دھرنے کی ایک رات/مہر ساجد شاد

قسمت ہمیں گھماتے ہوئے جی ٹی روڈ، راوی روڈ اور شاہدرہ چوک کے درمیان میٹرو اسٹیشن تک لے آئی۔ یہاں گویا اعلان ہوگیا کہ ساکت ہو جائیے روح تو ملک الموت ہی قبض کریں گے البتہ زندگی کو روکنے کے لئے کچھ لوگ عذاب کی صورت نازل ہو چُکے ہیں۔ کچھ دیر کی کوششوں اور گاڑیوں کو ٹیڑھا، ترچھا اور قطاروں میں مکمل پھنسانے کے بعد بالآخر باری باری سب نے گاڑیوں کے انجن بند کر دئیے، اسکے بعد جو کہانی ہم نے دیکھی کچھ آپ بھی دیکھیے۔

ٹریفک روک دی گئی تھی تحریک لبیک نے لاہور کے تمام داخلے و خارجی راستوں کو بند کر دیا تھا، یہ مبینہ طور پر کچھ مطالبات کی منظوری کے لئے کیا گیا تھا جو ختم نبوتؐ کے حلف نامہ میں (جو کہ امیدوار برائے الیکشن نے جمع کروانا ہوتا ہے) مبینہ تبدیلی کی کوششوں میں ملوث افراد کے سلسلہ میں تھا، اس دھرنے سے موٹر وے ٹھوکر یتیم خانہ رنگ روڈ سگیاں پرانا راوی اور فیروزپور روڈ سب بند تھے۔ لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، قصور، اوکاڑہ وغیرہ خاص طور پر متاثر ہوئے۔

یہاں اطلاع پہنچی کہ لاہور کو تمام اطراف سے یرغمال بنا لیا گیا ہے، مسلمانوں کے شہر پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ بس، ٹرک، کار، ریڑھی، رکشہ وغیرہ سب پھنسے تھے لیکن ایمبولنس بھی ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھیں۔ مریض گاڑیوں کے شور سے پریشان تھے۔ ایک ایمبولنس میں خاتون مریضہ نازک حالت میں تھیں۔ یہ اپریل کی شام ہے خوش قسمتی سے ابھی گرمی اپنے جوبن پر نہیں آئی۔

یہاں کچھ لوگوں نے سروس روڈ کو رواں کرنے کی کوشش کی جو کہ ایک طرف شیخوپورہ چوک سے مڑ کر شیخوپورہ کو اور دوسری طرف جڑانوالہ کو جاتی ہے، اس راستے سے رکشے ریڑھیاں وغیرہ متصل گلیوں کو استعمال کرتے ہوئے نکل گئے، ایمبولینسوں کو بھی تین گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد اسی راستے سے نکالا گیا۔ یہاں سے نکلنے کے بعد انکے ساتھ کیا ہوا کچھ معلوم نہیں، اطلاعات یہی آئیں کہ آگے جا کر مرکزی روڈ پھر بند ہے، شائد درمیان میں کچھ گلیوں وغیرہ سے نکلنے کا موقع بن گیا ہو۔

گاڑیوں، ویگنوں، اور بسوں وغیرہ میں سوار خواتین اپنے بچوں کیساتھ پریشان ہو رہی تھیں۔ یہ لوگ بھی یکے بعد دیگرے اپنا سامان اٹھائے پیدل ہی آگے بڑھنے لگے۔ چوک سے آگے جا کر موٹر سائیکل اور رکشے والے اپنی مرضی کے کرائے لے کر انہیں اگلے ناکے تک پہنچانے کا کام کر رہے تھے۔ وہاں سے بھی اسی طرح احتجاج والا علاقہ پیدل پار کریں اور پھر موٹر سائیکل رکشہ پر بیٹھ جائیں، لوگ اسی مشقت سے اپنی منازل کی طرف روانہ ہو گئے۔

“چلیں تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ”

اس دوران بزرگ مرد و خواتین بڑی مشکل میں نظر آئے، چلنے میں دشواری کیساتھ لمبا فاصلہ طے کرنا رکاوٹوں کو عبور کرنا واقعی ایک مصیبت تھا، چند لوگوں نے موٹر سائیکل پر ان بزرگوں کو بٹھا کر احتجاج والا علاقہ ملحقہ گلیوں، محلوں سے گزر کر پار کرایا۔ اسی دوران ایک طرف سے مبارک ہو مبارک ہو کا شور اٹھا تو ہم لوگ سمجھے شائد کوئی سمجھوتہ ہو جانے کی اطلاع آ گئی ہے۔

لیکن یہ تو بزرگ مرد و خواتین گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اپنے ہاتھوں میں سامان اٹھائے پیدل چلے آ رہے تھے۔ انکے ساتھ کچھ لوگوں نے پلاسٹک میں لپیٹ کر پیک کئے ہوئے سوٹ کیس اٹھا رکھے تھے۔ اس پر بات سمجھ آئی کہ یہ لوگ تو عمرہ کی ادائیگی کے بعد واپس آ رہے تھے، اور اپنی ویگنوں، بسوں کے پھنس جانے پر پیدل ہی عازم منزل ہو گئے تھے ان عازمین کو صفا اور مروہ کی سعی یاد آ گئی ہوگی۔

یہ عارضی محلہ بن گیا تھا سب ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے لگ گئے تھے۔ یہیں ایک گاڑی کے سوار نوجوان اپنی نوکری کا انٹرویو دے کر آئے تھے گھر والوں سے مسلسل رابطہ اور پریشانی میں بار بار فون کے استعمال نے انکے فون کی بیٹری ختم کر دی تو اب کچھ سکون آ گیا، ان سے بات ہوئی اور پیشہ ورانہ عملی زندگی کیلئے انکو حوصلہ اور ہمت دلائی۔

ایک اور صاحب ائرپورٹ سے اپنے بھائی کو لے کر آ رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ بھائی چودہ سال بعد پاکستان آئے ہیں، چودہ سال تو عمر قید ہوتی ہے عمر قید سے رہائی اور اب عاشقان کی قید ان صاحب کو عجیب کیفیت میں مبتلا کئے ہوئے تھی۔ ایک صاحب اپنی فیملی کیساتھ کار میں سفر کر رہے تھے، پکے لاہوریے اپنی پھوپھو کے ہاں شیخوپورہ جانے کے لئے گھر سے نکلے تھے جہاں انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا۔

انکے ہمراہ ایک ملازمہ بچی بھی تھی جو بار بار قریب واقع اسٹور سے کھانے پینے کی اشیاء لا کر انکی فیملی کو دے رہی تھی، ہر چکر پر آنے والا پلاسٹک کا تھیلا بڑا ہوتا جا رہا تھا مطلب ٹینشن بھوک بڑھا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد انہوں نے بغیر پوچھے خود ہی بتایا کہ اب شیخوپورہ نہیں جا سکتے تو کھانا واپس گھر جا کر ہی کھانا پڑے گا۔ جو سیب اور کیلے ہم نے پھوپھو کے لئے خریدے تھے وہ بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں اور اب ان چیزوں سے بچوں کو بہلا پھسلا رہے ہیں۔

اسی دوران مخالف سمت سے آنے والے ایک صاحب سے معلومات ملیں کہ کچھ آگے ایک بیکری اور ایک پیزا شاپ کھلے ہوئی ہے یہ سنتے ہی یہ صاحب ہمارے ساتھ گفتگو چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ واپسی پر پیزا، فروٹ کیک، سینڈوچ، ڈرم اسٹک وغیرہ سے نبرد آزما ہوتے ہوئے، انہوں نے ہم پڑوسیوں کی بالکل پرواہ نہیں کی۔

دھرنے سے پھنسے لوگوں کی سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ عوامی بیت الخلا کہیں دستیاب نہ تھا۔ قریبی پٹرول پمپ وغیرہ پر لوگوں کے رش سے بچنے کے لئے مالکان نے تالے لگا دئیے تھے۔ کچھ دور مسجد تھی جہاں لیٹرین پر بے پناہ رش تھا اور وہ بھی نماز کے بعد بند کر دی گئی۔ مرد حضرات تو کسی گاڑی کی آوٹ میں کسی کھوکھے کیساتھ کسی بس کے پیچھے بیٹھ کر سکون پا رہے تھے، لیکن خواتین نہائت تکلیف دہ صورتحال میں بے پردہ ہو رہی تھیں۔

جنگل کی طرح سب جانور تھے ایک دوسرے سے اس معاملے میں بے پرواہ، شاید یہی مناسب حل تھا۔ دھرنے کے مقام پر بڑی گاڑیوں ٹرک بس وغیرہ کو آڑھا کھڑا کیا گیا تھا اور انکے ٹائروں کی ہوا نکال دی گئی تھی۔ اس مقام کے قریب دھرنے کے آغاز میں کچھ لوگوں نے مزاحمت کی کوشش کی تو ان کو نعروں کے شور میں مناسب جواب دے دیا گیا۔

ایک صاحب نے بتایا کہ انکی اہلیہ کا آپریشن ہے اور انکو وہاں ہسپتال پہنچنا ہے، انکو لبیک لبیک کی صداوں میں اگلی پچھلی اسکرین سے محروم کر دیا گیا، یہ باقی ماندہ گاڑی کو بچانے کے لئے ہاتھ جوڑ کر گاڑی کے بونٹ پر بیٹھ گئے تو دھرنے والوں کے ایک صاحب نے ان کو نعرے لگانے کے عملی مظاہرہ پر رحم کھا کر معافی دلا دی۔ اس واقعہ کے بعد ارد گرد موجود خلق خدا میں صبر کی عظیم لہر دوڑ گئی۔

اُدھر اسٹیج اپنی تقریروں اور نعتوں میں مصروف رہا، ہر حضرت مولانا تشریف لائے تو آغاز محبت رسولؐ سے کیا، پھر تمام ملکی اور غیر ملکی سیاسی سماجی اور مخالف مسالک کی شخصیات کو لعن طعن اور سنگین دھمکیوں کے بعد اختتام عشق رسول کے نعروں سے کر کے رخصت ہوتے۔ عشاق نے عوام کو بتایا کہ عشق میں کیا حدود پار کی جا سکتی ہیں عوام ساری رات عشق کے نعروں سے سہمے رہے۔

سحری کے کوئی تین بجے تو سروس روڈ کی شہر والی سمت کچھ خالی ہوئی آگے جا کر یہ سروس روڈ پل کے نیچے سے سڑک کی دوسری طرف جاتی تھی۔ سالڈ ویسٹ والوں کی گاڑی آئی اور ان لوگوں نے بتایا کہ اس راستے میں زیادہ تر موٹرسائیکل رکشے ہیں تھوڑی کوشش کر کے راستہ مل سکتا ہے، لہذا اللہ سے دعا کر کے اس مہم کو شروع کیا اور کوئی 45 منٹ کی تگ و دو کے بعد ہم سڑک کی دوسری سمت شہر کی طرف منہ کر کے گاڑی دوڑا رہے تھے۔ شہر میں لاری اڈے کے پاس عشاق اب عشق کے ترانے گا کر تھک چکے تھے تو ایک کونے سے راستہ بن گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں سے آہستہ آہستہ گاڑیاں نکل رہی تھیں ہم نے بھی اس میں قسمت آزمائی کی اور پھر علی الصبح گلبرگ میں ایک ہوٹل تک پہنچ گئے۔ بس فجر کا وقت ہوگیا تھا اللہ کا شکر ادا کیا، کچھ دیر میں اطلاع مل گئی کہ حکومت اور عشاق میں بالآخر کوئی سمجھوتہ ہوگیا ہے اب دھرنا ہر جگہ سے اٹھا لیا گیا ہے اور راستے کھل گئے ہیں۔ ہم نے بھی دن کا آغاز اسی تسلسل میں کر دیا کیونکہ اب نیند اڑ چکی تھی، کوشش بھی کرتے تو نعروں اور تقریروں کی بازگشت سونے نہ دیتی لہٰذا دنیا کی بھیڑ میں گم ہو جانے کا ارادہ کرکے اپنے مہمان انگریز کو ہوٹل سے لیا اور سفر شروع کر دیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply