سمندر/ناصر خان ناصر

اپنے مدوجزر سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو یا موجوں کے سکوت سے چمکتا ساکن ساگر، ان کے خوبصورت دلفریب مناظر اور چمکیلی پیاسی ریت لیے بیکراں ساحل ہمیشہ میری بے کل آتما کو شانت کر دیتے ہیں۔ میری بے چین روح ساحلوں پر تڑپتی، بے بسی سے اپنا سر پٹختی بے قابو لہروں کی پرکشش سمفنی سن کر کسی انجانی طمانیت سے سرشار ہو جاتی ہے۔
ساحلوں پر پڑے کسی گھونگھے کو کان سے لگا کر سنیے تو وہ نجانے کس زبان میں کون سے اسرار اور بھید بھاو کھولنے لگتا ہے۔
میں سمندر کی ان گنت لہروں کو اپنے من کے احوال، دل کے سارے دکھڑے کہہ سن سکتا ہوں، ان میں اپنا چہرہ چھپا کر نیر بہا سکتا ہوں اور ان کی ایک ماں جیسی آغوش میں سما کر نئ توانائیاں پا سکتا ہوں۔یہ ٹھنڈی لہریں بھی میرے سارے بدن میں گدگدی کرتی ہیں، میرے قدموں کو چوم کر انھیں ٹھنڈک پہنچا دیتی ہیں اور ماں کے آنچل کی طرح مجھے اپنی آغوش میں بھر لیتی ہیں۔
گیلی ٹھنڈی ریت پر موجوں کے اضطراب جب نہایت خوشخطی سے اپنے انوکھے افسانے تحریر کرتے ہیں تو دل کے زخموں کو ریت پر پڑے قدموں کے نشانوں کی طرح مندمل کر دیتے ہیں۔
آج ساحل سمندر پر جگہ بہ جگہ لہروں کے تھپیڑوں سے ٹوٹی سمندر کی اگلی سیپیاں چنتے ہوئے میرے من میں اچانک ایک سوال اٹھا کہ سمندر اتنی بہت سی سیپیاں تو اگل دیتا ہے، انھیں پیس پاس کر ریت بنا کر بھی ساحل پر بکھیر دیتا ہے مگر ساحلوں پر موتی کیوں عام نہیں ملتے؟
ان انگنت سیپیوں میں چھپے ہوئے شاہوار موتی کہاں جاتے ہیں؟
موتی جو ایک سیپی کا گھاو ہوتے ہیں، بے رحم زندگی کی خلش، ناتمام آرزو، بے چینی اور تڑپ۔
ایک ذرہ جو کسی طرح ایک نوزائیدہ مستغرق سیپی کے حلق میں چلا جاتا ہے اور پھر حلق سے نہیں اترتا۔
یہ ایک ایسا زخم ہوتا ہے جسے سیپی روگ بنا کر اپنے جسم کا حصہ بنا لیتی ہے۔ یہ ذرہ اسے تکلیف اور اذیت دیتا ہے تو وہ اسے اپنے ملائم چمکدار لعاب سے ڈھانپ کر چھپانے اور اس کی کرختگی اور چبھن سے بچنے کی کاوش کرتی ہے۔ دل میں چھپے درد، پیڑا اور کسک کی طرح یہ گوہر بھی بڑھتا رہتا ہے اور مزید بے چینی کا سبب بن جاتا ہے۔
کیا سچے موتیوں، درنایاب، در ابلق، مروارید اور لولو و مرجان کی انگوٹھیاں، ہار اور جیولری پہننے والے لوگ اس پیڑا، دکھ درد اور تکلیف کو سمجھ سکتے ہیں جو ایک سیپی اپنی ساری عمر بتا کر یہ چمکدار موتی بنانے میں صرف کرتی ہے؟
پھر موتی ہی کیوں؟ ذرا ریشم کو ہی لیجیے، ریشم کا کیڑا اسے اپنے لعاب سے اپنے ہی گرد بن کر اپنے ہی خول میں یوں بند ہو جاتا ہے جیسے دکھ درد اور تکلیف دہ زندگی گزارتے ہوئے لاکھوں کروڑوں انسان۔ جب کوئ بھی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا تو وہ اپنے دکھوں کو اپنی آنکھوں میں چھپائے اپنے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ریشم کا سا ایک ملمع چڑھا لیتے ہیں۔ اپنے ہی خول میں بند رہ کر چپ چاپ تنہائیوں میں آنسو بہاتے ہیں تو ان کی تنہائیوں کے رازدان جگنو اور ستارے ان سے ٹمٹمانا سیکھتے ہیں۔
شہد کو لیجئے، یہ شہد کی مکھی کی زندگی بھر کی کاوش ہے، یہ بڑی مشقت سے پھولوں کا رس چوس کر اسے خود ہضم نہیں کرتی بلکہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے جمع کرتی ہے اور پھر کوئ نواز شریف آ کر اس کے سارے خواب اور ارمان چرا لیتا ہے۔
انسان، خود جسے خدا نے گندے بدبو دار پانی کی بوند سے تخلیق کیا، سمندروں کو چیر کر نئ زمینوں اور نئے آسمانوں کو دریافت کرتے کرتے اپنی اصل حقیقت کو بھی بھلائے بیٹھا ہے۔
ابد سے لے کر ازل تک دیکھا جائے تو انسان کی اصل حقیقت ساحل سمندر پر پھیلی بیکراں ریت کے ایک ذرے سے بھی کمتر ہے۔
ایک انسان کی اصل ساحل کی ریت پر پڑے قدموں کے نشان کی مانند ہی تو ہے جسے مٹتے شاید زیادہ دیر نہیں لگتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply