ایک قبر کی فریاد۔۔۔(دوسرا،آخری حصّہ )ڈاکٹر نور ظہیر

ایک قبر کی فریاد۔۔۔(پہلا حصّہ )ڈاکٹر نور ظہیر

”نہ سہی، لیکن اتنی خوداعتمادی تو یقیناً کفر ہے۔ کیا پتہ، بڑا  مزار واقعی سلطان کے سوالوں کا منہ  توڑ جواب دے۔“
”ہوسکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ تم سمجھتے کیوں نہیں، مجھے درگاہ شریف کی طاقت پر پورا یقین ہے، لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بیہودہ، نک چڑھے سلطان سے بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھے۔ وہ ایک پاکیزہ روح ہے، شاید وہ اس بیوقوف کو جواب دینا گوارہ نہ کریں۔ تب کیا؟“
”تب ۔۔ تب ۔۔“ ماننا پڑے گا، اس تب کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا — ”تب ہم لوگ ختم ہوجائیں گے۔ مرد تو کسی طرح بسر کرلیں گے لیکن عورتیں اور بچے؟ آج ہم میں سے غریبوں کو بھی خواجہ سے خون کے رشتے کی چھاؤں ملتی ہے۔ ہمارے پیروں سے اوپر کوئی مزار نہیں اٹھتا، ہمارے بال بچوں کے منہ  میں نوالہ ڈال کر لوگ یہ مانتے ہیں کہ خواجہ کو کھلایا۔ اس وقت کی سوچو — جب مرد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے، مائیں اس امید سے چولہے سلگائیں گی کہ ان کے معصوم بچے، اس یقین کو تھامے سوجائیں کہ کھانا بن رہا ہے۔ یہ سلطان یہی چاہتا ہے۔ ہمیں بھوکوں مار ڈالے کیونکہ ہم محبت کا پیغام پھیلاتے ہیں۔ ہمیں ختم کردینا چاہتا ہے تاکہ ہمارے ساتھ ساتھ بھائی چارا، جڑ پکڑ نے  سے پہلے ختم ہوجائے۔ سیدھے سیدھے تو اتنے بڑے  مزار کے وارث کو مار نہیں سکتا، بغاوت ہوجائے گی، اس لیے یہ طریقہ اپنا رہا ہے۔ وہ بے ایمانی سے جیتنا چاہتا ہے تو ہمیں ایمانداری کی کیا ضرورت ہے۔ وہ چال چل رہا ہے تو ہماری بساط بھی خالی نہیں ہے۔“

خوبصورت تو وہ ہمیشہ سے تھی لیکن اس وقت اس کے چاروں طرف نور کا ایک ایسا حلقہ چمک رہا تھا، جیسا فرشتوں کے  گِرد ہوتا ہے۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور فوراً واپس کھینچ لیا — لال انگارے سے زیادہ گرم تھا اس کا جسم۔ ڈرتے ہوئے میں نے پوچھا — ”پورا منصوبہ تو بتاؤ۔“

”میں اس تہہ خانے میں چھپی رہوں گی۔ سلطان جب سوال کرے گا تو میں جواب دوں گی۔ ایسا جواب کہ وہ بڑے  مزار کے پاس پھٹکنے کی ہمت بھی نہیں کرے گا۔“

”مگر سلطان تو بڑی درگاہ کے لیے آرہا ہے۔ وہ یہاں کیوں آئے گا؟“
”یہیں تمہاری ضرورت ہے۔ تمہیں صدر سجادہ نشیں کو سلطان کو یہاں سے زیارت شروع کروانے کے لیے راضی کروانا ہوگا۔

”جیسے کہ میں کہوں گا اور وہ مان لیں گے؟“

زرینہ کی آنکھوں میں ایک پل کو مسکراہٹ جھلکی — ”کہنا تمہیں خواب آیا ہے۔ اس میں حضرت بی بی نازل ہوئیں اور تم سے فرمایا کہ سلطان کو پہلے ان کے حضور میں پیش کیا جائے۔ وہ خود سلطان سے بات کریں گے کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے بابا کی شان میں کوئی گستاخی ہو۔ دو سال پہلے ہی صدر سجادہ نشیں کو، بی بی کے  مزار سے پہلا بیٹا ملا ہے۔ وہ بی بی کی خواہشوں کے خلاف ہرگز نہیں جائیں گے۔ باقی سب وہ سنبھال لیں گے۔“

پہلی بار اس کے جھوٹ بولنے کی صلاحیت کو میں نے سراہا۔ آج کے دور میں ہوتی تو کامیاب سیاسی لیڈر ہوتی۔ اس کی سب بچکانہ حرکتیں ایک تیز دماغ کا غلط استعمال تھیں۔ ایسی ذہانت جو تکیے کی سوئی ہوئی زندگی میں دفن ہوجانے کو راضی نہیں تھی۔ جسے ایک مقصد مل جانے کی دیر تھی۔ اب تو اسے حفاظت کرنی تھی — پورے کنبے کی — دیوی درگا کی طرح جو اپنا گھر بار چھوڑ، مہیشاسور کو مارنے نکلی تھی تاکہ انسانیت بچی رہے۔ لیکن تھی تو وہ ایک نازک سی عورت، اور زمین پر بسنے والیاں دیویاں تو ہوتی نہیں۔ انھیں سہارے اور حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اور میری زرینہ تو ایک نازک ہارسنگار کا پھول تھی۔ میں نے اس کے ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگایا — ”ہم تمہارا منصوبہ ہی اپنائیں گے لیکن اسے مجھے انجام دینے دو۔ میں خواجہ پیر حضرت کی مزار کے نیچے تہہ خانے میں چھپ کر بادشاہ سے بات کرتا ہوں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک عورت کا اکیلے، شاید پوری رات، ایک کچی قبر کے پاس۔ مجھے کرنے دو — بات مانو۔“

”میرے محسن، میری جان!“ اس کی آنکھوں میں نمی جھلملائی۔ صرف اس بار وہ آنسو بن سڈول گالوں پر پھسلی نہیں۔ یہ اصلی آنسو تھے۔ کہا — ”کاش کہ تم یہ کر گزرتے۔ لیکن تم میں اتنی قوت ہے نہیں، تم جانتے ہو۔ آخری پل میں تمہاری ہمت جواب دے جائے گی اور اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ دوبارہ موقع نہیں ملے گا، یہ ایک داؤ کا کھیل ہے، شہہ یا مات۔“ کہتے کہتے اس کی آواز دبے ہوئے آنسوؤں سے بھرّا گئی۔ جانتا تو میں بھی تھا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ قبر کے تہہ خانے میں اکیلے کچھ منٹ گزارنے کے خیال سے ہی میری  ہوش کے فاختے اڑنے لگتے تھے، رات گزارنا تو دور کی بات۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا — ”یہ سچائی کی گھڑی ہے۔ ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولیں۔ ہمیں اپنی طاقتوں کو ملاکر سلطان کو ہرانا ہے۔ ہم کیوں وقت برباد کریں، یہ ثابت کرنے میں کہ ہم میں سے کون زیادہ مضبوط ہے۔“

گھر لوٹتے ہوئے ہم دونوں بالکل خاموش تھے لیکن اس خاموشی میں ایک رفاقت تھی جو ہمارے رشتے میں پہلے نہیں تھی۔ گھر پہنچ کر زرینہ نے اپنا ناٹک کھیلا، بیل گاڑی سے لے کر اپنے دُکھتے پیروں تک کی دُہائی دی۔ میں نے بیل لوٹائے اور تھکاوٹ کا بہانہ کرکے، منہ  ڈھک کر سو رہا۔

اگلے دن چیزیں تیزی سے گھومنے لگیں۔ صدر سجادہ نشیں نے میرے خواب کو سنا اور گھٹنوں کے بل گر کر پروردگار کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں بچنے کی راہ دکھائی ہے۔ خبر تیزی سے پھیلی اور تکیے کا بھاری ماحول کچھ ہلکا ہوا۔ لوگ مجھے عزت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اب میں ایک باغی بیٹا یا شیطان زرینہ کا شوہر نہیں تھا۔ میں وہ فرد تھا جسے حضرت بی بی نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چُنا تھا۔ اب سب کو چمتکار کا انتظار تھا۔

ابھی سلطان کے آنے میں چار دن باقی تھے۔ صدر سجادہ نشیں خود چل کر میرے گھر آئے۔ میں تو ایسا سکپکایا کہ تقریباً سچ اگل بیٹھا۔ وہ تو زرینہ نے مجھے ایک طرف دھکیل دیا اور خود ان کے قدموں میں گرگئی۔ بیچارے سمجھے اپنی شیطانیوں کی  معافی مانگ رہی ہے۔ انھوں نے اسے معاف بھی کردیا اور سات بیٹوں کی ماں ہونے کی دُعا بھی دی۔ میرے خواب، یعنی اس کے خواب کے بعد سے وہ بہت سیانی ہوگئی تھی۔ گھنٹوں گھر کی صفائی کرتی، پکوان بناتی یا سلائی کرتی رہتی۔ اس کے اس سلیقے پن سے ایسا لگتا جیسے وہ بہت دنوں کے لیے، کہیں دور جانے والی ہے۔ اس کے سیانے پن کو، حضرت بی بی کے قدم اس گھر میں پڑنے سے جوڑا گیا اور اسے معاف کردیا گیا۔ میں نے اصرار کیا کہ صدر صاحب کو مجھے بلا لینا چاہیے تھا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر میرا جملہ کاٹ دیا کہ جس گھر میں حضرت بی بی آسکتی ہے اس میں وہ کیوں نہیں؟ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس قافلے کے ساتھ چلوں جو کل جاکر مزار کی صفائی کرنے اور پھر تین دن پہرا دینے جارہا ہے ۔۔ سلطان بھلے ہی کندذہن اور بیوقوف سہی، پھر بھی وہ آخر بادشاہ تھے اور ایک پاک صاف مزار دیکھنے کے حقدار تھے۔
”کب جانا ہوگا؟“ میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
”آج آدھی رات کے بعد، تاکہ فجر کی نماز مزار پر پڑھی جاسکے۔“ میرا تیزی سے دوڑتا خون جم کر برف ہوگیا۔زرینہ کی کوہنی نے مجھے ٹھیلا تو میں سکتے سے باہر آیا اور رخصت ہوتے ہوئے سجادہ نشیں کو جھک کر سلام کیا۔ پھر پلٹ کر میں نے زرینہ کے کندھے تھام لیے، جیسے ڈوبتا ایک تنکہ دبوچ لیتا ہے — ”اب کیا کریں؟“
”کچھ نہیں۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
”لیکن اب ہم تہہ خانے میں کیسے داخل ہوں گے؟ سنا نہیں، مزار پر پہرہ رہے گا۔“
”کل صبح سے۔“ اس نے بات پوری کی۔
”تو کیسے ہم ۔۔۔؟“
”مجھے آج رات وہاں چھپنا ہوگا۔“ اس نے ایسے جواب دیا جیسے وہ پہلے سے جانتی تھی کہ ایسا کچھ   ہوگا۔
”مگر زرینہ، تین دن، چار راتیں۔ ایک مقبرے کے تہہ خانے میں، کیسے زندہ رہوگی؟ کھانے پینے کی کوئی چیز تو کچی قبر کے پاس حرام ہے۔“ میرے سوال پر اس نے ایک نظر بھر مجھے دیکھا، پھر بولی — ”تین دن کی بھوک اور پیاس سے آج تک کوئی مرا نہیں۔ ویسے بھی پانی پینے کا مطلب ہوگا کہ مجھے باہر آنے کی ضرورت پڑے گی۔ میں مزار کو تو ناپاک کروں گی نہیں۔ لیکن ہاں، ایک بات ہے، تم باہر پہرے پر نہ رہنا۔“
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں تمہیں وہاں اکیلا چھوڑ دوں؟ میں باہر موجود رہوں گا۔ مان لو تم پکڑی گئی۔ نہیں، ہرگز نہیں!“
”تم مجھے مجبور مت کرو، ورنہ میں جاکر صدر صاحب کو بتادوں گی کہ تمہارا خواب دراصل میرا من گڑھت لطیفہ تھا، میری ایک اور شرارت۔ ہاں جانتی ہوں، مجھے سزا ملے گی، شاید تمہیں مجھے طلاق دینا پڑے۔ مگر بخشے تو تم بھی نہیں جاؤگے۔ تم نفرت اور ملامت کا نشانہ بنوگے۔ ایک ایسا مرد جو اپنی بیوی کے حسن پر ایسا لٹّو ہے کہ سارے تکیے کو بیوقوف بنا ڈالا، حد دیکھیے، حضرت بی بی کے ہی بارے میں لطیفہ بنا ڈالا۔ حقّہ پانی تو تمہارا بھی بند ہوجائے گا۔“

”تم مجھے دھمکی دے رہی ہو؟“
”نہیں۔ بس سمجھا رہی ہوں کہ اب میرا ساتھ دینے کے علاوہ تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں، تم تین دن تک یہ سب نہیں جھیل پاؤگے۔ تمہارے ہاؤ بھاؤ سے لوگوں کو شک ہوجائے گا۔ تم سے سوال جواب ہوگا اور پھر سچ باہر آجائے گا۔ میں جانتی ہوں تم مجھے بہت پیار کرتے ہو، لیکن تین دن کی جدائی تو کوئی بات نہیں ہے۔ بنی بنائی بات داؤ  پر مت لگاؤ۔ اللہ نے چاہا تو ساری عمر ہمارا ساتھ رہے گا۔“

رات کا آخری دِیا بجھتے ہی ہم گھر سے نکلے۔ لُکتے چھپتے، تکیے سے باہر اور پھر پیدل چھوٹے  مزار تک۔ اس بار بیل گاڑی کا آرام کہاں۔ مزار پر پہنچے تو زرینہ نے نظر بھر ٹھہرے ہوئے آسمان کو دیکھا۔ میں نے سوچا شاید وہ دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے لیکن اس نے خاموشی سے اپنی جوتیاں اتاریں اور مجھے تھمائیں ۔ میں نے ایک چھچھلا سا گڈھا کھودکر انھیں چھپا دیا۔ پھر میں نے پتھر کا بھاری دروازہ اٹھایا اور اسے اندھیری سیڑھیوں سے اترنے میں مدد کی۔ دروازہ بند کرکے میں نے دعا کی، شاید پہلی بار دل سے۔ اس کے لیے، اس کی کامیابی کے لیے، یا تکیے کے لیے؟ معلوم نہیں!

دور سے آتی ہوئی بیل گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ سے مجھے ہوش آیا۔ میں نے کوئی انچ بھر دروازہ اٹھاکر کہا — ”وہ لوگ آگئے ہیں زرینہ، میں جارہا ہوں، خدا حافظ۔“ ایک دور سے آئے ہوئے خدا حافظ کو سن کر میں نے دروازہ بند کردیا اور جنگل میں اندر کی طرف چل پڑا۔ اگر میری زرینہ سیلے ہوئے، نم، اندھیرے مقبرے میں بند تھی تو میں بھی اس سے بہت دور نہیں جاؤں گا۔ اس جنگل میں میں نے اپنے لڑکپن کی بہت سی دوپہریں گزاری تھیں۔ یہاں پر چھپنے کے کونے اور پانی کے سب سوتے مجھے معلوم تھے۔ اگلے تین دن میں نے کیسے گزارے یہ سنا کر آپ کا وقت نہیں برباد کروں گا۔ اتنا ہی کہوں گا کہ تمام منصوبوں کے باوجود، کہ میں کم سے کم بھوک اور پیاس میں تو زرینہ کا ساتھ دوں گا، میں ایسا کر نہیں پایا۔ میں نے تالاب سے پانی بھی پیا اور سرکنڈے کے کانٹے بناکر مچھلیاں بھی پکڑیں۔ نہایا اور کپڑے بھی دھوئے۔ بات کا لب ِ  لباب یہ ہے کہ میں نے اپنے اکیلے پن کا مزا لیا۔ بیچ بیچ میں تو بھول بھی جاتا کہ میری جان ایک قبر کے ساتھ قید ہے اور بددماغ، خودغرض بادشاہ کا دماغ ٹھیک کرنے کا انتظار کررہی ہے۔

چوتھے دن کے سورج کے ساتھ، خوف اپنے پورے تشدد کے ساتھ لوٹا، میں کبھی پسینے سے بھیگ جاتا، کبھی ٹھنڈ سے کانپنے لگتا۔ دل کے جذباتوں کے بیچ ڈولتا۔ کیا مزار سے کچھ دور چھپ کر دیکھوں کہ آخر ہوتا کیا ہے یا کہیں دور بھاگ جاؤں؟ دن اس کشمکش میں کاٹنے کے بعد، شام کو میں نے زبردستی خود کو راضی کیا کہ مزار کے پاس جاؤں۔ جنگل پار کرکے جب میں مزار کے پاس آیا تو پہلے ہلکی سی، پھر برابر بڑھتی ہوئی آواز سنائی دی۔ شہنائی اور تاشے کی آواز۔ میرے قدم تیز ہوگئے اور ایک برگد کی آڑ میں میں نے دیکھا، مزار پر جشن منایا جارہا ہے۔ چاروں طرف کے گاؤں کے لوگ جمع تھے۔ فی البدیہہ  گانے، جیسا کہ صرف عوام ہی بنا سکتے ہیں، گائے جارہے تھے۔ بی بی کے چمتکار کے سنجیدہ گیت، فلسفے کے گیت کہ خدا کیوں اپنے مریدوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور مذاقیہ گانے، سلطان اور اس کے امیر و امرا ء کا مذاق اڑاتے ہوئے گیت۔ لوک گیت، جنھیں گاکر اس دیش کی جنتا اپنی بھوک، تکلیف، قرض اور تڑپ کو بھلا دیتی ہے۔

پورا تکیہ وہاں تھا اور جشن میں شامل تھا جس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا تھا کہ زرینہ کامیاب رہی۔ میں نے دوڑ کر تہہ خانے کے دروازہ کو کھول دینے کی اپنی خواہش کو دباکر انتظار شروع کیا، جو لمبا اور لمبا ہوتا گیا۔ تقریباً سحر ہورہی تھی جب پہلی گاڑی وہاں سے چلنا شروع ہوئی اور دوپہر ہوچلی تھی جب تک مزار پھر سے ویران ہوا۔

میں نے دروازہ اٹھایا۔ اندر گہری سیلن اور نمی کی دیوار جیسی تھی جو میری پکار کو باہر ٹھیل دے رہی تھی۔ میں نے دوبارہ پکارا اور بے قراری سے نیچے لپکا۔ میری آنکھوں کو اندر کی دھند اور بھاپ کی عادت پڑنے میں کچھ پل لگے۔ پھر نظر گھماکر دیکھا تو وہ کہیں نظر نہیں آئی۔ میرے دل کی وہ حالت ہوئی جو رس نچوڑے گنے کی ہوتی ہے۔ میرے خیال کے گھوڑے بے لگام ہوگئے۔ شاید حضرت بی بی اسے اٹھا لے گئی یا شاید شیطان نے موقع پاکر اسے آگ اگلتی کھائیوں میں جھونک دیا۔ ایک بجھی سی کراہٹ نے میرا دھیان کھینچا اور میں نے دیکھا کہ کچی قبر سے لپٹا، ہلکا نیلا کفن اوڑھے ایک بے جان جسم پڑا ہے۔ بی بی کی قبر کے پاس مردوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن میں رواج کی پرواہ کیے بغیر سیڑھیاں چھوڑ اس طرف لپکا۔ فرش پر ٹخنوں تک کیچڑ تھی۔ گھڑوں پانی، جس سے اوپر کا  مزار دھویا   گیا تھا، نیچے تہہ خانے میں رِس گیا تھا۔ پہلے تو زرینہ جگہ بدلتی رہی، لیکن اس چھوٹے سے تہہ خانے میں اتنی نکاسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ گھٹن ایسی ہوتی کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا۔ رات کو جب پارا گرتا تو یہی بھاپ برستی اور ہڈیاں تک نم کرجاتی۔ اس کے پاس نہ پسینہ پونچھنے کے لیے کچھ تھا نہ ان برفیلی اوس کی بوندوں کو سکھانے کے لیے۔ ایک دن ایک رات جیسے تیسے کٹا۔ دوسری رات اسے بخار چڑھنا شروع ہوا۔ اس کا سر پھٹنے اور جسم ٹوٹنے لگا۔ ٹھٹھرتی کانپتی وہ سمجھ گئی کہ وہ بدحواسی کی طرف پھسل رہی ہے۔ وہ ہوش کی دعائیں کرنے لگی، بس ان چند پلوں کے لیے جب سلطان وہاں آئے گا۔ وقت بہت دھیرے گزر رہا تھا۔ دن میں ہلنا ڈُلنا، یہاں تک کہ زور سے سانس لینا بھی ناممکن تھا۔ اوپر بہت لوگ ہوتے۔ رات کو بھی آرام نہ مل پاتا کیونکہ رات کو آواز زیادہ دور تک جاتی ہے اور زیادہ ہوشیار رہنا پڑتاہے۔ اس کی دنوں کی گنتی گڑبڑاگئی اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کب سلطان کے آنے کا دن آگیا۔

ایک لمبی نیند کے بعد وہ اپنے جسم پر تیز نیزوں کی چبھن سے اٹھی۔ ہوش آیا تو سامنے شیطان نظر آیا۔ اسے لگا اسے جہنم میں بھیجا جارہا ہے اور وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہ شیطان پر برس پڑی۔ اس نے شیطان کو حکم دیا — ”جا، نکل جا! دور ہو! میرا کام ابھی پورا نہیں ہوا۔ مجھے اپنے لوگوں کی حفاظت کرنی ہے۔“ جب شیطان نے جانے میں کوتاہی دکھائی تو اس نے وہ گالیاں دے ڈالیں جو اسے شیطانی لالچوں سے بچنے کے لیے سکھائی گئی تھیں۔ آخرکار وہ غائب ہوگیا اور وہ بے ہوش ڈھے  پڑی تھی اور ابھی میری بانہوں میں ہوش میں آئی۔

چلنا تو دور، اس سے تو سیدھا کھڑا بھی نہیں ہوا جارہا تھا۔ میں اسے کندھے پر لادکر باہر لایا۔ برگد کے نیچے لٹاکر اسے پانی پلایا اور پھر بھُنی مچھلی کے کچھ ٹکڑے اس کے حلق کے نیچے اتارنے کی کوشش کی۔ اس نے فوراً الٹی کردی جس سے ایک فائدہ تو ہوا کہ اس کا بھٹکتا ہوا ذہن سنبھل گیا اور تالاب پر چڑھ کر اس نے ہاتھ منہ  دھویا۔ اسے ابھی تک تیز بخار تھا اور مجھے تکیے میں کہنے کو کوئی بہانہ نہیں سوجھ رہا تھا۔ وہ بیچاری اتنی کمزور تھی کہ اس سے ڈھنگ کی بات سوچنے کی اُمید بھی بیکار تھی۔ میں نے فیصلہ لیا کہ اس حالت میں اسے تکیے لے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس لیے ہم دوسری  طرف چلتے ہوئے ایک گاؤں پہنچے جہاں سرائے میں ایک کمرہ لے کر چار روز اس کی تیمارداری کی۔

چار دن کی سرائے کی سراہت میں میں نے سب حالات معلوم کرلیے تھے۔ سجادہ نشیں کی گزارش سن کر، وہ گھمنڈی سلطان ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ راضی ہوگیا اور چھوٹی مزار کی طرف چلا۔ اپنے بارے میں خوش فہمیوں کے سرور میں مست، وہ جانتا تھا کہ اسے درگاہ کی ملکیت ہڑپنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ وہ ایک کٹّر مسلمان تھا اور یہ سب خواب و آب میں دِکھنا تو دراصل کفر ہی ہے۔ خدا اور روح بنا شکل اور صورت کی تھیں اور ایسی ہی رہیں گی۔ سادا کالا لباس پہنے، کمر میں تلوار اور پیروں میں ڈچ جوتے۔ جہانگیر کے وقت میں ہندوستان نے خود کو ایم این سی کے لیے کھول دیا تھا اور ولایتی جوتوں نے دیسی کچے چمڑے کی بکری گرا دی تھی۔ وہ نیا فیشن تھا اور سلطان کو اپنے حسن پر اتنا تو گمان تھا ہی کہ شوق کی ایسی چیزیں پہنے۔ حالانکہ بات تعجب کی ضرور تھی کیونکہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنا ذاتی خرچ قرآن لکھ کر چلاتے تھے۔ جوتے مہنگے بھی تھے اور ایک بار پہن لیے جائیں تو اتارنے میں مشکل تھی۔ سجادہ نشیں اور ان کے ساتھ کے لوگ تو پل بھر میں جوتیاں کھول، ادب سے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ سلطان اور ان کے مصاحبوں میں کافی کھینچ تان اور اٹھاپٹخ چلی۔ کیا اس سے زرینہ کو ہوش آیا ہوگا؟

سلطان مقبرے میں داخل ہوئے اور مزار کے پاس کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی ۔ پھر تن کر کھڑے ہوگئے، تلوار مغلیہ کی طرح جس کے ساتھ اکثر ان کا مقابلہ کیا جاتا تھا اور بلند آواز میں پوچھا — ”کیا یہ ایک پاک روح کی قبر ہے؟ کیا بانجھ عورتوں کی گود یہاں آنے سے بھر سکتی ہے؟ جواب دو۔“ ایک منٹ تک تاریکی چھائی رہی۔ پھر پورا مقبرہ یوں تھرتھرانے لگا جیسے مزار ابھی پھٹ جائے گا۔ دور سے، ایک گونجتی ہوئی آواز نے جواب دیا — ”دور ہو میرے سامنے سے۔“ سلطان یوں سکتے میں کھڑا رہا جیسے اسے لقویٰ  مار گیا ہو۔ پھر تو جیسے اس آواز کی  برداشت کا بندھ ٹوٹ کر پھٹ پڑا ہو۔ اس نے بادشاہ کو وہ وہ گالیاں دیں کہ سب کے سر شرم سے جھک گئے۔ سلطان کچھ دیر اور سہہ سکا پھر اس کے گھٹنے جواب دے گئے۔ وہ اوندھے منہ  گر کر بلک بلک  کر رونے لگا۔ کبھی بچوں کی طرح سبکتا، کبھی پاگلوں کی طرح دھاڑیں مارتا، بی بی سے التجا کرتا کہ اس کی بھٹکتی ہوئی روح کو سہارا دیں اور قیامت کے روز جب سب کے گناہوں کا حساب ہوگا تو اپنا گنہگار مان کر اس کا دامن نہ تھامے۔ آخر صدر سجادہ نشیں، خدا ان کی روح کو بخشے، جھکے اور سلطان کو، جو آخرکار تھا تو انسان ہی، سہارا دے کر باہر لے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں ہر دن بڑھتی ہوئی تفصیل روز زرینہ کو سناتا، جو بغیر کچھ کہے چپ سنتی رہی۔ اپنے سب سے پیچیدہ چھل کی بے پناہ کامیابی جیسے اسے کوئی خوشی نہیں دیتی۔ پانچویں دن زرینہ کی حالت ایسی ہوگئی کہ سفر کرسکے۔ میں کرائے کی بیل گاڑی بلا لایا اور ہم دونوں تکیے کی طرف چلے۔
جیسے جیسے ہم تکیے کے پاس آتے گئے، زرینہ جیسے خود میں سکڑتی، سمٹتی چلی گئی۔ جیسے اس کا وجود ضرورت سے زیادہ بڑا ہوگیا ہو اور وہ خود کو سمیٹ کر کسی کونے میں دُبک جانا چاہتی ہو۔ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی کھسکی نہیں تھی، تو بھی مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سرکتی ہوئی یوں میرے پاس آرہی ہے جیسے کوئی چوچہ، چیل سے ڈرکر، اپنی ماں کے محفوظ پنکھ تلاش کرتا ہے۔ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ شادی کے ان چار سالوں میں اسے کسی سہارے کی، اور میرے سہارے کی تو بالکل، ضرورت نہیں پڑی تھی۔ مجھے شک ہوا کہ شاید یہ میری اپنی اندرونی خواہش ہے۔
راستہ بنا کسی حادثے کے گزر گیا اور ہم جھٹپٹے کے وقت تکیے میں داخل ہوئے۔ نان بائیوں نے رات کے کھانے کے لیے بس تندور سلگایا ہی تھا اور تازی سینکتی ہوئی روٹیوں کی مہک، مزار سے آنے والی لوبان اور اگربتی کی خوشبو کے ساتھ گھل کر گلیوں میں پھیل رہی تھی۔ آہ گھر! میں نے پہلے نانبائی کی طرف سلام میں ہاتھ اٹھایا۔ اس کی آنکھیں مجھ سے ملیں، ایک پل کو رُکیں پھر جلدی سے ہٹ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ اب یہ مجھے کیوں نظرانداز کررہا ہے؟ ایسا چار واقف کاروں کے ساتھ ہوا تو میری سمجھ میں آنے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ زرینہ کی نظریں مستقل سڑک پر گڑی تھیں لیکن میں سمجھ گیا کہ اس نے میری بے اطمینانی دیکھ لی ہے۔ گھر پہنچ کر میں نے گاڑی والے کی طرف کرایہ بڑھایا۔ اس نے میری طرف مشتاق نظروں سے دیکھتے ہوئے بیلوں کو ’چ چ چ چ‘ کہہ کر روانہ کیا۔ زرینہ میرا انتظار کررہی تھی اور چوکھٹ پر کھڑے، اس کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا ایک سکون تھا جیسے وہ آنے والی مصیبت کے لیے تیار تھی۔ دروازہ بھڑا تھا، بند نہیں۔ میں نے اسے دھکا دے کر کھولا اور اس کے چرمراتے ہوئے قبضوں کے ساتھ ہی آواز آئی — ”کون؟“
”ہم ہیں بابا، آپ کا بیٹا اور بہو۔“ مجھے جملہ پورا کرنے کا موقع تک نہیں ملا۔ گالیوں کی ایسی جھڑی لگ گئی کہ کیا بتاؤں۔ میں شیطان کا جنا، جناتوں کا پوسا، ابلیس کی اولاد تھا جو ایک عورت کے بہکاوے میں آگیا۔ جوکہ خود اصل میں ایک ڈائن، ایک پچھل پیری، ایک چڑیل تھی۔ ان کے چیخنے چلانے سے اڑوس پڑوس کے لوگ گھروں سے باہر آگئے۔ گالیوں کی جھڑی ہلکی بھی نہیں ہوئی تھی کہ صدر سجادہ نشیں کے یہاں سے بلاوا آپہنچا — ہمیں فوراً حاضر ہونے کا حکم ہے — ہاں ہم دونوں کو فوراً۔
”اپنی موجودگی سے تکیے کو ناپاک نہ کرو! یہ ایک پاکیزہ جگہ ہے — جاؤ، چلے جاؤ یہاں سے!“
”لیکن کیوں، ہماری غلطی کیا ہے، اتنا تو ہمیں جاننے کا حق ہے۔“
”حق! ایک کافر کو بھلا دینداروں کے بیچ کیا حق حاصل ہوسکتے ہیں۔“
میرا خون جم گیا تھا۔ تو ہمارا بھیدا کھل گیا تھا اور سزا کی گھڑی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہنا شروع کیا — ”ہم کافر نہیں ہیں۔ بات بس اتنی تھی کہ ۔۔“
”کہ تمہیں اپنی جان کی زیادہ فکر تھی۔ تمہیں ڈر لگ رہا تھا۔ بی بی حضرت کے تم کو چننے کے باوجود تم ڈر رہے تھے۔ انھوں نے تمہیں چنا اپنا سندیش ہم سب تک پہنچانے کے لیے۔ تب بھی تمہیں ڈر لگا! تم چوروں کی طرح، ایک بیمار، مجبور باپ کو اکیلا چھوڑ، بھاگ گئے اس رنڈی کے کہنے پر“
”اب دیکھیے جناب ۔۔“
”خاموش! ایک لفظ مت کہنا! جب تم میرے پاس آئے، اپنا خواب سنانے، تب تمہیں عقیدہ تھا۔ جب تم واپس گئے، تو اس نے تمہیں سمجھا دیا کہ کوئی چمتکار نہیں ہوگا۔ اپنے جادو اور چھل کی پوری طاقت سے اس نے تمہیں بھاگ جانے کے لیے راضی کرلیا۔ دراصل، ڈر اسے تھا، کہ حضرت کی پاک روح کی موجودگی میں یہ ٹک نہیں پائے گی، اس کا بھید کھل جائے گا۔ اور تم؟ تم نے شیطان کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا اور اس خوبصورت بلا کے بہکاوے میں آگئے۔ میرے حکم کو تو تم نے نظرانداز کیا ہی، اپنے لاچار باپ کو بھی بھول گئے۔ ارے، وہ تو مرجاتا اگر خواجہ پیر حضرت کا اس پر کرم نہ ہوتا۔ تم اللہ اور انسانیت، دونوں کی نظر میں مجرم ہو۔ نکل جاؤ اور کبھی تکیے میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرنا۔“
اچانک زرینہ نے بولنا شروع کیا اور صدر صاحب کا ہاتھ، جو اسے خاموش کرنے کو اٹھا تھا، دھیرے دھیرے نیچے آگیا۔ اس کی آواز میں ایسا اختیار، ایسی کوشش تھی کہ وہ چپ رہے۔
”ہاں میں جادو ٹونا کرتی ہوں، ڈائن ہوں۔ میں نے اپنے جال میں انھیں لبھاکر، بھاگ جانے کے لیے راضی کیا۔ مجھے اپنا راز فاش ہوجانے کا ڈر تھا۔ مجھے برادری سے باہر کردیجیے، لیکن انھیں رہنے دیجیے۔ میرے بنا یہ خود کو، اپنی بھٹکتی روح کو اور اللہ کو پالیں گے۔ آپ بھی ہوں گے ان کی رہنمائی کرنے کو۔“
وہ مڑکر باہر کی طرف چلی۔ سجادہ نشیں بس بُدبُدائے — ”ایسا ہی ہو۔“ لیکن میں تو ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا۔ اس کے پیچھے بھاگا اور اس کے ساتھ چلنے لگا۔ وہ میری منتیں کرنے لگی کہ لوٹ جاؤں، کیونکہ میں تکیے کے بنا رہ نہیں پاؤں گا۔ اگر وہ ڈائن تھی تو اب اس کی طاقتیں ختم ہوچکی تھیں۔ میں نے اس کی خوشامدوں میں سے ایک نہ سنی اور ہم تکیے سے کچھ ضرورت کی چیزیں اور بہت ساری ملامتوں کا بوجھ اٹھائے ایک ساتھ نکلے۔
جنگل میں، ایک تالاب کے کنارے، بی بی کے مزار سے کچھ ہٹ کر، میں نے ایک جھونپڑی بنائی اور ہم دونوں نے، زندگی سے الگ، ایک زندگی شروع کی۔ زرینہ کڑھائی کرتی اور ٹوپیاں بناتی۔ میں انھیں زیارت کرنے آنے والے کارواں کو بیچتا۔ مجھے کئی کئی دن، سڑک کے کنارے گزارنے پڑتے۔ زرینہ کبھی اکیلے پن پر نہ کوئی شکایت کرتی، نہ جھونپڑی کی تکلیف کا ذکر کرتی۔ ایسا لگتا جیسے اس کی سب چاہتیں ختم ہوگئی ہیں۔ میں ایک بچے کی دعائیں مانگتا، اس امید سے کہ شاید زرینہ کی زندگی میں دلچسپی پیدا ہوجائے۔ مگر بی بی کی نظرعنایت اس پر نہیں ہوئی۔ میں نے اس سے بار بار گزارش کی، کہ وہ سجادہ نشینوں کے سامنے سب قبول کرلے اور ہم تکیے لوٹ چلیں۔ لیکن اس نے بس اتنا جواب دیا۔ ”یہ ہماری سلیب ہے۔ اسے ہمیں ہی اٹھانا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم یہ بوجھ اٹھائیں اور ان سب پر آنچ نہ آئے۔“
ایک دن میں نے اجمیر جانے والے قافلے کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں زیادہ ٹوپیاں بکنے کی امید تھی۔ کچھ پیسوں کی ضرورت بھی تھی کیونکہ زرینہ کی کھانسی میں خون آنے لگا تھا۔ کسی اچھے حکیم کو دکھانا ضروری تھا۔ واپسی میں اٹھارہ دن لگ گئے۔ جنگل میں داخل ہوا تو وہاں ایک عجیب سی قدرتی چہل پہل سے ذرا حیرانی ہوئی۔ میں سنسان بیابان کا عادی ہوچکا تھا اور زندگی کی ہلچل مجھے عجیب بھی لگی اور میرا دل بھی دہلا گئی۔ میں نے رفتار بڑھادی اور جب جھونپڑی نظر آئی تو میں تقریباً دوڑتا ہوا اندر گھسا۔ زرینہ پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی، پرسکون نیند میں کھوئی۔
میں نے لڑکپن کے کچھ دوستوں کو راضی کیا کہ اسے دفن کرنے میں میری مدد کریں۔ انھیں ڈر تھا کہ اگر اسے باقاعدہ مذہبی طریقے سے دفن نہ کیا گیا تو اس کی ناپاک روح تکیے اور اس کے آس پاس ڈولتی رہے گی۔ راضی تو وہ ہوگئے، لیکن اسے جگہ دی قبرستان  سے دور، معمولی والے کونے میں۔ رشتے داروں کو کچھ میرے اکیلے پن پر ترس آیا، کچھ انھیں لگا کہ اب تو میں اس چڑیل کے شکنجے سے چھوٹ گیا ہوں، لہٰذا مجھے واپس تکیے میں پناہ ملی۔ لیکن تمام کوششوں کے بعد بھی میرے قدم اکثر مجھے تالاب کے کنارے بنی، جنگل کی اس مڑھیا کی طرف کھینچتے تھے۔ جب میری موت ہوئی، تو مجھے قبرستان کے دوسرے سرے پر، زرینہ سے جتنی دور ہوسکے، دفن کیا گیا۔ نہ میری، نہ اس کی، دونوں کی ہی قبروں پر سنگ مرمر یا پتھر کا کتبہ ہے۔ بس چند اینٹیں ہیں نشانی کے طور پر اور چکنی مٹی کی ٹکیہ جس پر ہمارا نام تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں اور اس تک پہنچنا اتنا مشکل! اس جگہ اتنی بھیڑ رہتی ہے ناں، روحوں کی آمد و رفت کی۔ تو بھی کبھی کبھار ملنا ہوہی جاتا ہے اور تب اس کی قبر پر بیٹھے، ہم گئے دنوں کی باتیں کرتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ زرینہ اب بھی بلا کی حسین ہے اور میں اس کا عاشقِ جاوداں ہوں۔ آج ملنے کی رات ہے۔ میں وہیں جارہا ہوں۔ اس کی قبر اُدھر پورب کی طرف ہے۔ کبھی آنا اور میری زرینہ کو دیکھنا۔ دیکھنا، ہم کتنے خوش ہیں۔“
ایک آہ بھرکر وہ اُٹھے اور جامن کے اس جھرمٹ کی طرف چلے جو پورب والے حصے کو باقی قبرستان سے الگ کرتا ہے۔ سبز پیڑوں میں اوجھل ہو جانے سے پہلے وہ ایک بار مڑے اور حسرت بھری آواز میں بولے — ”آنا ضرور، کبھی کبھی بے حد تنہائی کا احساس ہوتا ہے، بس ہم دونوں ہی ہیں نا!“
کسی کے میرے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے میں چونکی۔ دو مسلمان خواتین تھیں۔ ایک بولی — ”بِٹیا قبر پر سونا نہیں چاہیے۔“
میں نے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا — ”لیکن میں تو سوئی نہیں تھی۔“ کہتے کہتے میری نظر جامن کے جھرمٹ پر اٹکی جس میں ایک زربفت کی واسکٹ اور اٹنگے سفید پاجامے غائب ہورہے تھے۔ میں تیزی سے اٹھی اور اپنا پرس اور ڈائری سمیٹ کر اُترائی میں دوڑنے لگی۔ اوپر آرہے کچھ زائرین نے مجھے مسکراکر دیکھا۔ شاید انھوں نے اتنی موٹی عورت کو ڈھلان پر اتنا تیز دوڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
میں بڑاگڑھ واپس نہیں گئی، لیکن میں نے اکثر خود سے وہاں لوٹنے کا وعدہ کیا ہے۔ جاؤں گی تو میں ضرور، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ زندگی جنھیں گناہ کہتی ہے، ان پر موت بھی پردہ نہیں ڈال دیتی۔ مرکر شاید اسی لیے میں بھی بہت اکیلی رہوں گی۔ ایسی صورت میں دو چار اور تنہا روحوں سے جان پہچان ہوتو اچھا ہوگا۔

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply