ہیں جو ان کا اصل گھر کہا جاتا ہے. بیٹی کی شادی پر رخصتی باپ اور بیٹی دونوں کیلئے ناقابل بیان حد تک مشکل گھڑی ہوتی ہے. واہ میرے مولا تیرا نظام ہے۔ اے میرے مولا ہر بیٹی کے نصیب اچھے فرما اور ہر بیٹی کو اس کے سسرال میں سکون اور خوشی والی زندگی عطاء فرما۔

بیٹیاں تو باپ کا مان ہوتی ہیں۔بیٹی اپنے بچپن سے لیکر بڑے ہونے تک باپ کیساتھ کتنا پیار کرتی ہے، باپ کیساتھ چھوٹے چھوٹے لاڈ کرتی ہے، بہن یا بھائی سے کوئی لڑائی ہو جائے تو اپنے دونوں بازو باپ کے گلے میں ڈال کر باپ کیساتھ پیار سے چمٹ کر رو رو کر شکایت کرتی ہے،باپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں، اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے باپ کے جوتے تک صاف کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں، سلیقے سے کھانا دیتی ہے اور وقت پر چائے بنا کر اپنے نرم و نازک اور ننھے منے ہاتھوں سے پیش کرتی ہے، باپ جب کبھی ذرا سا بیمار ہو جائے تو بیٹی سب سے زیادہ بیقرار ہوتی ہے اور رات کو اُٹھ اُٹھ کر باپ کے پاؤں دباتی ہے، دوا کے اوقات یاد رکھتی ہے۔ باپ شام کو لیٹ گھر آئے تو بے چینی سے بار بار دروازے کی طرف دیکھتی ہے اور گھر کے صحن سے گیٹ تک بیسیوں چکر کاٹتی ہے۔باپ کے گھر آتے ہی بیٹی کے چہرے پر رونق آ جاتی ہے اور باپ سے لپٹ کر لاڈ سے شکوے کرتی ہے، جس سے باپ کی پدرانہ شفقت بہت بڑھ جاتی ہے، باپ کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے لیکن اپنی ضروریات بتاتے وقت اکثر ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باپ بیٹی کا پیار بھی لازوال پیار ہوتا ہے۔وہ بھی بیٹی کا بیحد خیال رکھتا ہے، ہر پل بیٹی کے بارے سوچتا رہتا ہے، جب کبھی بازار میں کوئی ایسی شے نظر آئے تو بیٹی کیلئے ضرور خرید لیتا ہے،بیٹی بیچاری معمولی سی شے لیکر بھی خوش ہو جاتی ہے اور ہر ایک کو خوشی سے بتاتی ہے کہ یہ میرے بابا میرے لیے لے کر آئے ہیں، پھر وہ دن بھی آتا ہے کہ نظام خداوندی کے تحت اپنے جگر کے ٹکڑے کو خود سے جدا کرکے اگلے ہاتھوں میں دینا ہوتا ہے اور بیٹی اپنا گھر، اپنے ماں باپ، بہن، بھائی جن کیساتھ اپنی بچپن سے جوانی تک کی زندگی گزاری ہوتی ہے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اگلے گھر سُدھار جاتی ہے جہاں سب کچھ نیا ہوتا ہے اور ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہوتی ہے۔رخصتی کے وقت باپ بیٹی کے دل پر کیا بیتتی ہے یہ وہ دونوں ہی بہتر جانتے ہیں اس کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے اور ایک آخری بات خدا کی قسم یہ تحریر لکھتے وقت بہت کنٹرول کرنے کے باوجود میری آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور دل بھاری ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر مزید لکھنے کی ہمت نہیں رہی۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply