• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دنیا کا انوکھا ترین جزیرہ۔ شمالی سینٹینل آئی لینڈ۔۔محمد عبدہ

دنیا کا انوکھا ترین جزیرہ۔ شمالی سینٹینل آئی لینڈ۔۔محمد عبدہ

 دنیا کا مشکل ترین جزیرہ، دنیا کا سب سے خطرناک جزیرہ، دنیا کا سب سے اکیلا جزیرہ، دنیا کا سب سے عجیب و غریب جزیرہ،دنیا کا سب سے انوکھا جزیرہ۔۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا آخری آباد علاقہ ہے جس کا باقی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ دنیا میں ایک ایسا جزیرہ بھی ہے جس کے بارے میں یہ سب باتیں کہی جاتی ہیں۔ بھارت کی سمندری حدود کے اندر بحر بنگال میں انڈیمان اور نیکوبار کے جزائر ہیں۔ یہ جزائر تاج برطانیہ کے پاس تھے جو تقسیم ہند کے وقت بھارت کو منتقل ہوگئے۔ انڈیمان جزائر کی وجہ شہرت کالا پانی کی قید ہے۔ پورے برصغیر سے انگریز حکومت اپنے مخالفین کو یہاں قید رکھتی تھی۔ انڈیمان کے مغرب میں 32 کلومیٹر کے فاصلے پر 5 جزیرے ہیں جو سینٹینل کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جنوبی سینٹینل سمیت چار جزیرے ویران ہیں۔ جبکہ صرف ایک شمالی سینٹینل جزیرہ آباد ہے اور عجیب و غریب کہانیوں کی آماجگاہ بھی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں 50 سے 400 تک لوگ آباد ہیں۔ یہ بڑا دلچسپ سوال ہے کہ جب کوئی مستند ذرائع نہیں ہے تو سینٹینل جزیرے کی آبادی کا اندازہ کیسے لگایا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے اس کی آبادی 40 سے 400 نفوس تک ہے۔ زیادہ تر ماہرین کے مطابق 300 کی تعداد معتبر ہے۔ کچھ پرانے ریکارڈ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہیں جن کے مطابق 1901 میں آبادی 117 تھی۔ 1931 میں 50 اور 1991 صرف 23 نفوس پر مشتمل تھی۔ آخری اندازہ 2011 کا ہے جس کے مطابق 40 ہے۔ یہ لوگ کون ہیں کہاں سے آئے تھے۔ انکا رہن سہن کیسا ہے۔ ان کی زبان کیا ہے’سوائے چند اندازوں کے اس بارے کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ گھنے جنگلوں میں گھاس پھوس سے ہٹ جیسے گھر بنے ہوئے ہیں جن کے سامنے کوئی دیوار یا برآمدہ نہیں ہے۔ ان کی خوراک پھل سبزیاں شہد جنگلی سور کچھوے اور مچھلیاں ہیں۔ یہ قوم دنیا کی انوکھی و اکیلی ترین قوم کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اسے دنیا کے خودمختار جزیروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نارتھ سینٹینل آئی لینڈ کا رقبہ 60 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی لمبائی 7.8 اور چوڑائی 7 کلومیٹر ہے۔ موسمی اعتبار سے ٹراپیکل خطہ ہونے کی وجہ سے بارشیں ہر وقت ہوتی ہیں۔ پورا سال درجہ حرارت 25 سے 30 کے درمیان رہتا ہے۔ انڈیمان میں رہنے والوں کو Onge کہا جاتا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ سینٹینل میں Onge قوم کا ہی کوئی قبیلہ رہتا ہوگا۔ جبکہ Onge کے مطابق ہم ان کی زبان نہیں جانتے۔ یہ اب سینٹینلیز Sentinelesse کہلائے جاتے ہیں۔

 

 

 

تاریخ میں انڈیمان کے یہ تمام جزائر ایک تامل بادشاہ راجندرا کے زیر سلطنت رہے ہیں راجندرا چولا بادشاہت کا حصہ تھا اور اس کی حکومت 1014 سے 1044 تھی۔ راجندرا نے یہ سب جزائر دفاعی نقطہ نظر سے آباد کیے اور یہاں فوجی چھاؤنیاں بنائی تھیں۔ تاکہ انڈونیشیا سماٹرا کی سری وی جایا بادشاہت کے خلاف جنگیں لڑ سکے۔ سترھویں اور اٹھاریوں صدی میں یہ جزائر تامل ناڈو کے ماراٹھا بادشاہت کے پاس آگئے اس کے بعد یہاں کا کنٹرول انگریزوں نے سنبھال لیا۔ پچھلے دو سو سال میں اس جزیرے پر جانے یا اس پر معلومات حاصل کرنے کی لاتعداد کوششیں ہوئی مگر ساری بے سود رہیں۔

تاریخ میں اس جزیرے کا دنیا کو سب سے پہلے اس وقت پتہ چلا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک سروے ٹیم نے 1771 میں اپنی ایک رپورٹ میں اس جزیرے کا  ذکر کیا۔ وہ اس کے پاس سے گزرے اور رکے بغیر آگے نکل گئے۔ انہوں نے اسے افسانوی جزیرہ قرار دیا تھا۔ 1867 میں انڈیمان سے کچھ لوگ فرار ہوگئے۔ انڈیمان کا انگریز افسر مقامی لوگوں کی مدد سے ان کی تلاش میں نارتھ سینٹینل جزیرے کی طرف جا نکلا۔ ابھی وہ ساحل سے کچھ دور تھے لمبے والوں ننگ دھڑنگ قبائلیوں نے تیر و نیزے سے ان کی کشتی پر حملہ کردیا۔ یہ قریب جائے بغیر واپس آگئے۔

اسی سال انڈین نیوی کا ایک جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوا جس میں سو سے زیادہ لوگ سوار تھے۔ وہ تین دن تک ساحل پر رہے۔ اس دوران مقامی قبیلہ کی طرف سے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ شاید تعداد زیادہ ہونے پر وہ قبیلہ جزیرے کے اندر گھنے جنگلوں میں چھپ گیا ہو۔ تیسرے دن کچھ قبائلی جن کے سیاہ چہرے ناک پر سرخ رنگوں سے ڈیزائن تھے حملہ آور ہوئے ان کے نیزوں کے آگے لوہے کی انی لگی ہوئی تھی۔ نیوی کپتان کے مطابق وہ کچھ باتیں کررہے تھے یا نعرے لگارہے تھے ان کے الفاظ “pa on ought”جیسے تھے۔ مزید کسی تصادم سے پہلے یہ واپس   لوٹ آئے۔

جنوری 1880 میں ایک برطانوی فوجی مہم سینٹینل جزیرے پر گئی۔ لوگ انہیں دیکھ کر جنگلوں میں چھپ گئے۔ اس مہم کو ایک جگہ ایک خاندان ملا جس میں دو بوڑھے ماں باپ اور چار چھوٹے بچے تھے۔ انہیں انڈیمان لے جایا گیا جہاں وہ بہت جلد بیمار ہوگئے۔ بوڑھی عورت و مرد اسی بیماری میں کچھ عرصہ بعد مرگئے۔ فوجی ٹیم چاروں بچوں کو بہت ساری خوراک اور تحائف دے کر واپس ان کے جزیرے پر چھوڑ آئی۔

اس کے بعد 1896 میں انڈیمان سے تین قیدی بھاگ کر نارتھ سینٹینل چلے گئے ان کی تلاش میں جانے والی پارٹی کو دو کا کچھ پتہ نہیں چلا جبکہ تیسرے کی لاش ساحل پر پڑی ملی جس کی ناک کٹی ہوئی تھی اور جسم نیزوں سے چھلنی تھا۔ 1967 میں ایک بھارتی پنڈٹ جزیرہ پر گیا انہیں دیکھ کر قبیلہ جنگلوں میں چلا گیا جس پر پنڈٹ کی ٹیم نے لائے ہوئے سارے تحفے ان کے ہٹ کے سامنے رکھ دئیے اور واپس آتے ہوئے  ان کی کچھ یادگار چیزیں بھی لیتے آئے جس میں تیر کمان، ٹوکری اور ایک جنگلی سور کا ڈھانچہ تھا۔

1970 میں ایک اور پارٹی جزیرے پر گئی پہلے انہوں نے دور سے ہی کافی ساری مچھلیاں جزیرے پر پھینکی جس کا مطلب تھا کہ ہم دوستی چاہتے ہیں۔ بہت کوشش کے باوجود کچھ اچھا جواب نا آیا تو یہ ٹیم بھی واپس آگئی۔ نیشنل جیوگرافک کی ایک ٹیم 1974 میں اس جزیرے پر آئی۔ وہ ایک ڈاکومینٹری فلم بنارہے تھے جس کا نام “Man in search of man” تھا۔ ان کے ساتھ بہت سارے فوٹوگرافر اور مسلح سپاہی تھا۔ ساحل پر پہنچ کر انہوں نے کچھ تحفے ساحل پر چھوڑے جن میں ناریل پکانے کے برتن بچوں کی کھلونا کار گڑیا اور ایک زندہ سور تھا۔ قبائلیوں نے سب چیزیں اٹھا لیں اور تیروں سے حملہ کردیا ایک تیر فلم ڈائریکٹر کی ران میں لگا اور وہ شدید زخمی ہوگیا۔ ٹیم اپنی مہم ختم کرکے واپس آگئی۔

1974 میں ایک اور کوشش کی گئی جب انڈین نیوی نے ساتھ کے جزیرے سے چند Onge لوگ ساتھ لیے کہ شاید ان کی وجہ سے کچھ اچھا جواب مل جائے مگر Onge لوگوں کی زبان بھی کچھ کام نہ  آئی۔ 1981 میں جزیرہ کے قریب ایک کارگو جہاز خراب ہوگیا اور جہاز کا عملہ چھوٹی کشتیوں پر نارتھ سینٹینل جزیرہ پر چلا گیا۔ یہ   ساحل کے قریب   کشتیوں میں رہے۔ بعد میں انڈین آرمی کے ہیلی کاپٹر پر سب کو واپس لایا گیا تھا۔ جنوری 1991 میں ایک ٹیم جزیرہ پر پہنچی اور حیران کن طور پر قبائلی ان کے قریب آگئے۔ اس ٹیم نے کافی تصویریں بنائیں۔ اب تک نارتھ سینٹینل جزیرے کی جتنی بھی تصویریں ہیں وہ اسی مہم کی کاوش ہے۔

ایک اور کامیاب سروے مہم 1991 میں اس جزیرے پر اتری۔ لیکن اس سروے ٹیم سے بھی زیادہ معلومات نہ  مل سکیں۔ 2004 سونامی سے سینٹینل کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے سونامی کے تین دن بعد  بھارتی آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر اس جزیرے پر آیا مگر مقامی لوگوں نے دور سے ہی تیر اور نیزے کے ساتھ حملہ کردیا جس سے ہیلی کاپٹر اترے بغیر واپس آگیا۔

جنوری 2006 میں دو مچھیرے جو کہ قریب ہی مچھیلیاں پکڑ رہے تھے کہ ان کی کشتی خراب ہوگئی  اور مقامی لوگوں نے انہیں پکڑ کر مار دیا۔ نارتھ سینٹینل جزیرہ جغرافیائی یا قانونی طور پر بھارت کے زیر کنٹرول نہیں ہے۔ لیکن بعض دفعہ اسے بھارت کے زیر کنٹرول خودمختار علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جب مقامی قبیلہ نے کسی قسم کا تعلق رکھنے سے انکار کردیا تو بھارت نے 1991 سے سینٹینل جزیرے پر جانا یا اس کے قریب تک جانے پر بھی پابندی عائد کررکھی ہے۔ انڈیمان انتظامیہ کے مطابق سینٹینل جزیرے کے تین میل تک کی حدود ممنوعہ علاقہ ہے اور وہاں جانا غیرقانونی ہے۔

اب عالمی میڈیا میں یہ بحث طول پکڑتی جارہی ہے کہ نارتھ سینٹینل لوگوں کے بارے جاننے کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے۔ کیا وہاں فوج بھیجی جائے جو سب کو پکڑ لے اور پھر اس جزیرے کا مشاہدہ کیا جائے یا انہیں بیہوش کیا جائے۔ مگر ان دونوں طریقوں میں تصادم کا خطرہ ہے جس سے جان بھی جاسکتی ہے۔ اور یہ زیادتی بھی ہوگی۔ بہترین حل جو اب تک سامنے آیا ہے کہ وہاں ایک ڈرون بھیجا جائے جو مخصوص بلندی پر رہتے ہوئے ان کی فلم و عکس بندی کرے۔ جس سے ان کے رہن سہن کا طریقہ معلوم ہو اور ڈرون میں طاقتور سپیکر بھی ہوں جو وہاں آوازیں ریکارڈ کرسکے۔ لیکن اس پر بھی تحفظات ہیں کہ جب وہ خود دنیا سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتے تو ان کی جاسوسی کرنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر  چھوڑ دیا جائے۔ مستقبل میں شاید وہ خود رابطہ کرنا چاہیں یا بیرونی دنیا کو خوش آمدید کہیں۔ تب تک انہیں کچھ نہ  کہا جائے۔

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دنیا کا انوکھا ترین جزیرہ۔ شمالی سینٹینل آئی لینڈ۔۔محمد عبدہ

Leave a Reply