محمد خالد اختر کا معروف ناول “چاکی واڑہ میں وصال” 1964 ءمیں منظر عام پر آیا ۔یہ ناول نچلے طبقے کے کرداروں کی زندگی مسائل اور ماحول کو بیان کرتا ہے۔ چاکی واڑہ دراصل کراچی کے ایک محلے کا نام ہے جو کہ کراچی کے معروف علاقے لیاری میں رنگی وارہ کی طرح کا ایک محلہ یا علاقہ ہے، اور یہی محلہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔
ناول چاکی واڑہ ایسی کہانی ہے جس کی اپنی ایک الگ تہذیب ہے اپنا الگ ایک جہان ہے۔ یہ وہ بستی ہے جہاں خالد اختر کو ملازمت کے آغاز میں ایک گندے سے فلیٹ میں دو سال گزارنا پڑے تھے ۔ خالد اختر نے اس کتاب کے انتساب میں لکھا ہے کہ “اس کتاب کا محرک دو چیزیں بنیں۔ ایک تو چاکی واڑہ کا عجیب و غریب ماحول اور دوسرے رابرٹ لوئی سٹیونسن کی طرز پر مہماتی کہانیاں لکھنے کا شوق۔ “چاکی واڑہ میں وصال” بیک وقت رومانوی ایڈونچر،حماقتوں اورمجبوریوں پرمشتمل ایک معاشرتی طنز ہے۔ یہ ایک کرداری ناول ہے جس کے کردار مضحکہ خیز کرداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس ناول میں خالد اختر نے محض کردار نگاری پر زور دیا ہے جبکہ اس کے پلاٹ کو منظم اور مربوط بنانے کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ جب میں نے ناول کا پہلا باب لکھا تو مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ کہانی کا ڈھانچہ کیا ہوگا میرے ذہن میں قطعی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔
اس ناول کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک قربان علی کٹار اور دوسرے اقبال چنگیزی ہیں۔ مصنف نے ناول کی پوری کہانی اقبال چنگیزی کی زبانی بیان کی ہے جو ادیبوں سے انتہا درجے کی محبت رکھنے والا شخص ہے۔ وہ ادیبوں کے آٹوگراف لینے اور انہیں دوست بنانے کا خاصا شوقین ہے۔ وہ ہر مصنف کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے، چاہے وہ “پکی روٹی” کا مصنف ہی کیوں نہ ہو۔مسٹر چنگیزی خود ایک بوکھلایا ہوا کردار ہے جس کی ملاقات قربان علی کٹار نامی ایک ناول نگار سے ہوتی ہے، جو خاصہ مضحکہ خیز ہے۔ قربان علی کٹار ایک روایتی قسم کا ناول نگار، بدصورت شخص اور ایک ناکام عاشق ہے۔ پورے ناول میں چنگیزی، قربان علی کٹار کی کہانی بیان کرتا رہتا ہے۔ کئی جگہوں پر وہ لکھتاہے کہ اب ناول کی کہانی شروع ہوگی، اب کٹارکی محبت اور عشق کاباب شروع ہو گا۔یہاں سے ناول میں دلچسپی پیداہونے کی تھوڑی سی امید قائم ہوتی ہے،مگراگلے دوتین ابواب کے بعدبھی کہانی میں کوئی ٹوئسٹ یاکلائمکس نظرنہیں آتا۔ اس ناول کے واقعات میں کوئی تسلسل اور ربط نہیں ہے۔ میں اس امید پر ناول کو آگے پڑھتا گیا کہ شاید اب اس میں دلچسپی پیدا ہوگی،کوئی انوکھا موڑ آئے گا، کہانی کروٹ بدلے گی، لیکن ناول کے اختتام تک ایسا کوئی سین اس میں نظر نہیں آتا۔
ناول کامرکزی کردارقربان علی کٹار ایک ناکام عاشق ہے جو خود کو کامیاب بنانے کے لیے انتہائی عجیب و غریب حرکتیں کرتا رہتا ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ تھوڑا آگے جاکررضیہ نامی خاتون کی انٹری ہوتی ہے یہاں احساس ہوتاہے کہ اب اصل رومانی کہانی کا آغازہوگا،شاید اب چاکی واڑہ میں وصال ہوگا۔مگررضیہ ہواکے ایک جھونکے اورایک ہیولے کی طرح آتی ہے اورغائب ہوجاتی ہے۔اورجب ناول کے اینڈمیں دوبارہ آتی ہے توقربان علی کٹارکی محبت سے صاف مکرجاتی ہے جس سے قاری کی رہی سہی دلچسپی بھی ختم ہو جاتی ہے۔لیکن اس کا انداز اتنا سیدھا اور سپاٹ ہوتا ہے کہ قاری کو کٹار سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی بلکہ وہ زیرِلب مسکراتا رہتا ہے۔
اس ناول میں روایتی کہانیوں کی طرح ہیرو ہیروئن اور ولن موجود نہیں ہے۔یہ ایک مزاحیہ فینٹاسی ناول ہے جس کے مطالعہ کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ 1960ء کی دہائی میں کس قسم کا مزاح تخلیق کیا جاتا تھا۔ ناول کے واقعات اور اس کے مضحکہ کرداروں کے نام پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ناول نگار ماہنامہ”چاند” لاہور اوراس کے مدیراعلیٰ پیر جنگلی علیہ و ما علیہ کے سطحی مذاق سے متاثر نظر آتے ہیں۔
فکشن سے دلچسپی ہونے کی وجہ سےمطالعہ میں ناول میری پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ اسی طرح موویز دیکھنے کا بھی انتہائی شوق ہے لیکن جب کوئی بورنگ مووی دیکھنے کو ملتی ہے تو مووی دیکھتے ہوئے میرا ہاتھ فارورڈ کے بٹن پر موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے میں مووی کو بہت جلدی ختم کر کے ایک عجیب سی طمانیت محسوس کرتا ہوں۔ یہی طمانیت مجھے “چاکی واڑہ میں وصال” کو ختم کر کے محسوس ہوئی۔ ناول کے بارے میں جتنی شہرت اور مقبولیت سنی تھی، اس معیار کی اس میں کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ مصنف خالد اختر نے دو صفواں کے انتساب میں دیباچے کا کام بھی لے لیا ہے۔ اس میں وہ سعادت حسن منٹو کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
منٹو نے اس مسودے کو اپنے دماغی ہسپتال کے بستر میں پڑھا تھا اور اس نے اپنی مخصوص صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے مصنف کو بتایا کہ یہ ناول بالکل بکواس ہے۔ لیکن مجھے اس بات کا فخر ہے کہ منٹو جیسے انسان نے مزاح اور نان سینس کے تاروپود سے بنے ہوئے اس نادر طنزیہ کو الف سے یے تک پڑھا۔”
ناول پڑھنے کے بعد مجھے منٹو کی یہ رائے 101 فیصد درست محسوس ہوئی کہ اس میں پڑھنے کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔لیکن فاضل مصنف منٹوکے طنزمیں بھی فخرکاپہلوتلاش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ منٹو نے بیماری کی حالت میں بسترپربھی اس ناول کوتوجہ سے پڑھا، میرے لیے یہی کافی ہے۔
مسٹر اقبال چنگیزی، شیخ قربان علی کٹار، پروفیسر شاہ سوار خان، ڈاکٹر غریب محمد، نرگس بغدادی، شیخ اے ڈی کھوکھر، مچھلی ماہی گیری اور فرش لنگور جیسے مضحکہ خیزکرداروں پر مبنی خالد اختر کا ناول کہانی پلاٹ، دلچسپی اور سنجیدگی سے بالکل عاری نظر آتا ہے۔ یہ کہرے پلاٹ کا ایک بیانیہ اور کرداری ناول ہے۔ یہ اردو ناول کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے جب ناول میں واقعات کی بجائے کرداروں پہ زیادہ زور دیا جانے لگا تھا، تو اس میں بھی مصنف نے سارا زور کرداروں کی عادات وخایئل پر صرف کیا ہے۔
اس ناول کا ٹیمپو خاصا سست ہے اور زمان و مکان کے اعتبار سے یہ ناول نہیں بلکہ ایک افسانے کی خصوصیت رکھتا ہے۔ اس میں پوری کہانی کراچی کی ایک مختصر بستی کے گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے؛ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس کا دائرہ کار ایک بیکری، ایک گندے فلیٹ، چند تنگ وتاریک گلیوں اور ایک دو ہوٹلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس ناول کے مکالمے بھی زیادہ جاندار نہیں ہیں، بلکہ جس ٹائپ کا یہ ناول ہے اسی ٹائپ کے کردار ہیں اور اسی ٹائپ کے مکالمے ان سے کہلوائے گئے ہیں۔ اپنی تکنیک کے اعتبار سے یہ روایت سے ہٹا ہوا ناول ہے۔ پلاٹ کی ساخت، ماحول، منظر نگاری، کردار نگاری کے لحاظ سے بھی یہ ایک غیر روایتی ناول ہے۔ جسے کامیاب فینٹاسی قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں